پیر، 16 ستمبر، 2013
یوں سرمائے کی پیداواری شعبے سے غیر پیداواری شعبے کی طرف حرکت کا سفر شروع ہوتا ہے، بیروزگاری بڑھتی ہے، قوت خرید کم ہوتی ہے اور خاص مقام پر پہنچ کر پوری معیشت دھڑام ہوجاتی ہے۔ 2008ء کا عالمی معاشی بحران امریکہ سے اسی طرح شروع ہوا تھا، جو اب یورپ کے بعد پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔
نظام کے بحران کی شدت کے پیش نظر حکمران طبقات سماج پر مسلط اپنی سیاست، ریاست، صحافت اور ثقافت کے ذریعے محنت کشوں پر وحشیانہ معاشی حملے کرتے ہیں۔ ان حالات میں نیچے سے بغاوت کے خطرے کے پیش عوام کو نان ایشوز میں الجھایا جاتا ہے، انہیں میڈیا پر چلنے والے مختلف کھیل تماشوں میں محو رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ قومی، نسلی اور فرقہ وارانہ تعصبات اور تنازعات ابھار کر محنت کشوں کی طبقاتی یکجہتی کو توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن حکمرانوں کے یہ بیہودہ ہتھکنڈے ہمیشہ کے لئے کارگر نہیں رہ سکتے۔
تاریخ گواہ ہے کہ ایسے وقت بھی آتے ہیں جب محنت کش، حکمرانوں کی سماجی زنجیروں کو توڑ کر تاریخ کے میدان عمل میں داخل ہوتے ہیں۔ ایسے لمحات اور حالات ہی کو انقلاب کہا جاتا ہے۔ لیکن انقلابات، تاریخ کے غیر معمولی ادوار ہوتے ہیں، اگر محنت کش کامیاب نہ ہوں تو پھر گہری پسپائی اور شکستوں کے عہد میں رد انقلاب کی شکل میں خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔
تحریر : ڈاکٹر لال خان
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں