پیر، 16 ستمبر، 2013
میرا تعلق انٹیلی جنس کے شعبے سے ہے ، قارئین کرام جانتے ہونگے کہ ہمارے کام میں راز داری اور خود کو دنیا کے سامنے طاہر نہ کرنے کی کتنی اہمیت ہوا کرتی ہے،
ہمیں اکثر چائے خانوں، حجاموں کی دکانوں اور ہوٹلوں وغیرہ میں گھنٹوں بیٹھ کر ارد گرد کی سن گن لینا ہوتی ہے تاکہ اگر کچھ مشکوک قسم کے لوگ وطن عزیز کے خلاف کسی قسم کی منصوبہ بندی کرنے میں مصروف ہوں تو ہماری ایجنسی انکا پیچھا کرکے ان ہاتھ ڈال سکے۔
خاص طور پر نائین الیون کے واقعے کے بعد تو ہماری ذمہ داریوں میں اور بھی اضافہ ہوچکا ہے، دنیا پھر سے آئے ہوئے جرائم پیشہ افراد، دہشت گردوں اور غیر ملکی ایجنٹوں نے پاکستان کو نانی کا گھر سمجھ لیا ہے،، جسے دیکھو منہہ اٹھائے چلا آتا ہے۔
ایک دن مجھے اوپر والوں سے حکم ملا کہ کراچی کہ لاہور کے علاقے بادامی باغ میں بھولا نام کا ایک شخص رہتا ہے اس سے ملکر کچھ اہم معلومات حاصل کرو اور انہیں افسرانِ بالا تک پہنچا دو،
مجھے بھولا صاحب کے کوائف اور اتہ پتہ بھی نہیں بتایا گیا اور مجھے یہ حکم ملا کہ اسے خود ہی اپنے ذرائع سے تلاش کرنا ہے، چنانچہ میں مسٹر بھولا کی تلاش میں بادامی باغ کو کھنگالنے میں جُت گیا،، صبح سے لیکر شام ہونے کو آگئی مگر میرا مطلوبہ بندہ نہیں مل سکا۔
آخر کار میں نے ایک چائے خانے کا رخ کیا کہ شائد یہیں سے گوہر مقصود ہاتھ آجائے، ایک کپ چائے کا آرڈر دینے کے بعد میں نے چائے والے سے پوچھا کہ تم کسی بھولے نامی بندے کو جانتے ہو؟
اس نے کہا کہ جناب آپ پتہ نہیں کس بھولے کی بات کررہے ہیں،، ایک بھولا تو دوبئی گیا ہوا ہے، دوسرا کراچی میں جاب کرتا ہے،، ایک اور بھولا ہے جو کہ سائیں لوک (فاترالعقل) ایک بھولا ٹھیکیدار ہے جو اکثر اندرون سندھ کے دورے پر رہتا ہے،،
ویسے خود میرا نام بھی بھولا ہے،،،،
میں نے اسکے قریب جاکر آہستہ سے اپنا کوڈ ورڈ ادا کیا '' آج موسم بڑا خوشگوار ہے''
چائے والا مسکرایا اور کہنے لگا،،،
اچھا صاحب آپ بھولے جیمز بانڈ سے ملنا چاہتے ہیں نا؟
بس دو گلیاں چھوڑ کر دائیں مڑ جائیں نکڑ والا مکان اسی کا ہے۔
میں حیرت سے اسے دیکھتا رہ گیا اور ساری بات میری سمجھ میں آگئی کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارکردگی اس قدر ''شاندار'' کیوں ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں