بدھ، 18 ستمبر، 2013
پیرزادہ فخر عالم ایک روائتی قسم کا وڈیرہ تھا اس لیئے اس میں جاگیرداروں اور گدی نشینوں کی تمام عادات و اطوار موجود تھیں حالانکہ یہ انگلینڈ سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری بھی لے کر آیا تھا مگر وہاں کے انسان دوست ماحول نے بھی اس کی خونخوار فطرت پر کوئی مثبت اثر نہیں چھوڑا۔
اسکے بارے میں زبانی خبریں تو اکثر ملتی رہتی تھیں مگر کسی اخبار یا چینل نے کبھی اسکی ذات پر ''کیچڑ'' ملنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ ہر ماہ سب کو لفافے باقاعدگی سے مل جایا کرتے تھے۔ اسکے مشاغل بھی روائتی قسم کے تھے جن میں گھوڑے پالنا، خونخوار کتے اور ظالم و جابر قسم کے بدمعاشوں کی پرورش شامل تھی۔ اسکے علاقے میں کسی کی عزت محفوظ نہیں تھی، جسکی بہو بیٹی پر نظر پڑتی اسے اٹھوا لینا اسکے لیئے کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ حکم عدولی کرنے والوں پر خونخوار کتے چھوڑنا اور کمزوروں کی زمینوں پر قبضے کرنا عام سی بات تھی۔
اسی روز شام کے وقت میں اسکی اوطاق میں اسکے سامنے بیٹھا انٹرویو کرنے میں مصروف تھا کہ ایک درمیانی عمر کا دیہاتی فریاد کرتا ہوا اوطاق میں داخل ہوا، اور چوہدری فخر عالم کے قدموں میں گر کر گڑگڑانے لگا۔ چوہدری صاحب آپ کے کارندے میری ''مج'' (بھیینس) کھول کر لے آئے ہیں، میرے پاس ایک ہی مج ہے جسکا دودھ بیچ کر گزارہ کرتے ہیں۔ چوہدری بولا اوئے کھالے،،،! جھوٹ کیوں بولتا ہے؟
تیری مج تو ہماری زمینوں میں گھس کر ساری فصل کو برباد کررہی تھی۔
نہیں چوہدری صاحب یہ جھوٹ بول رہے ہیں میں نے کبھی مج کو اکیلے چھوڑا ہی نہیں،
چوہدری نے کہا بس بس زبان بند کر اور جاکر دس ہزار روپے جرمانہ لیکر آ اور اپنے مج لے جا،
سرکار میں غریب آدمی ہوں میرے پاس دس ہزار کہاں سے آئے؟
اچھا زیادہ بک بک مت کر اور اپنی بیٹی چھیمو کو کل سے ایک ہفتے کے لیئے حویلی میں کام کرنے کےلیئے بھیج دینا تمارا جرمانہ معاف ہوجائے گا۔ کھالا (خالد) بے چارہ روتا دھوتا وہاں سے رخصت ہوگیا۔
انٹرویو پھر سے شروع ہوگیا اور میں نے اگلا سوال کیا،،،
چوہدری صاحب آپکے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اسکے باوجود کبھی زندگی میں حرام بھی کھایا ہے؟
چوہدری بولا صرف ایک مرتبہ حرام کھانے کا اتفاق ہوا تھا۔ ہوا یوں کہ ایک دن میرا جگری یار چوہدری غلام محمد مجھ سے ملنے آیا تو ہمارے کمیوں نے چھیدے مراثی کی دو مرغیاں پکڑ کر ذبح کرلیں مگر بعد میں پتہ چلا کہ یہ مرغیاں پکڑنے کے دوران ہیں اللہ کو پیار ہوگئی تھیں۔
ہمارے باورچی نے ڈر کے مارے ہمیں بتایا ہی نہیں اور اس طرح زندگی میں ایک ہی مرتبہ حرام کھانے کا اتفاق ہوا۔ اس کمبخت باورچی کو تو میں نے اسی وقت کتوں کے آگے ڈال دیا تھا۔
میں نے پنڈ کے مولوی صاحب سے فتویٰ لے لیا تھا کہ اگر انجانے میں حرام کھالیا جائے تو کھانے والے پر اسکا کوئی گناہ نہیں اور یوں اللہ پاک نے مجھے اس ''گناہ'' سے محفوظ رکھا،،، اسکی ذات بڑی غفور الرحیم ہے سلیم صاحب۔
اور میں اسکا منہ دیکھتا رہ گیا کہ کتنی آسانی کے ساتھ اس نے حرام اور حلال کا فلسفہ حل کردیا۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں