پیر، 9 ستمبر، 2013
آج جس اہم ترین عنصر کو زیر بحث نہیں لایا جاتا وہ سرمایہ دارانہ نظام کا زوال ہے۔اور اس زوال کے نتیجے میں بڑھنے والے سماجی معاشی تضادات ہیں۔ان تضادات کو تجزیوں، تبصروں، ٹاک شوز یا افواہوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ان تضادات کی بنیادی وجہ معاشی بنیادوں کی خستہ حالی اور زوال پذیری ہے جس میں بہتری کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔برآمدات میں مسلسل کمی ہو رہی ہے ۔ ملکی معیشت غیر ملکی قرضوں کے بعد اب اندرونی قرضوں کے بوجھ تلے سسک رہی ہے۔سٹیٹ بینک نے ملکی بینکوں کی جانب سے حکومت میں سرمایہ کاری کے رجحان کو معیشت کے لیے ناقابل برداشت قرار دیا ہے۔ اندرونی قرضوں کا حجم کئی کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ عالمی سرمایہ داری کے گہرے ہوتے بحران میں یہ توقع رکھنا کہ یہاں کے حکمران اور معیشت دان کسی معجزے کے ذریعے بہتری لے آئیں گے انتہائی بیوقوفانہ سوچ ہو گی۔اور معیشت کی اس ڈولتی کشتی کے اوپر قائم عدالتی، پارلیمانی ، عسکری اور دوسرے ڈھانچوں کے استحکام کی توقع رکھنا بھی دیوانے کا خواب ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں