بھتے کی پرچی

پیر، 9 ستمبر، 2013


سائنس میگزین میں چھپنے والے ایک مضمون کے مطابق 1907 میں برطانوی ماہر اثریات سر آرل اسٹائن نے ایران اور وسط ایشیاء میں قدیم تہذیبوں کے مراکز میں کھدائیاں کروائیں، بیجنگ کے قرہب بودھوں کے ایک قدیم مندر کے نزدیک کھدائی کے دوران ان کتاب برآمد ہوئی جسے طباعت کا اولین دستیاب نسخہ کہا جاتا ہے، یہ نویں صدی عیسوی کے دور کی کتاب ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ چین میں طباعت کا کام مغربی دنیا سے کہیں پہلے شروع ہو چکا تھا۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ مغرب میں طباعت چین سے بھی کوئی تین سو برس پہلے شروع ہوچکی تھی کیونکہ 770ء کے زمانے کی کچھ پرچیاں دستیاب ہوچکی ہیں مگر نقاد انہیں کتابوں کا درجہ دینے کو تیار نہیں کیونکہ انکی نظر میں یہ محض پرچیاں ہیں۔ اس میگزین میں شائع شدہ مضمون میں اس بات پر روشنی نہیں ڈالی گئی کہ آیا یہ عام سی پرچیاں تھیں یا پھر ''بھتے کی پرچیاں۔ اگر یہ بھتے کی پرچیاں تھیں تو پھر یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ بھتہ خوری میں بھی یورپ ہم سے اور باقی دنیا سے کئی صدیاں آگے ہے، ہم تو محض انکی پیروی کرکے بدنام ہوگئے۔