پیر، 9 ستمبر، 2013
ہمارا اندازہ یہی ہے نعرے کی ضرورت سب سے پہلے میدان جنگ میں پیش آئی ہوگی جہاں دشمن سے مقابلہ کرنے اور اسے شکست دینے کےلیئے اونچی اوازوں میں نعرے لگائے جاتے تھے۔ مسلمانوں کا سب سے پہلا نعرہ شائد نعرہ تکبیر تھا جس کے لگاتے ہی دشمن پر اسلامی لشکر کی ہیبت طاری ہوجاتی اور وہ نصف جنگ لڑنے سے پہلے ہی ہار دیا کرتا۔
پاکستان بننے سے پہلے برصغیر پاک و ہند میں بھی بہت سے نعرے ایسے تھے جنہیں قبول عام کا درجہ حاصل ہوا جیسا کہ، ؛انگریزو،،،،! انڈیا چھوڑ دو؛
؛مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ؛
؛بٹ کے رہے گا ہندوستان، لے کے رہیں گے پاکستان؛
؛پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالٰہ الاللہ؛
اسی طرح پاکستان بننے کے بعد بہت سے نعروں کو عوامی پذیرائی حاصل ہوئی،جن میں،
؛نامنظور نامنظور،،،،، بنگلہ دیش نامنظور؛
؛روٹی کپڑا اور مکان، مانگ رہا ہے ہر انسان؛
؛مودودی ٹھاہ ،،،،،،،، مودودی آلو شورا؛
؛بھٹو ،،،،،، ہائے ہائے؛
؛چاروں صوبوں کی زنجیر،،، بے نظیر بے نظیر؛
دشمنوں کے دل میں میں تیر ،،،،،، بے نظیر؛
؛نواز شریف قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں؛
؛تبدیلی کا نشان، عمران خان؛
مندرجہ بالا نعروں میں آپکو ایک خاص بات نظر آئے گی کہ یہ مخصوص پارٹیوں اور گروہوں کے نعرے تھے مگر آجکل کچھ ایسے ہمہ جہتی قسم کے نعرے ایجاد ہوچکے ہیں جنہیں مزدوروں، کسانوں، دفتری بابو، بجلی چور، ڈکیت اور مل اونرز تک تمام طبقات اپنے اپنے مقاصد کےلیئے استعمال کرسکتے ہیں، ان میں سب سے مقبول نعرہ ہے ،
؛ساڈا حق،،،،، ایتھے رکھ؛
لو جناب اب کرلو گل! کچھ پتہ نہیں چلتا کہ یہ اپنا حق کونسی جگہ پر رکھوانا چاہتے ہیں، یوں بھی غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو حق کے مقام کی نشاندہی کرنا مظاہرین کی ذمہ داری ہے،
ہمارے ٹی وی چینل فساد پلس کے نمائندے نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے انٹرویو کیا کہ جناب آپ ینگ ڈاکٹروں کا حق ؛ایتھے؛ کیوں نہیں رکھتے؟ جس پر انکا جواب تھا کہ ینگ ڈاکٹروں کا حق ؛ایتھے؛ ہی تو رکھا ہوا ہے۔ ،، حق ؛ایتھے؛ رکھا ہو یا ؛اوتھے؛ حق تو حق ہی ہوتا ہے اور عوام کو ضرور ملنا چاہئیے اور فوری ملنا چاہئیے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں