افسوس کا مقام

پیر، 17 فروری، 2014


کل بلوچستان سے ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرکے آنے والا قافلہ گوجرانوالہ میں وارد ہوا، اس قافلے میں ایک ماما قدیر دو عدد بچے اور 9 خواتین تھیں، جو ایک ہتھ ریڑھی پر اپنے پیاروں کی تصاویر اٹھائے شہروں شہروں گھوم کر اس قوم کے اجتماعی ضمیر کو جھنجوڑ رہی ہیں۔

ہمیں ان کے سیاسی نظریات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، ہم اس مسئلہ کو انسانی نکتہء نگاہ سے دیکھتے ہیں،، ویسے بھی پنجاب کی پمیشہ سے روائت رہی ہے کہ ہم لوگ بیٹیوں کے معاملے میں بہت جذباتی ہیں،

اس سلسہ میں بھی ہمارا موقف بالکل واضع ہے کہ جن لوگوں کو غائب کیا گیا ہے، یا وہ از خود غائب ہوئے ہیں، انہیں بازیاب کروا کے عدالتوں میں پیش کیا جائے،

آج کی دنیا میں اس قسم کے ظلم کو روا رکھنا کسی بھی طرح جائز نہیں سمجھا جا سکتا، اس وقت مجھے انتہائی دکھ اور افسوس ہوا جن پاکستان کی کسی بھی بڑی سیاسی پارٹی بشمول ن لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے اس معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور ان پارٹیوں کا ایک بھی کارکن قافلے کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیئے نہیں پہنچا۔

جماعت اسلامی، جے یو آئی اور دیگر ملاؤں نے بھی عملاً ان کے استقبال کا بائیکاٹ کیا، سب سے زیادہ دکھ لیفٹ کے کامریڈز کے روئیے پر ہوا جو ہر سانس کے ساتھ انقلاب کی بات کرتے ہیں لیکن مسنگ پرسنز کا استقبال کرنے میں ان کا بھی پیشاب خطا ہو گیا۔

صرف دو پارٹیوں نے اس کام میں حصہ لیا،
1: تکمیل پاکستان موومنٹ
2: ورکرز پارٹی

یہ دونوں پارٹیاں مزدوروں اور محنت کشوں کے تحفظ کے لیئے ہمیشہ کمر بستہ رہتی ہیں اور کل کے اس ایونٹ کو انہوں نے مل کر پورا کیا، گوجرانوالہ کے چند ترقی پسند دانشوروں نے البتہ اپنی حاضری لگوائی جس سے ہمارا دکھ کسی حد تک کم ہوگیا۔

ہم مشکور ہیں جناب محمد اسرائیل رانا ایڈووکیٹ کے جنہوں نے چن دا قلعہ بائیپاس سے لیکر پی ڈبلیو ڈی ہال تک قافلے کی رہنمائی کی اور انہیں دو مرتبہ ڈی ٹریک کرنے کی کوششوں کو ناکام بنایا،،، اسی کے ساتھ علامہ فاروق عالم انصاری صاحب کے بھی بے حد مشکور ہیں جنہوں نے ہمارے ساتھ آخری ھد تک تعاون کیا، اسی طرح ڈاکٹر عمر نصر بھی مبارکباد کے مستحق ہیں، وہ اپنی صھافی ذمہ داریوں کی وجہ سے صرف ایک مرتبہ آکر واپس چلے گئے لیکن انکی بھرپور شرکت ہوگئی۔

یادش بخیر ابھی چند دن پہلے ایم کیو ایم کے ایک کارکن پر پولیس نے تشدد کیا اور انہوں نے ہڑتال کرکے سارا شہر بلاک کردیا،،، پیں پوچھتا ہوں کہ کیا بلوچ اسی قدر لاوارث ہیں کہ انکے لیئے کوئی آواز بلند نہیں ہوتی، میڈیا انکا بلیک آؤٹ کررہا ہے، راستے میں انہیں طرح طرح سے ستایا جاتا ہے،،،، کیا یہی ہے انسانیت؟

ایک بات اور کہ 26 لاکھ آبادی والے شہر میں 2600 لوگ بھی انکا پرجوش استقبال نہ کرسکے،،،، کیا اس بے حسی کی وجہ سے ہم لوگ اپنی باری کا انتظار تو نہیں کررہے؟