''سو دن حکومت کے ''

پیر، 16 ستمبر، 2013


پچھلے تین مہینوں میں عوام پر اسقدر ظالمانہ انداز میں تابڑ توڑ معاشی حملے کئیے گئے ہیں کہ ماضی میں اسکی مثال نہیں ملتی، لوگوں نے نواز شریف کو ووٹ دیا تھا کہ وہ انکی حالت میں بہتری لانے کے اقدامات کرے گا، مگر وہ تو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی قسطیں اتارنے کےلیئے عوام کی کھالیں اتارنے کا دھندہ شروع کر بیٹھا ہے،، اور مستقبل قریب میں یہ سلسلہ رکتا دکھائی نہیں دیتا۔،،

ابھی عوام کو مزید نچوڑا جائے گا تاکہ عالمی اداروں کے اقساط ادا کی جائیں تو دوسری طرف روپے کی قیمت میں مسلسل کمی کی جارہی ہے اور ایسا صرف عالمی سود خود اداروں کی ایماء پر کیا جارہا ہے۔ ان سو دنوں میں حکمرانوں کا کردار محض ان اداروں کے ریکوری افسران کا سا رہا ہے۔

حال ہی میں بجلی کے بلوں میں ہوش ربا اضافے نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں اور ان سے آخری نوالہ تک چھین لینے کی کوشش کی جارہی ہے، سبزیاں، پھل اور دیگر اشیائے ضرورت عوام کی پہنچ سے باہر نکل چکی ہیں اور اس طرح پاکستان کی مڈل کلاس کو کان سے پکڑ کر غربت کی دلدل میں دھکیلا جارہا ہے۔ ملک کے عوام پر عرصہء حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ اس مرتبہ ہم ایک ایسے نواز شریف کو دیکھ رہے ہین جو کسی بوڑھے شیر کی طرح شکار کرنے سے معذور ہوچکا ہو اور اسکے بعد آدم خور بن جائے۔

اس پر مستزاد کہ حکومتی کارکردگی بھی ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے، نہ تو چیئرمین نیب کی تقرری کی جاسکی ہے اور نہ ہی اسمبلیوں میں قائمہ کمیٹیاں بنانے کا کام شروع ہوا ہے، اوپر سے طویل المیعاد انرجی منصوبے بھی گھٹائی میں پڑ چکے ہیں اور ان پر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں کی جاسکی۔

ایسے میں عوام یہ کہنے میں بالکل حق بہ جانب ہیں کہ حکومت کے 100 دن مکمل ناکامیوں کی ایک داستان تھے اور پاکستانی عوام کے لیئے ایک ڈروانا خواب، اپوزیشن بھی حکومت کے ساتھ ساز باز کرچکی ہے کیونکہ دھرنوں کے شوقین عمران خان بھی آج تک نہ تو اسمبلی میں جاکر حکومتی پالیسیوں کو بے نقاب کرنے کے فرائض انجام دے پائے اور نہ ہی کسی قسم کے احتجاج کی ہمت کی۔

سرمایہ دارانہ سسٹم میں رہ کر عوام کے ساتھ اس سےزیادہ نیکیاں کی ہی نہیں جاسکتیں جتنی ان سو دنوں میں کی گئیں۔ اب پاکستانی عوام کو سوچنا ہوگا کہ چند لوگوں کے مفادات کی آبیاری کرنے والے اس سسٹم کو مقدس گائے کی طرح پوجتے رہنا ہے یا پھر پرانے کمبل کی طرح اتار پھینکنا ہے۔

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کو جو ساتھ لے کر چلے

ایسے دستور کو، صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

1 comments:

shahid کہا...


"ابھی عوام کو مزید نچوڑا جائے گا تاکہ عالمی اداروں کے اقساط ادا کی جائیں تو دوسری طرف روپے کی قیمت میں مسلسل کمی کی جارہی ہے اور ایسا صرف عالمی سود خود اداروں کی ایماء پر کیا جارہا ہے۔ ان سو دنوں میں حکمرانوں کا کردار محض ان اداروں کے ریکوری افسران کا سا رہا ہے۔"
بجا فرمایا۔دریں چہ شک است۔