جمعرات، 19 ستمبر، 2013
سیلاب زدہ علاقوں میں اشیائے ضرورت کے 2 ٹرک بانٹنے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ تو اُونٹ کے منہہ میں زیرے والی بات ہے، تباہی اور بربادی ہماری توقع سے کہیں زیادہ تھی اور وہاں کے لوگ ہر لمحہ زندگی سے دور اور موت سے قریب تر ہوتے جا رہے تھے۔
نہ حکومتی امداد وہاں تک پہنچ پا رہی تھی اور نہ ہی نام نہاد فلاحی تنظیمیں کچھ کرنے میں کامیاب تھیں، حد نظر تک سیلاب کا پانی تھا جس میں لوگوں کے گھر، جانور اور فصلیں ڈوب کر ختم ہوچکی تھیں،، ان لوگوں کےلیئے زندگی کا سفر از سرنو شروع کرنا ناممکن سی بات لگتی تھی۔
محلے کے نوجوانوں نے اپنے جیب خرچ سے چندہ ڈال کر امدادی کاموں کا آغاز تو کردیا تھا لیکن اس سے ہمیں ھوصلہ ملنے کی بجائے حد درجہ مایوسی ہوئی، خاص طور پر حکومت کا بے اعتنایانہ رویہ ہمارے لیئے ناقابلِ یقین تھا۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن پر بلند و بانگ دعوے کئیے جارہے تھے مگر عملی طور پر ہمیں وہاں کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دیا۔
اسی وجہ سے ہم سب نے ملکر فیصلہ کیا کہ واپس جاتے ہی محلے کے بزرگوں اور کاروباری حضرات کو متحرک کیا جائے اور ان سے چندہ لیکر لوگوں کی بحالی کا کام سٹارٹ کیا جائے۔ ہم جانتے تھے کہ ہم جیسے نوآموز نوجوانوں کے لیئے یہ ایک انتہائی مشکل کام ہے مگر کسی نہ کسی کو تو یہ کرنا ہی تھا۔ اسی لیئے ہم نے میدانِ عمل میں کودنے کا ارادہ کرلیا اور چندے کی مہم پر نکل کھڑے ہوئے۔
ہماری یہ مہم توقع کے مطابق تو نہ تھی مگر پھر بھی اسے حوصلہ افزا ضرور کہا جاسکتا ہے، ممکن ہے لوگوں کے خیال میں ہم جیسے لونڈے لپاڑے اعتماد کے قابل نہ ہوں۔ پھر ہماری کوئی باقاعدہ تنظیم تو تھی نہیں جس نے میڈیا کے زور پر خود کو ایک ''عظیم مخیر ادارے'' کے طور پر منوایا ہوا اور متعدد فوٹو سیشن کروانے کے بعد قابلِ اعتماد حیثیت بنا چکے ہوں۔
بہر حال ،،،،!
گھر گھر دستک دینے کے دوران حاجی فضل دین صاحب کا دروازہ دیکھ کر کچھ لڑکوں نے کہا کہ چھوڑو یار وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں،، یہ انتہائی کنجوس انسان ہیں جو جلی ہوئی روٹی سے چھلکا اتارنے کے بھی قائل نہیں، مگر میرے کہنے پر انکے در پر دستک دی گئی اور انکے سامنے مدعا بیان کیا گیا۔
حاجی فضل دین نے ایک نظر ہم سب پر ڈالی اور کہنے لگے کہ بوڑھی اور بیمار ماں کی دیکھ بھال اور اسکے دوا دارو کا خیال رکھنا نیکی نہیں ہے؟
ہم نے جواب دیا کہ بے شک یہ بڑی نیکی ہے،
وہ بھر بولے، کیا چھوٹے چھوٹے یتیم بہن بھائیوں پر دست شفقت رکھنا اور انکی ضروریات کا خیال رکھنا نیکی نہیں ہے؟
اب ہمارے شرمندہ ہونے کی باری تھی کہ ہم تو انہیں انتہائی کنجوس اور کمینہ انسان سمجھتے رہے اور یہ کتنے عظیم نکلے؟
حاجی صاحب نے اپنی بات جاری رکھی،،،،، میری ایک بیوہ چچیری بہن اور ایک معذور ماموں ہیں انکی ضروریات پورا کرنا نیکی نہیں ہے؟
بالکل حاجی صاحب اس میں کیا شک ہے؟
حاجی فضل دین نے ایک گہری سانس لی اور گویا ہوئے،
جب میں یہ سب کچھ نہیں کرتا تو تم کس منہہ سے چندہ لینے آگئے ہو؟
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں