بدھ، 1 جنوری، 2014
یہ ترقی یافتہ اقوام کا خاص طریقہء کار ہے جس کے مطابق ان لوگوں نے ہر حال میں زندہ رہنے کا ہنر سیکھ لیا ہے، یہ لوگ زندگی کو انجوائے کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے معاملات میں دخل دئیے بغیر ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک بھی ہوتے ہیں اور انہیں اپنی خوشیوں میں شامل بھی کرتے ہیں۔
دوسری طرف ہم ہیں کہ آپس میں باہم دست و گریباں ہیں، کہیں ذات پات کی تفریق ہے تو کہیں علاقائی اور زبان کی وجہ سے ہم لوگ ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں، مذہب جو کہ انسانوں کو فلاح کا راستہ دکھاتا ہے اور انسانی بہبود کا ایجنڈا لیکر آتا ہے ہم نے اسے بھی قتل و غارت گری کا ہتھیار بنا لیا ہے،
غیروں کا نیا سال چڑھتا ہے تو وہاں کے لوگ مسرت بھرے گیت گاتے ہیں مگر ہمارے نئے سال کی آمد پر لاشیں اٹھائی جاتی ہیں اور سہاگنوں کے بین سنائی دیتے ہیں۔
وہاں نئے سال کی آمد پر لوگ سیلبریٹ کرتے ہیں مگر ہم اپنے تہواروں کو ہلے گلے کی نذر کرڈالتے ہیں،
غیر اپنے بچوں کو خوشیاں منانے کی آزادی دیتے ہیں مگر ہمارے ہاں پولیس سڑکوں پر رکاوٹیں گھڑی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔
وہ لوگ حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے تہوار مناتے ہیں مگر ہم موٹر سائیکل کے سائلنسر نکال کر
لوگوں کو پریشان کرنے کے عمل سے مسرتیں کشید کرتے ہیں،
اوپر سے جماعت اسلامی کے لٹھ باز ایک ہفتہ پہلے ہی اپنے ڈنڈے شنڈے تیل میں بگھو دیتے ہیں تاکہ ''منچلوں'' کی خبر گیری کی جاسکے۔ یہ لوگ ہیپی نیو ائیر نائٹ کو خوب مستعد اور ہوشیار رہتے ہیں اور بوقت ضرورت ان نوجوانوں کی ٹھکائی وغیرہ بھی کی جاتی ہے۔
کیا یہی ہیں ہمارے انداز و اطوار جن کی مدد سے ہم اقوام عالم میں خود کو سربلند دیکھنا چاہتے ہیں؟
ہیپی نیو ائیر کے شور میں ہو سکے تو میرے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش ضرور کیجئیے گا۔
تمام دوستوں کو میری طرف سے نیا سال مبارک ہو۔ میری دعاء ہے کہ نئے سال کا ٹھٹھرتا اور لرزاں و ترساں سورج ہم سب اور تمام اقوام عالم کے لیئے محبت اور بھائی چارے کا پیغام لائے۔
آمین
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں