کیا سرمایہ داری فطری نطامِ معیشت ہے؟

پیر، 3 فروری، 2014


اس سوال کے جواب کے لیئے ہمیں واپس پتھر کے زمانے کی طرف سفر کرنا ہوگا۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس زمانے میں لوگ ایک دوسرے سے دور دراز چھوٹی چھوٹی بستیاں بنا کر رہا کرتے تھے، اس دور میں آج کی طرح زندگی کوئی آسان نہیں تھی بلکہ انسان کو انتہائی مشکل اور خطرناک حالات میں زندہ رہنا پڑتا تھا، موسمی تغیرات سے لیکر جنگلی درندوں تک سے اسے خطرات لاحق تھے،، کبھی کبھار تو وہ شکار کرتے ہوئے خود بھی شکار ہوجایا کرتا مگر زندگی کی گاڑی رینگتی رینگتی آگے کی جانب سفر کرتی رہی۔

ان لوگوں کا سوشل سیٹ اپ (اگر میں غلطی پر نہیں تو) کچھ ایسا تھا کہ انکے مختلف گروپ بنا دئیے جاتے تھے جن میں سے ایک گروپ کاکام شکار کرنا، دوسرے کا کام کھیتی باڑی، تیسرے کا کام شکار اور حفاظتی نقطہء نظ
ر سے نت نئے ہتھیار بنانا، چوتھے کاکام گھروں میں مقیم عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی حفاظت کرنا ہوا کرتا تھا۔

جب تمام گروپس شام کو اکھٹے ہوتے تو وہیں پر تمام شکار اور اجناس وغیرہ کی تقسیم کی جاتی اور ہر کسی کی ضرورت کے مطابق اسے سامان مہیا کردیا جاتا،،، اگر شکار کم ملا ہے تو اسی نسبت سے سب کا حصہ بھی کم ہوجایا کرتا اور زیادہ شکار ملنے کی صورت میں سب کی عیاشی ہوجاتی،،،
بستی یا قبیلے کے سردار کو بھی اسکی ضرورت کے مطابق برابر کا حصہ مل جایا کرتا اور اس طرح پتھر کا انسان بتدریج ترقی کی منازل طے کرتا ہوا آخر کار مہذب دنیا کا باسی کہلانے لگا،،

کیسی خوفناک حقیقت ہے کہ جب انسان ان پڑھ، وحشی اور گنوار تھا تب وہ انصاف سے کام لیکر ایک دوسرے کے ساتھ برابر کا حصہ پتی لیتا رہا مگر جیسے ہی اس کے عقل و شعور نے ترقی کی منازل طے کیں وہ آہستہ آہستہ اپنے ہی ہم جنسوں کا دشمن بنتا چلا گیا اور یہاں تک کہ انکے حصے کا رزق بھی خود ہی ذخیرہ کرلیا جس کی وجہ سے آج اس کرہ ارض پر انسانیت غربت کے بوجھ تلے دب کر سسک رہی ہے۔