غالباً 1961 کا زمانہ تھا جب میرے والد صاحب کی پوسٹنگ ''ہل بیگام'' نامی ایک پہاڑی قصبے میں ہوئی، انتہائی دشوار گزارو راستوں پر کبھی کبھی اونٹوں اور کشتی ذریعے سفر کرکے جب ہماری مختصر سی فیملی اپنی منزل پر پہنچی تو والدہ محترمہ کا تھکاوٹ سے برا حال ہوچکا تھا اس لیئے انہوں نے وہاں پہنچتے ہیں سب سے پہلا مطالبہ یہی کیا کہ جلد از جلد اس علاقے سے اپنی ٹرانسفر کروائیں ہمیں اس جگہ ہرگز نہیں رہنا۔
اس وقت میری عمر کوئی 3 سال اور میرے چھوٹے بھائی کی عمر 1 سال سے کچھ کم تھی۔ میرے والد صاحب ایک فاریسٹ آفیسر تھے جنہیں ایک عدد دفتر کے علاوہ سرکاری رہائش گاہ ملی تھی اور اسکے ساتھ ہی ایک عدد کشتی اور ملاح بھی انکے چارج میں تھے تاکہ ارد گرد کے علاقوں کا دورہ کرنے میں آسانی رہے۔
آج بھی آپ اگر اسلام آباد سے لاہور کی جانب سفر کریں تو جی ٹی روڈ پر جہلم سے تھوڑا پہلے ایک قصبہ آتا ہے جس کا نام نیو بیگام رکھا گیا ہے کیونکہ اصلی بیگام منگلا ڈیم بننے کے بعد جھیل کے علاقے میں آکر دریا برد ہوچکا ہے اور حکومت نے وہاں کے باشندوں کو نیو بیگام میں آباد کردیا۔
شروع شروع میں تو اس قصبے میں والدہ صاحبہ کا جی نہیں لگا کیونکہ وہ گوجرانوالہ جیسے گنجان آباد شہر سے آئی تھیں اور کہاں یہ پہاڑی علاقہ اور دور دور تک آبادی کا نام و نشان تک نہیں تھا، مگر جب وہاں کے سادہ دل لوگوں سے ملاقات ہوئی اور ارد گرد کی خواتین نے والدہ سے ملنے کے لیئے آنا شروع کیا تو انہیں گوجرانوالہ بھول گیا اور اسی قصبے میں انکا دل لگ گیا،،،
آج بھی وہ ہمیں اس زمانے کی باتیں سناتی ہیں تو انکی آنکھوں میں ایک چمک سی آجاتی ہے۔
ایک دن والدہ ساحبہ میرے چھوٹے بھائی کو گود میں لیکر بیٹھی تھیں کہ ہمارے ملاح کی بیوی بھاگتی ہوئی آئی، اسکو سانس چڑھا ہوا تھا اور چہرہ فرطِ مسرت سے گلنار سا ہورہا تھا، ایک طرف اشارہ کرکے کہنے لگی،،،
بیب جی گچھو،،،، بیب جی گچھو،،، (بی بی جی ادھر آئیں)
والدہ صاحبہ بریشانی کے عالم میں اٹھیں اور اسکے پاس جا کر پوچھا،،، کیا بات ہے رانو؟
رانو بولی ،،،،، بیب جی موٹر اشنی ،،،( بی بی جی بس آرہی ہے)
والدہ صاحبہ نے دیکھا کہ دور کسی پہاڑی پر ایک بس جارہی تھی اور رانو صاحبہ اسی کو دیکھ کر ایکسائیٹڈ ہو رہی تھی۔
رمضان المبارک کے مہینے میں ایک دن اسی رانو کی ساس ہمارے گھر آئی اور کہنے لگی،،، بیب جی اج ماڑے کی دن چڑھی گچھیا، (آج ہمیں دن چڑھ گیا اور جاگ نہیں آئی)
اماں جان نے پوچھا تو پھر آج روزہ نہیں رکھا؟
رانو کی ساس نے کہا،،، رکھا ہے بی بی جی،
اماں نے پوچھا کہ آٹھ پہر کا روزہ رکھ لیا ہوگا؟
رانو کی ساس نے جواب دیا، نہیں بیب جی،
اساں کی پِتی ماری چھوڑی سی، تے ٹُورا کھائی کِنیا سی، (ہم نے دروازہ بند کرکے اندھیرا کرلیا اور روٹی کھا کر روزہ رکھ لیا)
بتائیے صاحب آج کے زمانے اس قدر سادہ دل لوگ کہاں دستیاب ہیں،
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں