10
سب سے پہلے میں اس تقریب یا اجلاس کی انتظامیہ چنگاری فورم جرمنی اور اسکے لیے اس موضوع کو چننے والے دانیال رضا کو داد دینا چاہتی ہوں۔ کیونکہ جس قسم کا ذہنی اور روحانی انتشار پاکستان میں رہنے والے پاکستانیوں میں ہے ۔ اس سے کئی درجے بڑھ کر ملک سے باہر رہنے والے پاکستانیوں میں نظر آرہا ہے۔ ہم پاکستان میں بڑے بڑے گروہوں اور جماعتوں میں بٹے ہوئے ہیں تو یہاں ڈیڑھ ڈیڑھ انچ کی مسجدوں میں(حقیقی او ر معنوی دونوں معنوں میں) بٹے ہوئے ہیں۔اور یہ صورتحال ہر یہاں وہاں رہنے والے پاکستانی اور پاکستان سے دلچسپی رکھنے والے ہر فرد کے لیے نہایت غور طلب اور دلچسپ موضوع ہے۔
میں اپنے اس مضمون میں پاکستان کے موجودحالات کا ہر گز ہر گز ذکر نہ کرونگی ۔کیونکہ وہ سب کو معلوم ہی ہے۔ا ورا آپ کے دعوت نامے پر چھپی تصویر ان حالات کی تصویری شکل ہے۔
ہاں میں یہ ضرور کہوں گی کہ پاکستان میں یہ زوال اچانک نہیں آیا بلکہ یہ ہماری نادانیوں اور نا عاقبت اندیشیوں کے نتائج ہیں۔ ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرنا دراصل ہماری قومی مجبوری ہے۔کیونکہ تمام حکومتیں اور سیاسی جماعتیں نااہلی کی وجہ سے پاکستان کو کوئی جامع پروگرام ہی نہ دے سکیں ۔ قوم کو ترقی کرنے کے لیے کوئی سمت ہی نہ دے سکیں۔مثال کے طور پر وہاں پاکستان میں سیاسی نمایندوں کے چناؤ کا معیار اب تک برادری اور پیسہ ہے۔ پھر ہر نئی حکومت پرانی حکومت کے تمام جاری پروگرام بے سوچے سمجھے کہ اس سے ملک و قوم کو کیافایدہ ہورہا ہے یا کتنا نقصان ہو رہا ہے، ختم کر دیتی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ تعلیمی اداروں کے اردو اور اسلامیات اور تاریخ کے کورس بدل دیتی۔کیونکہ ا ن کتابوں میں انکی جماعت یاانکے اسلامی فرقے کے معاملات میں اختلاف ہوتا ہے۔ ہر آنے والی حکومت کے لیے قومی پیسہ او ر وقت اور اس کام پر بہائے گئے پسینے کے کوئی اہمیت ہی نہیں ہوتی ۔پھر دوسرا ظلم یہ کیا جاتا ہے کہ ہر آنیوالا نیا وزیر یا افسر اول تو وہ خود ہی نا اہل اور نالائق ہوتا ہے اوپر سے وہ اپنی شان دیکھانے لیے اپنے رشتے داروں اور دوست اقارب کو ملک کے انتہائی ذمدار عہدوں پر براجمان کر دیتا ہے۔ ہر آنے والی پارٹی بے حد بے دردی سے غیر ذمہداری کا مظاہرہ کرتی ہے اور کوئی ان سے جواب اور حساب طلب نہیں کر سکتا۔پاکستان کی جڑیں اس بے حسی کی وجہ سے کھوکھلی ہو چکی ہیں۔
میرے نزدیک یہ پاکستان کے زوال کی بنیادی وجوہات ہیں جو ہماری ملکی اور قومی شناخت بننے نہیں دے رہیں۔ کیونکہ وہاں برادری سسٹم ختم نہیں ہو رہا ،علاقائی اور مذہبی منافرت کو اپنے سیاسی مفادات کی اور کبھی ذاتی مفادات کی خاطر بڑھایا جاتا ہے اور مجرموں کو پناہ دی جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ملک سے باہر ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے پاکستانی ملک کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
تومرا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ جو بھی آپ یہاں سیکھ رہے ہیں وہ ان کو سیکھایءں ۔ بے شک کہ یہاں کی ہر بات اچھی نہیں جو کہ دنیا میں کہیں ہو بھی نہیں سکتی۔ ہم یہاں ان ترقی یافتہ ممالک میں ایک منظم نظام کو دیکھ رہے ہیں۔جہان دنیا جہان کی قومیتوں اور مذاہب کے لوگ سمائے ہوئے ہیں۔یہاں کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہوتابلکہ سب کے ساتھ پورا پورا قانون کے مطابق سلوک ہوتا ۔شاید یہ سو فی صد نہ مگر ۹۰ فی صد تو ضرور ہوتاہے۔ یہاں اکثر راہ چلتا فرد اپنے ملک کے قانون کا رکھوالا ہوتا ہے۔ یہاں ہر شخص ٹیکس دیتا ہے کیونکہ ٹیکس لینے کا نظام ہی ایسا ہے کہ ٹیکس چوری کرنا آسان نہیں۔یہاں ہر چھوٹے بڑے ادارے میں شفافیت ہے۔ پوچھ اور پکڑ ہے۔
یہاں نظام کی جڑیں عوام میں بہت گہری ہیں۔ یہاں کا تعلیمی نظام سب سے اولین مقام پر ہے ۔ پڑھانے کا طریقہ کار اہم ہے ۔۔یہاں کا ایک خاص اخلاقی اور ثقافتی کلچر ہے۔ یہاں صفائی کی اہمیت اور اسکے متعلق انتظامات اور احساس وشعور کی تربیت کا انتظام ہے۔ ان ممالک میں اور بھی بے تحاشہ خیالات اور احساسات ایسے ہیں جو ہمیں دنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو کر تے ہیں۔
مگر ہوتا کیا ہے ہم یہاں سے وہاں بھجتے کیا ہیں ؟ یہاں کا پیسہ اور اسکے ساتھ ایک خط لکھ کہ یہاں شراب پینے والے اور سور کھانے والے دوزخی رہتے ہیں۔ہم ان سے معاشرتی تعلقات نہیں کرسکتے۔ ہم یہاں بہت تنہا اور دکھی ہیں۔ہمارے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے۔زیادتی اور نفرت ہوتی ہے۔
اس قسم کے خیالات رکھنے والوں کی اکثریت کی تیسری یا چوتھی نسل یہاں کے سوشل نظام سے مسلسل فائدہ اٹھارہی ہے۔اوریہاں سے کمائے ہوئے سرمائے سے اپنے ملک میں بڑے بڑے گھر،اور پلازے بنا چکی ہے۔ اپنے بچوں کو یہاں کے خیراتی اداروں کی مدد سے تعلیم دلواء چکی ہے۔ مگر اپنی بند آنکھوں ،بنددلوں اور دماغوں کو نہ کھول سکی ہے۔بلکہ اپنے پیچھے گھروں میں پھیلے ذہنی اندھیروں، اور صدیوں پرانے نجاست اور طہارت کے تصورات کو تقویت مہیاء کر تے ہیں۔یعنی ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ افسوس کہ ہم یہاں سے پاکستاں صرف پیسہ اور تنگ نظری منتقل کر رہے ہیں۔ذہنی اور جسمانی ترقی کے راز نہیں۔
چاہیے یہ کہ ہم وہاں جائیدادوں کی مردہ دیواروں کے بجائے یہاں کی اخلاقی اصلاح اور معاشی فلاح کی زندہ روایات کی عمارات کھڑی کریں۔
پاکستاں میں تہذیب و ثقافت اب صرف عجائب گھروں میں شیشے کے ڈبوں میں بند ہو کر رہ گئی ہے۔ گلی کوچے،بازار سڑکیں کتابوں میں لکھی اخلاقی داستانوں سے محروم ہوتی جارہی ہے۔ بلکہ ان کتابی اخلاقی اقدار اور خاکساری کو دھوکے اور فریب کے لیے کسی کو بیواقوف بنانا ہو تضحیک کا نشانہ بنانا ہو،لوٹنا اور دھوکہ دینا ہو تو یہ سب ہتھکنڈوں کے طور پراستعمال کیا جاتا ہے۔ ملک سے باہر ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے معاشروں میں جہاں انصاف ،شرافت اور تہذیب اور صلاحیت کو کم اہمیت ملتی ہے۔ اپنی خیراتوں سے وہاں کے عام انسان،عام طالب علم،عام عورت اور عام بچوں کے لیے تقریبات کروائیں۔جس میں ان کو اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے کے اخلاقی معیار اور اہمیت کا اندازہ ہو۔انکے لیے ایسے پتلی تماشے اور اسٹریٹ تھیٹر کروائے جایءں جن سے وہ پہلے کھانے پینے کے آداب سیکھیں کیونکہ انہوں نے کھانے پر چھپٹتے ہوئے لوگوں کو دیکھا ہے آرام اور ادب سے اپنی باری کا انتظار کرنے والوں کو نہیں دیکھا۔ اس کے بعد ان کو کھانا یا خیرات دی جائے۔
وہ لوگ جو اپنی زکواتہ بھجواتے ہیں۔چاہیے کہ وہاں ایسی ورکشاپ ،ادارہ یا سافٹ ویر کا اسکول کھولیں جس سے سیکھنے کے بعد کوئی بھی مرد و عورت اپنی کمائی کا خود بندوبست کر سکے۔نا کہ وہ اگلے سال بھی ہاتھ پھیلا کر بیٹھا ملے۔
تعلیمی اور علمی ترقی کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے افراد اپنے اپنے علاقوں سے طلباء کے ایکسچینج پروگرام کروائیں۔ تو یقیناًتبدیلی لانے والوں میں اپنا نام لکھوا سکتے ہیں۔اس سلسلے میں ائیر فورٹ یونیورسٹی کی مثال دی جا سکتی ہے۔جہاں گزشتہ بارہ سال سے، اسلام ان دی وسٹ249 کے نام سے دنیا بر کے اسلامی ممالک سے تیس طلباء کو مدعو کیا جاتا ہے۔ پھر وہیں پر پاکستان کے ساتھ،سوشل میڈیا کا اسلامی معاشروں میں کردار ،پر تیں سالوں سے ورکشاپ کروائے جا رہے ہیں۔اسی یونیورسٹی نے اردو سمر اسکول شروع کروایا ہے۔تاکہ دونوں ثقافتوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقعہ مل سکے۔
پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک میں مطالعہ کی عادت کم ہے۔ وہاں لائبرئیریاں بنوائی جا سکتی ہیں۔وہ معاشرے جہاں مطالعہ کم ہوتا ہے۔تعلیم کی کمی ہوتی ہے۔ وہیں جذباتیت، انتہا پسندی اور تعصب پنپتا ہے۔ کیونکہ وہ معاشرہ چند پڑھے لکھے افراد کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتا ہے۔ مطالعہ اور تجزیہ کی عادت بنانے کے لیے لائیبری کا ہونا بے حد ضروری ہے۔
تمام اسلامی ممالک میں تعلیم کی کمی کی وجہ سے جذباتیت زیادہ ہے، اس لیے وہاں دین اور مذہب کے نام پر زیادہ خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ تعلیم کو عام کرنے کے لیے سب سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
دین کا انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بہت دخل ہوتا ہے۔مگر دین کو قوم اور ملک کا رکھوالا بنا دینے سے بہت سے پیچیدہ مسائل جنم لیتے ہیں۔ جن کا آنکھوں دیکھا حال ہم روزانہ دنیا بھر کے ٹیلی ویژن چینلز پر دیکھتے ہیں۔اگر ادیان کو ملکی قوانین کا پابند کر دیا جائے تو انسانیت بہت سے افسوس ناک واقعات سے بچ جاتی ہے۔ جرمنی اور یورپ اسکی مثال ہیں۔بلکہ مغرب کی ترقی کا راز ہی یہ ہے ۔کہ یہاں دین کو سیاست سے علیحدہ کر دیا گیا ہے۔یہاں دین اسٹیٹ کی حفاظت نہیں کرتا بلکہ اسٹیٹ ادیان کی حفاظت کرتی ہے کس ایک مذہب یا فرقے کو دوسرے کو کافر یا کم تر کہنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں۔ یہاں تمام ادیان کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ یہاں کے دینی گروپ ،اورگانیزیشن اور ادارے مار دھاڑ ، تعصب اور نفرت پھیلانے کے بجائے سوشل سیکٹر جن میں زیادہ تر کنڈر گارٹن ،بوڑھوں کی خدمت کے ادارے ،ہسپتال اور باغ شامل ہیں، میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مصروف عمل ہیں۔لیکن کہیں ایسا نہیں ہے کہ ایک دینی ادارہ کسی دوسرے فرقے مذہب یا دین والے کو اپنے ادارے میں نہ آنے دے۔کیونکہ یہاں کے تمام ممالک کے آئین میں امتیازی سلوک کے حوالے سے قانون موجود ہے۔اس قسم کے قوانین اور آئین ایک سکیولر ملک ہی بنا سکتا ہے۔سیکیولر کا مطلب ہر گز لا دینیت نہیں ہے۔بلکہ اس کا مطلب ہر دین کو اس کا حق اور عزت دینا ہے۔ ان تمام ممالک میں جہاں کسی ایک مذہب یافرقے کو اہمیت حاصل ہو جاتی ہے وہاں خون ریزی ،فرقہ پرستی اور بربریت پھیل جاتی ہے۔انسانوں کو اپنی ذاتی خواہشات اور تعصبات سے بچانے کے لیے سخت قسم کے قانونی شکنجے کی ضرورت ہوتی ہے۔
کسی بھی ملک و معاشرے کو کسی ایک کی انفرادی سوچ اور کوشش سے نہ تو بچایا جا سکتا ہے اور نہ ہی بدلا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ایک گروپ ایک لیڈر اور اجتماعی سوچ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ایک تنظیم کی ضرورت ہوتی ہے جو ایک اجتماعی خیال کو پروان چڑھانے کے لیے پروگرام کروائے۔اسکے کارکنوں میں اخلاص ،سچائی اور خدمت خلق کا جذبہ ہو۔ ملک سے باہر رہنے والے افراد ان بہت سی خوبیوں اور برائیوں کو واضح طور پر دیکھ اور محسوس کر سکتے ہیں جو ملک کے اندر اور ان حالات کے عادی افراد نہیں دیکھ سکتے۔
(تحریر : بشریٰ اقبال ملک)
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں