کاوہ لوہار

پیر، 23 ستمبر، 2013



رات کا پچھلا پہر تھا جب دروازے پر زوردار دستک ہوئی،،،

کون ہے؟۔۔۔۔
کاوہ لوہار نے دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا،، لیکن جواب دینے کی بجائے کوئی درجن بھر سپاہی اسے دھکا دیتے ہوئے گھر کے اندر داخل ہوئے اور اسکے دونوں نوجوان بیٹوں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈل دیں،،،،،

جناب انکا قصور کیا ہے؟
سپاہیوں کا سردار بولا،،
قصور تو کوئی نہیں لیکن تم خوش قسمت ہو کہ نمہیں ایک مرتبہ پھر ہمارے عادل اور رحم دل بادشاہ کی خدمت کا موقع ملنے والا ہے۔ یہ سنتے ہی کاوہ لوہار کی بیوی جو اس سے قبل چیخ و پکار کررہی تھی ایک دم زمین پر گر کے بے ہوش ہوگئی اور سپاہی انکے بیٹوں کے لے کر چلے گئے،،،،،،

یہ کوئی 600 سال قبل مسیح کا زمانہ تھا جب ایران پر ایک ظالم ،سفاک، عیاش اور بدکردار بادشاہ ضحاک بن علوان کی حکومت تھی جس نے بادشاہ جمشید کو قتل کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔اس بادشاہ کو کندھوں پر سرطانی پھوڑے تھے جن مین شدید درد اٹھا کرتا تھا، اس وقت کے طبیبوں نے اسکا علاج دریافت کیا، یہ ایک ایسی دوائی تھی جس میں ہر روز 2 انسانوں کا مغز استعمال ہوتا تھا اور اس دوائی کی پیسٹ بنا کر لگانے سے بادشاہ کے کندھوں کا درد ایک دن کےلیئے ٹھیک ہوجاتا۔

پہلے پہل تو سزائے موت کے مجرموں کا مغز استعمال مین لایا گیا، جب سزائے موت کے قیدی ختم ہوگئے تو عام جرائم مین ملوث قیدیوں کا قتل کرکے انکا مغز بادشاہ کی دوائی بنانے مین استعمال کیا جاتا،، جوں جوں وقت گذرتا رہا ، جیلوں سے قیدی بھی ختم ہوگئے اور پھر بے گناہ عوام کی باری آگئی، کاوہ لوہار کے 2 بیٹے پہلے بھی اسی ناکردہ جرم مین مارے گئے تھے اور آج ان دو بیٹوں کو بھی بادشاہ کے لوگ اٹھا کر لے گئے۔کاوہ لوہار جتنے بھی وزراء اور امراء کو جانتا تھا انکے پاس اپنے بیٹوں کی جان بخشی کی درخواست لیکر گیا لیکن کسی نے بھی اسکی ایک نہیں سنی،

یاد رہے کہ بادشاہ کی اس میڈیکل دہشتگردی کا نشانہ صرف پسا ہوا غریب اور مڈل کلاس طبقہ ہی ہوا کرتا تھا۔ امراء اور
رئوساء سے مایوس ہو کر کاوہ لوہار نے چمڑے کا پرچم تیار کیا اور بادشاہ کے خلاف اعلانِ بغاوت کردیا، وہ گلیوں اور بازارون مین بادشاہ کے مطالم کے خلاف تقریریں کرتا اور بادشاہ کے ستائے ہوئے لوگ اسکے ارد گرد اکٹھے ہونا شروع ہوگئے، جلد ہی سارا اصفہان اسکے ساتھ ہوگیا۔اس پرچم کے بارے مین عجیب و غریب کہانیاں مشہور ہوگئیں، اور اس پرچم کو خدا کی طرف سے فتح کا نشان سمجھا جانے لگا،، جب بادشاہ کی افواج کو پے درپے شکستین ہوئیں تو لوگوں کا ایمان اس جھنڈے پر اور بھی مضبوط ہو گیا۔

تاریخ میں اس پر اسرار جھنڈے کو ؛درفش کاویانی؛ کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ ضحاک کو شکست دینے کے بعد قتل کردیا گیا اور لوگوں نے کاوہ لوہار کو بادشاہی کی پیشکش کی لیکن اس نے انکار کردیا اور اسکے بعد تاریخ انسانی میں کاوہ لوہار کوئی ذکر نہیں ملتا۔

ایران مین اس جھنڈے کو ایس خاص حیثیت حاصل ہوگئی تھی ، اسے فتح کا نشان سمجھا جاتا تھا، جس میدان میں یہ جھنڈا لہرایا جاتا وہان ہر مخالف فوج پر دہشت طاری ہوجاتی اور اور وہ نفسیاتی طور پر ہی آدھی جنگ ہار چکی ہوتی۔ بعد میں آنے والے بادشاہوں نے اس پرچم پر ہیرے جواہرات مزین کروائے اور یہ جھنڈا کوئی 1100 سال تک ایرانیوں کی فتوحات اور عروج کی علامت بنا رہا۔

ایران کے آخری ساسانی بادشاہ یزدگرد کا زمانہ آیاتو اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے خلیفہ تھے ، انکے دور مین درفش کاویانی سرنگوں ہوا اور آپ کے پاس لایا گیا جس پر سے ہیرے جواہرات نکال کر مالِ غنیمت کے طور پر تقسیم کردئیے گئے اور اس پرچم کو جلا کر خاک کردیا۔۔اور فرمایا! سوائے اللہ کے کوئی چیز بھی یہ طاقت نہیں رکھتی کہ وہ کسی انسان کی مدد اور حمائت کرسکے؛ یوں اس مشہور زمانہ پرچم کے ظہور، عروج اور زوال کی داستان تمام ہوئی،لیکن انسانیت پر ظلم، بربریت اور درندگی کا دور آج بھی ختم نہیں ہوا،

آج بھی عوام پر ضحاک مسلط ہے۔

ہے کوئی کاوہ لوہار؟
یا پھر ہمارے مقدر مین ضحاک کی دوائی کا جزو بننا ہی لکھا ہے؟