پیر، 30 دسمبر، 2013
راستے میں جتنے بھی مزارات آتے گئے وہ کٹا ملنے پر ایک روپیہ چڑھاوے کی منت مان کر آگے بڑھتا گیا،
ایک جگہ پہنچ کر جب گجر صاحب نے مزید ایک روپیہ کسی بابے کی نذر کرنے کا وعدہ کیا تو بیٹا کہنے لگا کہ ابا چلو گھر واپس چلتے ہیں۔
باپ کے پوچھنے پر بیٹا کہنے لگا کہ ابا جی ہمارے کٹے کی قیمت سے زیادہ تو آپ منتیں مان چکے ہیں چنانچہ اب کٹا مل بھی گیا تو یہ گھاٹے کا سودا ہوگا اس لیئے میرا خیال ہے گھر واپس جانا چاہئیے۔
اس پر باپ زور زور سے ہنسنے لگا،،
جب بیٹے نے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو باپ بولا،،، میری بچے،،،!
زرا کٹے کے سینگوں پر ہاتھ تو پڑنے دو، ان بابوں شابوں کو میں دیکھ لوں گا۔
یہ واقعہ اس وقت یاد آیا جب میاں نواز شریف اور جناب خواجہ آصف نے اس قوم کو خوشخبری سنائی ک بجلی کا بحران 6 سال سے پہلے حل نہیں ہوسکتا، جبکہ الیکشن کے دوران 6 ماہ کے اندر اس مسئلے سے قوم کی جان چھڑانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اب حکومت کا کٹا اور اسکے سینگ، دونوں میاں صاحب کے ہاتھ میں آچکے ہیں اب انہوں نے ہمارے ساتھ وہی سلوک کرنا ہے جس کا وعدہ گجر بھیا نے اپنے بیٹے کے ساتھ کیا تھا۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں