پھر وہاں جائے گا ؟؟؟؟

منگل، 21 جنوری، 2014


ایک شاعر تھے نام اس وقت یاد نہیں،،،
انہوں نے گھر والوں سے چوری چھپے شاعری شروع کردی(اس زمانے میں اونچے حسب نسب والے خاندانوں میں شاعری کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا)،،،

ایک دن ان کی اماں نے دوران صفائی انکے سرہانے کے نیچے سے ایک کاغذ نکالا، انہیں اندیشہ ہوا کہ شائد کسی لڑکی کا محبت نامہ ہے (یاد رہے کہ اس دور میں محبت کرنے والوں کے لیئے موبائل اور ایس ایم جیسی جدید ترین سہولیات موجود نہیں تھیں) سیدھی اسکے ابا کے پاس لے گئیں،،،

ابا نے اس پر ایک شعر لکھا ہوا دیکھا،،،
پہلے تو بیوی کو غصہ ہوئے کہ تمہارے لاڈ پیار نے لمڈے کو بگاڑ دیا ہے۔ اس کمبخت نے شعر و شاعری شروع کردی ہے،
اماں زور زور سے رونے لگیں کہ انکے نوابی بیک گراؤنڈ والے خاندان کی شرافت و نجابت کا کچرا ہونے والا ہے،



قصہ مختصر کہ موصوف نے جو شعر کہا وہ کچھ یوں تھا۔

ہمیشہ غیر کی عزت تری محفل میں ہوتی ہے
ترے کوچے میں جا کے ہم ذلیل و خوار ہوتے ہیں،

یہ شعر پڑھ کر ابا حضور کا پارہ مزید چڑھ گیا اور اپنے ناہنجار بیٹے کو مضروب کرنے کے لیئے آلاتِ تشدد کا انتخاب شروع کریا، اور ساتھ ہی ساتھ اپنے ہٹلرانہ عزائم کا اظہار بھی کرتے جارہے تھے اور بیٹے کو سخت سست بھی کہہ رہے تھے جو بیچارہ ایک دیوار سے لگا تھر تھر کانپ رہا تھا
،،، بیگم میں پوچھتا ہوں جب اسکی وہاں اتنی ہی اوقات ہے تو وہاں جاتا ہی کیوں ہے؟
۔اماں بولی،،، قسم لے لیجئے جو کبھی مجھے بتا کر گیا ہو،،،،،

کیوں بے الو کی دم فاختہ،،،، شاعری کرنے پر معافی مل سکتی ہے مگر ایک بات یاد رہے کہ آج کے بعد اسکے کوچے کی طرف قدم بھی بڑھایا تو ٹانگیں توڑ دوں گا،،، جس پر شاعر بیچارے نے جان بچتی دیکھ کر ہنگامی بنیادوں پر اپنے ناکردہ جرائم کا اعتراف کرکے آئندہ وہاں جانے سے توبہ کرلی۔
13 minutes ago · Like · 4