کم جوان دی موت اے

منگل، 17 ستمبر، 2013



میں نے جب ایف اے کے پیپرز دئیے تو فارغ بیٹھنے کی بجائے ایک ورکشاپ پر الیکٹرک ریپیئنگ کا کام سیکھنے لگا،
ایک دن استاد صاحب نے واقعہ سنایا کہ وہ کسی زمانے میں ایک فیکٹری میں کام کیا کرتے تھے وہاں ایک ورکر مالکوں کی نگاہ میں آگیا اور اسے پہلے مزدوروں کا سپر وائزر اور بعد ازاں پوری فیکٹری کا انچارج بنا دیا گیا،،،

میرے استاد نے ان سے اس ترقی کا گر سیکھنے کی کوشش کی تو اس نے کہا کہ زیادہ کام مت کیا کرو،،

استاد صاحب بڑے حیران ہوئے کہ یہ کیا بات ہوئی،،، کام نہ کرنے سے تو مالکان ناراض ہوسکتے ہیں ،،

تب انچارج نے استاد جی بتایا کہ ہماری فیکٹری کے مزدور کام تو کرتےہیں لیکن اپنے کپڑوں اور ہاتھوں کو میل کچیل اور سیاہی مائل گریس اور آئل وغیرہ سے بچا کر رکھتے ہیں۔ جبکہ میں کام تو کوئی خاص نہیں کرتا تھا مگر اپنے کپڑوں اور ہاتھ منہہ پر سیاہ گریس وغیرہ از خود لگا لیا کرتا، ایک ہاتھ میں رینچ اور دوسرے میں پلاس پکڑ کر ادھر ادھر گھومتا رہتا اور میری کوشش ہوتی کہ دن میں دو چار مرتبہ مالکان سے ضرور آمنا سامنا ہو جائے، اس طریقے پر عمل کرنے سے مالکان کے خیال میں سب سے محنتی اور ایمان دار ورکر میں ہی تھا اور باقی سب نکمے اور کام چور۔۔

یہ اسی میک اپ کا ہی نتیجہ ہے کہ محنت سے کام کرنے والے آج بھی مزدور ہیں اور میں انکا انچارج بن کر ان سے تین گنا زیادہ تنخواہ لے رہا ہوں اور مالک بھی مجھ سے بڑے خوش ہیں،،

آج میں اس قوم کی حالت دیکتا ہوں تو مجھے 35 سال پرانا یہ واقعہ یاد آجاتا ہے، ہمارے ہاں کے علماء، سیاستدان، سرکاری آفیسر اور نائب قاصد سے لیکر صدر پاکستان تک، سبھی ''لِپ سروس '' کے ماہرین دکھائی دیتے ہیں، عملی طور پر صفر مگر باتیں بڑی بڑی کرنے سے نہیں چوکتے۔

کاش ہم جتنا زور پھرتیاں دکھانے میں لگاتے ہیں اس سے نصف بھی عملی کام میں صرف کریں تو اس قوم کی معاشی حالت بہتر ہوسکتی ہے مگر،،،،
''اے بسا آرزو کہ خاک شدہ''