بدھ، 19 فروری، 2014
ہوگئے ہیں اور اب وہ کسی بھی وقت بغیر کسی پیشگی اطلاع کے مرحوم و مغفور ہو سکتے ہیں۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
سنا ہے کہ ان کے گھر میں فاتحہ خوانی کے تمام انتظامات مکمل کرلیئے گئے ہیں، آئیت کریمہ اور ''گِٹکیں'' پڑھنے والے ملاؤں کی بھی کرایہ پر بکنگ کر لی گئی ہے، اب اگر دیر سویر ہے تو صرف علامہ صاحب کی طرف سے ہے۔
زرا سوچئیے کہ شیخ الاسلام کی وفات حسرت آیات کے بعد پاکستان کچھ سونا سونا سا نہیں لگنے لگے گا؟
ان کے دم سے گلشن میں جو بہاریں تھیں، جو رونق میلہ تھا وہ انکے ساتھ ہی عنقا ہو جائیں گی، میڈیا بھی 4 دن انکی یاد میں پروگرام پیش کرے گا اور پھر دستور زمانہ پر عمل کرتے ہوئے بھول جائے گا،
یقین کیجئیے ایسی باتیں سوچتے ہوئے ہمارا تو کلیجہ منہ کو آرہا ہے مگر کیا کیجئے کہ واپسی کا وعدہ برحق ہے اور اس پر چار و ناچار عمل تو کرنا ہی ہوگا۔
''موت سے کس کو رستگاری ہے''
'' ہم تو یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر انکی جگہ تخت نشین ،،، معاف کیجئیے گا، گدی نشین ہونی والی شخصیت میں ان جیسی ''خوبیاں نہ ہوئیں تو ہر سال اسلام آباد میلہ کون لگایا کرے گا۔ علامہ صاحب کو چاہئیے کہ وہ جاتے جاتے اپنے جانشین کو وصیت کرتے جائیں کہ انکی برسی ہر سال شاہراہ دستور پر دھرنا دیکر منائی جائے۔
چونکہ ابھی تک شیخ الاسلام نے اپنی عمر میں ایکسٹینشن کی کوئی بشارت نہیں سنائی اس لیئے ہم نے انکی پرانی پیشین گوئی کی بنیاد پر یہ پوسٹ لکھی ہے، البتہ عمر میں توسیع کی خبر آئی تو اس پوسٹ کو کینسل سمجھا جائے کیونکہ علامہ صاحب کی پیشین گوئیاں اور بشارتیں حیرت انگیز طور پر اوپر سے نازل ہوتی ہیں اس لیئے ہم جیسے زمینی باشندوں کو ان پر اعتراض کرکے خدائی اور ''شیخائی'' کاموں میں مداخلت سے باز رہنا چاہئیے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں