ہفتہ، 28 ستمبر، 2013
بہت سے دوستوں نے ممکن ہے کہ بارٹر سسٹم کا نام نہ سنا ہو اس لئیے پہلے اسکی تشریح کرتا چلوں۔زمانہء قدیم میں جب کرنسی یا سونے چاندی جیسی قیمتی دھاتوں کا استعمال وجود میں نہیں آیا تھا تب تجارت میں لین دین کے لیئے ایک طریقہء کار وضع کیا گیا تھا جس میں جنس کے بدلے جنس یا جانور اور غلام وغیرہ دوسرے فریق کے بطور رقم ادا کئیے جاتے تھے، اسے بارٹر سسٹم کہا جاتا ہے
آج کا دلچسپ واقعہ گو کہ بارٹر سسٹم کی مروجہ تشریح پر پورا نہیں اترتا مگر اس میں کچھ مماثلت ضرور پائی جاتی ہے۔ میں شائد پانچویں کلاس میں پڑھتا تھا جب ہمارے ایک دوست کو اس کے والد محترم نے 22 انچ کی بائیسکل لے کر دی اور اسے کہا کہ باہر گراؤنڈ میں جاکر اسے چلانے کی پریکٹس کرو میں تھوڑی دیر میں آکر تمہیں سائیکل چلانے میں بالکل طاق کردوں گا،
میرے دوست کے والد پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل تھے اور آنے جانے کے لئیے انہوں نے ایک عدد ویسپا رکھا ہوا تھا،
اس زمانے میں بائیسکل بھی کسی کسی کے ہاں ہوا کرتی تھی اس لیئے موٹر سائیکل اور ویسپا رکھنا اپر مڈل کلاس کی نشانی ہوا کرتا تھا، آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس دور میں پورے بہاولنگر شہر میں گنتی کے دو یا 4 ویسپا گھومتے دکھائی دیا کرتے تھے۔ موٹر سائیکل کا رواج تو لگتا ہے سرے سے مفقود تھا اور استطاعت رکھنے والوں کی پسندیدہ ترین سواری ویسپا ہی کہلاتی تھی۔
میرے دوست نے سائیکل پر سواری شروع کی اور ہم تمام لڑکے اسے دھکا لگا کر سائیکل چلانے کی تربیت دینے کی کوشش کرنے لگے، اتنے میں ایک اجنبی شخص وہاں آیا اور ہمیں پیچھے ہٹا کر اس لڑکے کو سائیکل سکھانے لگا۔
کچھ دیر کے بعد اس نے لڑکے کو نیچے اتارا اور کہا کہ دیکھو جس طرح میں پیڈل چلاؤں گا اسے غور سے دیکھنا تاکہ بعد میں تم بھی اسی طرح سائیکل چلانا۔ میدان کے دو تین چکر لگانے کے بعد موصوف نے اپنا رخ بدلا اور جنگل کی طرف سائیکل بھگا دی جو وہاں سے کوئی 2 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔
ہمارے شور مچانے پر وکیل صاحب اپنے ویسپے سمیت تشریف لائے اور اکیلے ہی چور کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے۔ کوئی نصف گھنٹے کے بعد انکی واپسی کچھ اس طرح ہوئی کہ وہ اپنے پسینے پسینے بھاری بھرکم وجود کو سائیکل پر لاد کر بڑی مشکل سے کھینچ کر لانے میں کامیاب ہوئے۔
جب دیگر تفصیلات کا پتہ چلا تو سب کا مارے ہنسی کے برا حال ہوگیا،
ہوا کچھ یوں کہ وکیل صاحب کو قریب پہنچتا دیکھ کر چور نے سائیکل سے چھلانگ لگائی اور پھرتی کے ساتھ ایک اونچے درخت پر چڑھ گیا اور وہاں دبک کر بیٹھ گیا،
وکیل صاحب نے اسے گرفتار کرنے کی غرض سے درخت پر چڑھنا شروع کیا اور جب چور سے تھوڑی دور رہ گئے تو چور نے اچانک ایک ٹہنی کو پکڑا، اس سے لٹک کر بندر کی طرح زمین پر چھلانگ لگائی اور وکیل صاحب کا ویسپا لے کر یہ جا وہ جا،،،،،،
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں