تیس سال بعد

ہفتہ، 28 ستمبر، 2013


17 سال پرانے اس کیس کا فیصلہ کرنے میں عدالت کو سترہ منٹ بھی نہیں لگے اور گیارہ سال پیشتر روبینہ قتل میں سزا یافتہ مجرموں جمیل چانڈیو اور قدیر ملانی کو عدالت نے باعزت بری کردیا۔ انکی زندگی کے 11 قیمتی سال جیل کی نظر ہونے پر ان کے ساتھ معذرت کرتے ہوئے کہا کہ کاش اس وقت ڈی این اے کو ایک شہادت کا درجہ دیا جاتا تو ان دو نوجوانوں کی زندگی کے سنہری سال سلاخوں کے پیچھے نہ گزرتے۔

جمیل اور قدیر کو ان کے ایک دوست کی شہادت پر سزا ہوئی جس نے انہیں روبینہ کے گھر میں جاتے دیکھا تھا، سترہ سال قبل ہونے والے اس جبری آبرو ریزی اور قتل کے واقعہ میں اور کوئی شہادت موجود نہیں تھی ورنہ شائید یہ دونوں موت کی سزا پاچکے ہوتے۔

یہ اس زمانے کی بات تھی جب وطنِ عزیز میں ڈی این اے کو بطور شہادت قبول نہیں کیا جاتا تھا مگر جب سن 2025 میں بننے والی انقلابی حکومت نے اسے اہم ترین شہادت کا درجہ دیا تو ایسے تمام کیسز کو بھی کھنگالا گیا جس میں سزائیں بھی ہوچکی تھیں۔ ایسا ہی ایک کیس روبینہ قتل کیس بھی تھا۔

جمیل چانڈیو کے والد صاحب ایک معروف عالم دین تھے جنہوں نے ڈی این اے ٹیسٹ کی خلاف بڑے زور و شور سے دلائل دئیے اور اسے پاکستانی قانون کا حصہ بننے سے روکنے میں انکا بھی بہت بڑا کردار تھا۔ بیٹے کے اس قسم کے مقدمے میں ملوث ہونے کے بعد انکی سماجی حیثیت بالکل صفر ہوکر رہ گئی اور پچھلے 11 سال کے عرصہ میں ایک زبردست قسم کی سماجی زندگی گزارنے والے مولانا کلیم اللہ چانڈیو محض گھر کی چار دیواری تک محدود ہو کر رہے گئے کیونکہ اب لوگوں کی تمسخرانہ نظروں کا سامنا کرنا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔

بیٹے کی باعزت واپسی کے باوجود کھو جانے والے 11 سال واپس کر دینا کسی کے بس کی بات نہیں تھی، اتنے عرصہ میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا، لوگ مولانا کلیم اللہ چانڈیو کو ایک بھولی بسری داستان کی طرح فراموش کرچکے تھے، انکا بیٹا جمیل چانڈیو 6 ماہ کے اندر ہی گھُل گھُل کر اس دنیا سے رخصت ہوگیا اور یوں اس بھرے پرے خاندان کو محض ایک جھوٹی گواہی کی بھینٹ چڑھ کر تباہی و بربادی کا نشانہ بننا پڑا۔

جب روبینہ کیس کے دوران ملنے والی رطوبات کے سیمپلز کو ٹیسٹ کرکے انکے حاصل شدہ رزلٹ کو نادرا کے کمپیوٹر سے لنک کیا گیا تو ایک ہی منٹ کے بعد مطلوبہ مجرم کی تصویر کمپیوٹر سکرین پر نمودار ہوگئی ۔
جی ہاں قارئین یہ وہی شخص تھا جسکی گواہی نے دو نوجوانوں کا مستقبل تاریک کردیا اور وہ خود اپنے علاقے سے ایم این اے منتخب ہوکر عوام الناس کی ''خدمت'' میں مصروف تھا۔

جمیل چانڈیو کا قصہ تو تمام ہوا لیکن قدیر ملانی کی زندگی نے ایک نیا موڑ لیا۔ آج کل اس نے ایک تنظیم بنا رکھی ہے جو بے گناہی کے جرم میں سزا پانے والوں کو انصاف دلانے کا کام کرتی ہے، اس مقصد کے لئیے اس نے وکلاء کے ایک پورے پینل کی خدمات حاصل کرکھی ہیں۔

فساد پلس چینل کے نمائندے کی حیثیت سے انٹرویو کرتے ہوئے جب میں نے قدیر ملانی سے جیل میں گزرے ہوئے لمحات کے بارے میں پوچھا تو اسکی آواز رندھ سی گئی اور وہ گلوگیر آواز میں کہنے لگا، میں ان تکلیف دہ لمحات کو وبارہ یاد نہیں کرنا چاہتا، بس اپنے عوام، حکمرانوں اور علماء کرام سے درخواست ہے کہ نئے زمانے کی روشنی اور ایجادات کسی خاص گروہ یا مذہب کی ملکیت نہیں بلکہ پوری انسانیت کی بھلائی کے لیئے ہوا کرتی ہیں،
اگر یہی ڈی این اے چند سال پہلے اہم شہادت کے طور پر قبول کرلیا جاتا تو 11 سال تک 2 بے گناہ افراد بھی سزا سے بچ جاتے اور اصلی مجرم بھی ایک لمبے عرصے تک آزاد نہ پھرتا۔ یہ کہہ کر وہ زور زور سے رونے لگا اور میرے پاس اسے تسلی دینے کے لیئے دو بول تک نہیں تھے۔

1 comments:

کشمیر یا پاکستان کہا...

یہ بات اپنے جگہ درست اور حقیقی شہادت بغیر کسی چوں و چرح کے قبول کر لینی چاہیے ۔لیکن وللہ عالم علماء نے اس مین کیا قباعت دیکھی ہے کے اس اتنی بڑی شہادت سے خود کو دور کرنے کی مشق کر رہےہیں ۔
اسلام ایک منصف اور انصاف سے بھرا ہوا مزہب ہے پھر وہ کوں سے مزہب ککی بات کرتے ہیں جس سے اھتراض نکلتا ہو ۔
کون ایسا ہے جس کی بیٹی باہو ۔یا بیوی سے ایسا مجرمانہ اقدام عمل ہو اور اس کے گھر والے اس انتیظار میں بیٹھا ہو کے اس اس کے مجرم کو 20 سال تک سزا نہ ملے ۔
دوسرا اگر ایک بے گناہ کو دوسرے کی کی گہی غلطی کی سزا ملے تو کیا اللہ کے ہان سے اس بات کی امید کیجاسکتی ہے کے برکات آہیں ۔
اللہ ہی نے انسان کو یہ طاقت دی ہے کے وہ انسان کے کیلیے ایسی اچھی ایجادات کرے جس سے حق سچ کی تفریق ہو ۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں یہ کہا کے علم حاصل کرو خواہ اس کیلیے چاہینہ کا سفر کرنا پڑے ۔دنیا مین جو بھی واضع اور سچی شہادتیں اہیں ان سے جایز فایدہ لیتے ہیں عقل مندی ہے نہ کے دین کے خلاف ہے ۔جو نہیں کرتے یا جو اس مین سے کیڑے نکالتے ہین وہ از خود اللہ اور اس کے نبی کی مکالفت کر رہے ہوتے ہیں ۔
اللہ نے یہ نہیں کہا کے صرف میرا نبی صلم ہی میرا نایب ہے بلکہ انساں کو بولا کے میرا نایب ہے ۔اب یہ انساں کی ہی تحقیق ہے کے دنیا میں مین ایسی ایجادات کی ہیں جن سے کافی حد تک کنٹرول ہوی ہے ۔انسان کو اس جدید طریقہ کار سے فایدہ اٹھانے میں کوی دینی اعتبار سے ممانت نہیں ہونی چاہیے ،
علماء حضرات کو بھی جہالت سے نکل کر روشنی کو استعمال کرتے ہوے ایسے سب گیر ضروری بحثوں سے اجتناب کرتے ہوے لوگوں کو اس طرف ماٰیل کریں ۔