عید

پیر، 9 ستمبر، 2013

میں نے لڑکی کو اونچی اواز میں بولتے سنا '' امی،،،،! اگر اس مرتبہ عید پر مجھے نئے کپڑے نہ دلوائے تو میں کچھ کھا کر مر جاؤں گی'' ہاں ہاں مر جا کچھ کھا کر، اگر تو نہ مری تو ہم مر جائیں گے کلموہی،، تجھے نئے کپروں کی سوجھ رہی ہے اور ابھی تیری باجی کی عید بھی لیکر جانی ہے، تیرے بھائی کی فیس بھی ابھی تک ادا نہیں کی،،، آج ہی تیرے دولہا بھائی کی افطاری ہے اور اس پر پانچ ہزار خرچ ہوگئے،،، اتنا پیسہ کہاں سے لاؤں؟ تیرا باپ خود تو مر گیا مگر میری جان عذاب میں آگئی ہے، اگر نیچے والی منزل کا کرایہ نہیں آرہا ہوتا تو زہر کی بجائے ہم سب بھوک سے مر جاتے۔ یہ سب کچھ سنتے ہی میرا ذہن چند سال پیچھے کی طرف چلا گیا اور مجھے یوں لگا کہ کوئی میرا گلا دبانے کی کوشش کررہا ہے، میری سانسیں جیسے رکنے لگیں، یوں تو میں چند ہی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر کی منزل پر آیا تھا لیکن ایسے لگتا تھا کہ کے ٹو کی چوٹی سر کرکے آیا ہوں، پسینہ میرے سر سے لیکر پاؤں تک مجھے بھگونے لگا اور میں اندر جانے کی بجائے تھکے تھکے قدموں سے سیڑھیاں اتر کے واپس آگیا، یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہمارے محلے میں کچھ زیادہ ہی چوریاں ہونے لگی تھیں جس پر محلے کے بزرگوں نے ٹھیکری پہرے کی تجویز پاس کی جس کے مطابق محلے کو نوجوان باری باری اپنی گلیوں میں پہرا دیا کرتے، اتفاق سے اس دن پہرہ دینے کی باری میری تھی اور میں ہر پانچ دس منٹ کے بعد گلی کا چکر لگا رہا تھا، یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور سردیوں کی لمبی یخ راتیں، خون جیسے جوم کے اندر جم کر رہ گیا تھا۔ رات کے کوئی دو بجے کا وقت تھا کہ خالہ صغریٰ کے گھر میں مجھے کچھ ہل چل سنائی دی، جیسے کوئی زور سے بولا ہو اور پھر اسے کسی نے منہ پر ہاتھ رکھ کےخاموش کردیا ہو، میں نے آہستہ سے جاکر انکی کھڑکی سے کان لگادئیے اور سن گن لینے کی کوشش کی، خالہ کی چھوٹی بیٹی اپنی ماں سے مخاطب تھی کہ اس مرتبہ مجھے عید پر نئے کپڑے نہ ملے تو میں کچھ کھا کر مر جاؤں گی، خالہ نے جواب دیا کہ بیٹی تمارے ابا کے مرنے کے بعد انکی چند سو روپے کی پنشن میں دال روٹی بمشکل چلتی ہے کپڑے کدھر سے آئیں گے، رشتہ دار اور محلے والے تو ہمیں عرصہ ہوا فراموش کرچکے ہیں ان سے بھی کیا امید؟ میں نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ میرے پاس 5000 روپے پڑے ہیں وہ میں خالہ صغریٰ کو چپکے سے پکڑا دوں گا مگر اتفاق ایسا ہوا کہ مجھے بجیا کو عید دینے فیصل آباد جانا پڑا اور وہاں بجیا نے چند دن تک روک لیا،،، عید سے ایک دن پہلے جب میں واپس پہنچا تو خالہ صغریٰ کے گھر کے باہر دریاں بچھی تھیں اور لوگ وہاں بیٹھ کر خالہ کی بیٹی کی خود کشی پر افسوس کا اظہار کررہے تھے،،، مجھے ایکدم چکر سا آیا پھر میری آنکھ ہسپتال میں کھلی،،، اس وقعے کو کئی سال گزر گئے تھے لیکن اسکی خلش آج بھی پھانس بن کر مجھے پریشان کردیا کرتی ہے۔ جی ہاں،،،! یہ میری سسرال والوں کا گھر تھا جنکی باتیں میں نے اتفاق سے سن لیں اور گھر جا کر والد اور والدہ کو سارا ماجرا سنایا، وہ دونوں ایک دم ہی شرمندہ سے دکھائی دینے لگے ، بالآخر والد صاحب بولے کہ ہم سے بڑی بھول ہوگئی بیٹا،، ہم نے تو کبھی انکے حالات جاننے کی کوشش ہی نہیں کی،،اور ان پر بلا وجہ کا بوجھ ڈالتے رہے،، اللہ ہمیں معاف فرمائے اب ہم اپنی اس غلطی کا کفارہ ادا کریں گے،، یہ کہہ کر انہوں نے گاڑی نکالی اور بازار سے جا کر افطاری کا مہنگا ترین سامان خریدا جسکے بعد ہم ساری فیملی میری سسرال کے گھر افطاری کرنے پہنچ گئے، میری ساس اتنے سارے لوگوں کو دیکھ کر پریشان ہوگئیں ابا نے کہا کہ بہن آجکی افطاری ہماری طرف سے ہوگی اور ہم سب مل کر افطاری کریں گے۔ افطاری کے بعد ابا نے میری بیوی کی دونوں چھوٹی بہنوں کو بازار لےجا کر کئی جوڑے دلوائے اور آتے ہوئے انہیں بیس ہزار روپے عیدی بھی دی۔ میری ساس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور وہ ہمیں متشکرانہ نظروں سے دیکھ رہی تھیں، اس رات میری سسرال والوں نے مجھے وہیں روک لیا اور اس رات مجھے پتہ چلا کہ یہ میری اپنی ہی بیوی سے پہلی ملاقات ہے۔ اس سے پہلے تو شائد میں کسی مجسمے کے ساتھ زندگی گزارتا رہا۔