دیوتا

جمعرات، 26 ستمبر، 2013

ورلڈ ہیلتھ آگنائزیشن کی طرف سے مجھے ایک ایسے علاقے میں سانپوں اور دیگر زہریلے کیڑے مکوڑوں پر ریسرچ کے لیئے بھیجا گیا جسکا ایک حصہ لق و دق صحرا پر مشتمل تھا تو ایک بڑے حصے پر دلدلی زمینیں میلوں تک پھیلی ہوئی تھیں، سروے کے دوران لوگوں سے ڈاکٹر امجد کے بارے میں معلوم ہوا جو آج کے دور میں ایک افسانوی سا کردار لگتا ہے۔

شہر سے سیکنڑوں میل دور اس ویرانے میں ایک ڈاکٹر کی موجودگی ہی بڑی عجیب بات تھی اور اس پر اس نے اس علاقے کے لوگوں میں زندگی بانٹی جہاں سرکار بھی نہیں تھی مگر ایک ڈاکٹر موجود تھا،وہ وہاں کے لوگوں کو ملیریا کے ٹیکے اور سانپوں کے کاٹے کے انجیکشن لگا کر بلاشبہ اب تک ہزاروں زندگیاں بچا چکا تھا، جہاں کوئی فیس نہیں تھی مگر صرف دعائیں تھیں اور یا پھر ڈاکٹر امجد جو پچھلے 35 سال سے لوگوں کے علاج میں مصروف تھا۔

اس نے اخباروں میں اپنی تصویریں نہیں چھپوائیں کوئی عام سا آپریشن کرکے ٹی وی چینلز کو انٹرویو نہیں دئیے، سرکار سے کوئی تمغہ نہیں لیا، پی آر کی فرموں سے جعلی نام و نمود حاصل کرکے اپنی شان میں اضافہ بھی نہیں کیا بلکہ ذلتوں اور غربت کے مارے لوگوں کے دکھ کم کرنے میں مسلسل مصروف رہا انکی ٹوٹتی سانسوں کو بحال کرکے واپس زندگی کی طرف کھینچ لیا، حکومتوں اور سماج کے ٹھیکیداروں کی نطر میں یہ کوئی کام تو نہیں تھا مگر وہ یہ کام کرتا رہا یہاں تک کہ آج اسکی عمر 75 برس کے قریب تھی اور وہ چالیس سال کی عمر میں یہاں آیا اور واپسی کا راستہ جیسے بھول ہی گیا۔ اپنی واپسی سے ایک شام پہلے میں ڈاکٹر امجد کے ساتھ چائے پی رہا تھا۔

اپنے کپ سے آخری چسکی لینے کے بعد میں نے سوال کیا کہ ڈاکٹر صاحب آپ یہاں کس طرح پہنچے؟ ڈاکٹر نے سگریٹ کے دھویں سے مرغولے بناتے ہوئے کہا کہ ''قسمت'' میرا ایک دوست تھا جو اس علاقے کا ڈپٹی کمشنر تھا اس نے مجھے اور میری فیملی کو اس جگہ مدعو کیا کہ شہر کی کثیف فضائوں سے دور کہیں ایک ہفتے کے لیئے اپنا آپ گم کرکے دیکھتے ہیں۔

وہ اس جگہ ہماری پہلی ہی رات تھی جب مجھے کسی کی زور زور سے جھگڑنے کی آوازیں آئیں اور میں اپنا گائون پہن کر باہر نکلا، وہاں ایک مرد اور عوت چوکیدار کی منت سماجت کررہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب کو جگاؤ لیکن وہ ہمارے آرام میں خلل دالنے پر آمادہ نہیں تھا،،، مجھے دیکھ کر اس شخص کی بیوی تیزی سے میری طرف آئی اور کہنے لگی،،، ڈاکٹر صاحب میرے تین بچے پہلے ہی اسی طرح مر گئے اب یہی ایک باقی بچا ہے،،، یہ کہہ کر زور زور سے رونے لگی۔

میں نے بچے کا بغور معائنہ کیا تو وہ سردی سے کپکپا رہا تھا اور اسکی سانس بھی تیز چل رہی تھی،،، واضع طور پر یہ ملیریا کا کیس تھا، میرے بیگ میں کوئی 20 کے قریب ملیریا کے انجیکشن موجود تھے جو میں احتیاطاً ساتھ لیکر آیا تھا،،،چنانچہ بچے کو فوری طور پر ایک انجیکشن لگایا اور ماتھے پر پانی کی پٹیاں رکھیں،، پھر میں نے اندر چل کر سونے کی دعوت دی لیکن ڈاک بنگلے کے برآمدے میں ہی انہوں نے باقی رات گزاری اور اگلے روز صحتمند بچے کو لیکر واپس چلے گئے۔

اس ایک ہفتے کے دوران مزید کئی ملیریا کے مریضوں کا علاج کیا یہاں تک کہ میری روانگی کا دن بھی آگیا، اب میں مزید رک بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ شہر میں میرے کئی ایکڑ پر پھیلے ہوئے جدید ترین ہسپتال کا افتتاح تھا اس لیئے جانا تو تھا، جس وقت ہمارا سامان گاڑی میں رکھا جارہا تھا تو اس علاقے کے سینکڑوں لوگ ہمارے چاروں طرف کھڑے ہوکر اشکبار آنکھوں سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔

اچانک ہجوم کو چیرتا ہوا کوئی میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا،،، اور اس نے کھجوروں سے بھری ایک بوری لاکر میرے قدموں میں رکھ دی،،اسکی بیوی اور بچہ بھی آنکھوں میں آنسو لیئے میرے سامنے آکر ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوگئے، میں نے زندگی میں بڑی بھاری بھرکم فیسیں بھی وصول کی ہیں مگر ایسی فیس زندگی میں کبھی نہیں ملی جس نے میرے اندر کی دنیا کو تہہ و بالا کردیا ہو۔

بس یہی وہ شائد کوئی جادوئی لمحہ تھا یا پھر اس چھوٹے سے بچے کی آنکھوں میں لرزتے ہوئے وہ آنسو؟ جس نے ایک پل میں ان صحرا والوں کے حق میں فیصلہ کردیا۔ میری بیوی اور تینوں بچے منتیں کرتے رہے مگر میں نے واپس جانے سے صاف انکار کردیا
پھر تھوڑی دیر کے بعد وہ روتے ہوئے گاڑی میں سوار ہوکر شہر کی طرف روانہ ہوگئے اور میں انکی گاڑی کی دھول اڑتی دیکھتا رہا،۔