سوالی

پیر، 9 ستمبر، 2013


جو دے اسکا بھلا، جو نہ دے اس کا بھی بھلا، یہ آواز ہر دس پندرہ دن کے بعد ہماری گلی میں ابھرتی اور خواتین خانہ ایک ایک مٹھی آٹا، روٹی، سالن یا کچھ ریزگاری اس بوڑھے فقیر کو دے دیا کرتیں، وہ فقیر بھی ہر خیرات دینے والے کو ڈھیروں دعائیں دیتا ہوا آگے کی طرف بڑھ جاتا۔ ایک بیوہ خاتون تھیں جو بالکل اکیلی ذات تھیں، دو اولادیں اللہ نے دیں مگر جلد ہی اپنی امانتیں ان سے واپس لے لیں، کچھ عرصہ بعد انکے شوہر بھی اللہ کو پیارے ہوگئے، انکے آگے پیچھے کوئی نہ تھا بس تنہائی تھی اور بوا حمیداں، جس پر بھی وہ اللہ سے کبھی شاکی نہ ہوئیں، یہ بیوہ خاتون بوا حمیداں کے نام سے مشہور تھیں، اہالیان محلہ انکا بہت احترام کرتے کیونکہ وہ محلے کی بچیوں کو بلا معاوضہ قرآن پاک پڑھایا کرتیں اور کبھی کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرتیں، انکی آمد کے ساتھ ہی لوگ سمجھ جاتے کہ انہیں کوئی ضرورت لیکر آئی ہے، انہوں نے بھی کبھی زیادہ کا لالچ نہیں کیا اور یوں انکا وقت بڑے آرام و سکون کے ساتھ گزرتا رہا۔

اسی قسم کے اکا دکا کردار اور بھی تھے جیسا کہ عام طور پر ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں اور آپ لوگوں کا واسطہ بھی ایسے لوگوں سے پڑتا رہا ہوگا، پھر وقت نے کروٹ لی اور جس تیز رفتاری کے ساتھ ہماری بہت سی پرانی روایات اور اقدار ہماری آنکھوں کے سامنے ملیا میٹ ہوئیں اسی طرح یہ کردار بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیوں اور ارتقاء کے عمل سے گزرتے ہوئے آج کے اس مقام پر پہنچ گئے کہ مجھے اس پر قلم اٹھانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

کہتے ہیں کہ عصمت فروشی کے بعد سب سے قدیم پیشہ گداگری ہے۔ اس پیشے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کرنے والا از خود اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ وہ اس معاشرے کا باعزت شہری اور اسکی تعمیر و ترقی کا ایک کارکن بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا اس لیئے وہ آپکی محنت سے کمائے ہوئے پیسوں میں سے حصہ لینا چاہتا ہے۔ آج کے اس دور میں مانگنے کے آداب بدل چکے آج مانگنے والا پیسے یوں وصول کرتا ہے جیسے وہ آپ سے اپنا قرض وصول کرنے آیا ہے، بھری دوپہر میں آپ سو رہے ہوں اور ڈور بیل کی آواز سے آپ اٹھ جاتے ہیں، دروازے پر جا کر پتہ چلتا ہے کہ کوئی سوالی کھڑا ہے، آپ خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتے ہیں کہ ابھی بڑی مشکل سے آنکھ لگی تھی کہ یہ صاحب یا صاحبہ نازل ہوگئے، اچھی بھلی فیشن ایبل خاتون آپکے گھر میں گھس جاتی ہے، آپ سمجھتے ہیں کہ کوئی مہمان ہے، اسے چائے پانی پیش کیا جاتا ہے اور آنے کا مقصد دریافت کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ موصوفہ کے اکلوتے خاوند کو کینسر کا مرض ہے اور وہ مدد کے لیئے تشریف لائی ہیں۔

ایک میاں بیوی تشریف لائیں گے جنکے ہمراہ ایک عدد بچہ ہوتا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے منت مانی تھی کہ اللہ ہمیں بیٹا دے گا تو اسے 7 سال تک مانگ کر کپڑے جوتے پہنائیں گے، ساتھ ہی آپکو خوشخبری سنائی جاتی ہے کہ خیر سے 3 سال کا ہوگیا ہے اور اب آپکی '' سزا '' کے صرف 4 سال باقی رہ گئے ہیں۔

ایک دن تو کمال ہی ہوگیا، ایک معزز قسم کی بزرگ خاتون گاڑی میں تشریف لائیں اور سیدھا ہمارے گھر میں آکر یہ مژدہ سنایا کہ وہ ماشاء اللہ 5 بیٹوں کی ماں ہیں اور سماجی خدمات انجام دیتی ہیں، انکے محلے میں کچھ یتیم بچیاں ہیں جن کے لیئے وہ چندہ اکٹھا کرکے انکی شادیاں کروایا کرتی ہیں، اس نیک کام سے انہیں دلی سکون ملتا ہے اور اللہ رسول خوش ہوتے ہیں،، آپ بھی پانچ دس ہزار اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالیں تو آپکی بگڑی ہوئی آخرت بھی سنور جانے کا امکان خاصا روشن ہے۔ ہماری بیگم صاحبہ نے ہماری طرف دیکھا اور اشارے سے رقم نکالنے کو کہا،، میں نے عرض کیا کہ اس وقت تو میرے پاس ایک دھیلہ بھی نہیں اگر آپ اپنا ایڈریس عنائت کردیں تو کل انشاء اللہ وہیں پیسے پہنچا دوں گا،،،بڑی بی نے ایک قہر آلود نظر مجھ پر ڈالی اور ایک پتہ لکھوا دیا،،، اگلے روز وہاں پہنچا تو اس پتے کا کوئی وجود ہی نہ تھا اور نہ ہی اس قسم کی کوئی خاتون وہاں رہتی تھیں۔

آپ اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائیں تو آپ کو کئی فلاحی اور رفاحی ادارے دکھائی دیں گے جن میں سے ہو سکتا ہے کہ کچھ واقعی لوگوں کی خدمت میں مصروف ہوں مگر ہمیں تو آج تک انکی سرگرمیاں اخباری خبروں، انکے اشتہارات اور یا پھر فیس بک پر فوٹو سیشنز میں ہی دکھائی دیتی ہیں، یہ گداگری کا وہ جدید انداز ہے جو کچھ ایڈوانس قسم کے بھک منگوں نے اپنا رکھا ہے، اس کام میں ایک تو پیسہ بہت زیادہ ہے اور دوسرے عزت بھی مفت میں مل جاتی ہے۔

دنیا میں اور ممالک بھی فلاحی اداروں سے بھرے پڑے ہیں لیکن وہ لوگ اپنی ذاتی کمائی میں سے ضرورتمندوں کی مدد کرتے ہیں کسی سے قربانی کی کھالوں، خیرا، صدقات اور چندے کا مطالبہ کبھی نہیں کرتے ، اسکی ایک واضع مثال پولیو ویکسئین کے قطرے ہیں جو صرف اور صرف بل گیٹس خریدتا ہے اور ساری دنیا میں بالکل مفت مہیا کرتا ہے،،، اور وہ بھی بغیر قربانی کی کھالیں لیئے۔ موضوع تو بہت وسیع ہے لیکن یہاں اسکی طوالت کے متحمل نہیں ہوسکتے صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ خیرات وغیرہ کرنا چاہتے ہیں تو ان اداروں پر اعتماد کرنے کی بجائے از خود ضرورت مندوں کو تلاش کیجئے اور انکی ضرور مدد کیجئے کہ معاشرے میں ایسے لوگ بکثرت موجود ہیں جنہیں آپکی ضرورت ہے۔