بجٹ کے ٹوپی ڈرامے

منگل، 10 ستمبر، 2013


کچھ عرصہ پہلے تک سالانہ بجٹ کے روز پورا ملک رک سا جاتا تھا۔ہر شخص کی کچھ نہ کچھ امیدیں یا خوف ہوتے تھے۔عوام بجٹ کی رسم کو کسی حد تک سنجیدہ لیتے تھے۔ اس وقت کسی نہ کسی شکل میں معیشت میں کچھ تھوڑا بہت استحکام بھی ہوتا تھا اور بجٹ میں کیے گئے اعلانات میں تھوڑی سی سچائی بھی ہوتی تھی۔ لیکن اب وہ سنجیدگی اور توجہ ختم ہو چکی ہے اور جب تک یہ سماجی معاشی نظام موجود ہے معیشت ہر دم مزید کھوکھلی ہوتی جائے گی۔ گزشتہ عرصے میں بجٹ صرف جھوٹ اور مکاری کا ایک پلندہ بن کر رہ گیا ہے۔ تقریباً ہر دوسرے دن قیمتوں میں اضافے اور نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے اعلانات ہوتے رہتے ہیں۔ ایک ہفتہ بھی نہیں گزرپاتا کہ عوام پرمہنگائی کا حملہ کر دیا جا تا ہے اوریہ کہہ کر ان کے زخموں پر نمک چھڑکا جاتا ہے کہ اس اضافے سے عوام کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اب بجٹ میں سوائے دھوکے، فریب اور جعلسازی کے کچھ نہیں ہوتا۔ حکومت اپنی لوٹ مار کو عوام کی فلاح کے طور پر پیش کرتی ہے اور اعداد و شمار کو بھی مسخ کیا جاتا ہے۔ اپوزیشن مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کے نام پر عوام کو مزید دھوکہ دینے کے لیے شور تو مچاتی ہے لیکن اس کا کوئی حل پیش نہیں کرتی۔ درحقیقت آج کی تمام سیاسی جماعتیں اس سماجی معاشی نظام کو حتمی سمجھ کر اس سے مصالحت کر چکی ہیں اور مذہبی جماعتوں سے لے کر قوم پرستوں تک تمام کا معاشی ایجنڈا ایک ہی ہے۔ اس لیے کوئی حقیقی اپوزیشن کی سیاسی جماعت بھی نہیں۔اپنے اس خصی پن کو چھپانے کے لیے وہ شورزیادہ مچاتے ہیں اور جھگڑے اور ہاتھا پائی سے اپنے ناٹک میں مصالحہ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ساری مشق سے عوام الناس میں بجٹ تقریر سسنے نے کا حوصلہ تک چھین لیا ہے۔
مشتاق احمد یوسفی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ’’جھوٹ تین قسم کے ہوتے ہیں۔ جھوٹ، سفید جھوٹ اور سرکاری اعداد و شمار‘‘۔