کل رات زندگی میں پہلی مرتبہ کسی فائیو سٹار ہوٹل کو اندر سے دیکھنے کا اتفاق ہوا، اس سے پہلے تو میں ایسے ہوٹلوں کے باہر سے ایک حسرت بھری نگاہ ڈال کر گزر جایا کرتا تھا،
وہ تو بھلا ہو میری ہمشیرہ کا جسکے بیٹے کی منگنی کی تقریب ''پرل کانٹینینٹل'' لاہور میں ہوئی اور یوں میں بھی مع فیملی اس جادو نگری کے اندر پہنچ گیا۔
پہلے تو ایکڑوں میں پھیلے ہوئے پارکنگ ایریا میں گاڑی پارک کرنے کی جگہ ہی نہیں مل رہی تھی، بعد از تلاش بسیار گاڑی پارک کی تب تک ہم پسینے سے شرابور ہوچکے تھے کیونکہ ہماری سوزوکی مہران میں اے سی نہیں ہے، یوں بھی سینکڑوں جدید ترین اور چم چم کرتی قیمتی گاڑیوں کے جھرمٹ میں ہماری گاڑی ایسے ہی دکھائی دے رہی تھی جیسے امراء اور رؤساء کے درمیان کوئی بھکاری۔
جب اس ہوٹل کے اندر قدم رکھا تو وہاں کی چکاچوند سے آنکھیں خیرہ سی ہوگئیں، سینٹرلی ائر کنڈیشننگ سسٹم نے فضا میں خنکی ایک لہر سی بکھیر رکھی تھی۔ اور میں سوچنے لگا کہ یہ وہی پاکستان ہے جہاں لوڈ شیڈنگ کا اژدھا پھنکارتا رہتا ہے؟
یا پھر یہ وہی ملک ہے جو بے انتہا غربت اور مفلسی کا شکار ہے جہاں 45٪ لوگوں کو دو وقت کا کھانا بھی میسر نہیں اور یہاں آئے ہوئے بلاشبہ ہزاروں لوگ چائے کا ایک کپ بھی سو روپے میں پیتے ہوں گے۔
ایک طویل راستے کے بعد برقی زینوں کی مدد سے سے جب لابی میں پہنچے تو وہاں کی دنیا دیکھ کر دنگ رہ گئے،، اور منہ سے بے اختیار سبحان اللہ نکل گیا، دائیں بائیں دونوں طرف خوبصورت ریسٹورینٹ اور جیولری وغیرہ کی دکانیں موجود تھیں جنکے اندر گھسنے کی ہمیں ہمت نہیں ہوئی، ایک کونے میں 1922 ماڈل کی رولز رائس کار کھڑی تھی جو آج بھی اپنے شاندار ماضی کے قصے سناتی نظر آتی ہے۔
لابی کے اندر پہنچ کر اوپر کی جانب نگاہ کی تو اسکی 6/7 منزلہ عمارت دکھائی دی جسکے سینکڑوں کمرے غیر ملکی مہمانوں اور ڈیلی گیشنز کے علاوہ یہاں کے عافیت پنسدوں کے لیئے گوشہء استراحت ہیں۔ ان کمروں میں آنے اور جانے کے لیئے 2 عدد خوبصورت ڈیزائن کی کیپسول لفٹس موجود تھیں جو باری باری اوپر نیچے آنے جانے میں مصروف تھیں،
خوبصورت جہازی سائز کے فانوسوں کے نیچے سے گزرنے والے دیسی اور بدیسی چہروں، خوبصورت اور رنگا رنگ لباسوں میں ملفوف پری چہرہ خواتین پر اچتی ہوئی نگاہ ڈالتے ہوئے ( بیگم صاحبہ کی وجہ سے) ہم پی سی کے شاندار شالیمار بینکوئیٹ ہال میں دخل ہوگئے۔
لڑکے والوں میں سے چونکہ سب سے پہلے ہم پہنچے تھے اس لیئے وقت کی کوئی کمی نہیں تھی اور پھر سچ پوچھیں تو میرا دل بھی باہر لابی میں ہی اٹکا ہوا تھا، رنگوں اور خوشبوؤں کے معطر جھونکے مجھے باہر کی جانب کھینچ رہے تھے اس لیئے بیگم صاحبہ سے واش روم کا بہانہ کیا اور واپس لابی میں گھوم پھر کے قدرت کی صناعیاں دیکھنے لگا۔ وہاں ایک سے ایک خوبصورت اور دل نشیں صورت موجود تھی یا پھر شائد لابی کا شاہانہ ماحول مجھ پر اثر انداز ہونے لگا تھا،
وہاں گزرے ہوئے 4 گھنٹے ایک خواب کی مانند لگتے تھے، خدا خدا کرکے رات 10 بجے ہال کی بتیاں گل کردی گئیں اور یہ ہم جیسے ''عقلمندوں '' کے لیئے اشارہ تھا کہ اب یہاں سے پھوٹ لو۔

گھر پہنچ کر سو گئے تو خواب میں بھی ''پی سی'' کی تتلیاں ہی دکھائی دیتی رہیں، میں اس وقت حقیقت کی دنیا میں واپس آیا جب بیگم صاحبہ نے جھنجوڑ کر اٹھایا اور نادر شاہی حکم جاری فرمایا کہ مارکیٹ جا کر بریڈ لے آئیں آج بچوں کو بھوکا مارنے کا ارادہ ہے؟
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں