بلدیاتی انتخابات اور خدمتِ عوام

منگل، 12 نومبر، 2013


آج ایک صاحب کے ساتھ کاغذاتِ نامزدگی داخل کروانے کے لیئے سیشن کورٹ گوجرانوالہ گئے جہاں مجھے انکا تائید کنندہ بننا تھا،

سیشن کورٹ میں ''عوامی خدمت'' کا جذبہ رکھنے والوں کا ایک ہجوم تھا جو کاغذاتِ نامزدگی داخل کروانے کو بیتاب تھا، تب میں نے سوچا کہ ہزاروں کی تعداد میں آئے ہوئے یہ ''عوامی خدمت گار'' اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ پاکستان کے لوگ ابھی تک خدمت خلق کے جذبے سے عاری نہیں ہوئے، اور ہم جیسے لوگ فیس بک پر بیٹھ کر بلا وجہ ہی اس قوم کو بے حسی اور بے ضمیری کے طعنے دیتے رہتے ہیں۔ جب کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ''عملی'' طور پر عوام کی حجامت،،،،،
معاف کیجئیے، عوام کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر انتخابی دنگل میں کودنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔

سیشن کورٹ جا کر معلوم ہوا کہ ہمارے امیدوار کے تجویز کنندہ کا شناختی کارڈ گم ہوگیا،
خیر ،،،،! کسی اور صاحب سے انکا نام تجویز کروایا، اسکے بعد اگلا مرحلہ بیان حلفی کا تھا جو 20 روپے کے اسٹامپ پیپر پر لیا جانا تھا مگر وہ بلیک میں 100 روپے تک فروخت ہوتا رہا۔

ایک دن پہلے جمع کروائے جانے والے کاغذاتِ نامزدگی کو کینسل کرکے نئے کاغذات مہیا کیئے اور ایک دن پہلے بینک میں جمع کروائی جانے رقوم بھی ضائع قرار دے دی گئیں۔ اور امیدواروں سے نئے سرے سے الیکشن فیس وصول کی گئی۔

ریٹرننگ آفیسر کے دفتر میں پہلے لائن میں لگ کر خوب ذلیل و خوار ہونے کے بعد پیسے جمع کروائے اور پھر اسکے بعد ایک نئی قطار میں لگنے کے بعد کاغذاتِ نامزدگی داخل کروایے گئے۔

اتنا کشٹ اٹھانے کے بعد بھی مجھے تو یقین نہیں کہ الیکشن ہو جائیں گے،
بہر حال،

''ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق''