پیر، 16 ستمبر، 2013
عروس البلاد کراچی جسے کبھی روشنیوں کا شہر کیا جاتا تھا آج بھتہ خوری، ٹاگٹ کلنگ اور منشیات کے اندھیروں میں غرقاب ہونے کو ہے، صاحبانِ اقتدار و اختیار سر جوڑ کر اسے ان بلاؤں سے نجات دلانے کے منصوبے بنا رہے ہیں، کوئی اس ہولناک تباہی کا ذمہ دار لسانی تنظیموں کو قرار دے رہا ہے تو کوئی قرفہ وارانہ جماعتوں کو، کسی کے خیال میں پولیس اور رینجرز اختیارات کا ناجائز استعمال کرتی ہے تو کوئی یہ نسخہء کیمیا نکال کر لاتا ہے کی پولیس میں ہزاروں کے حساب سے سیاسی بنیادوں پر بھتیاں ہی اس ہلاکت آفرینی کی اصل وجہ ہیں۔
یہ سارے بزرجمہر اور دانشور سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود جس وجہ پر لب کھولنے سے معذور ہیں وہ ہے بے روزگاری اور مہنگائی۔ انکی زبانیں اس لیئے گونگی ہوچکی ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ اسکے ذمہ دار وہ خود ہیں جنہیں دو دو تین
تین مرتبہ اقتدار میں آنے کے مواقع ملے مگر انہوں نے عوام کی زندگیوں کو آسان بنانے کی بجائے مزید مشکلات کا شکار کردیا۔
اس سے قبل بھی کراچی میں 2 مرتبہ آپریشن کیئے جاچکے ہیں جن کے بعد یہ دعوے کئیے گئے کہ اب کراچی کو تمام غلاظتوں سے پاک کردیا گیا ہے اور اب اس شہر کی رونقیں بہت جلد واپس لوٹ آئیں گی، مگر بدقسمتی سے کبھی ایسا ممکن نہ ہوسکا اور غلاظتوں کو صاف کرنے کی بجائے قالین کے نیچے چھپانے کی پالیسی پر عمل کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج کراچی پہلے سے بھی کہیں زیادہ مصائب اور الجھنوں کا شکار ہے۔
میرے خیال میں جب تک اس ملک میں معاشی اصلاحات نہیں آئیں گی اور بے روزگاری کا خاتمہ نہیں ہوگا تب تک بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کی مافیاؤں کو غربت اور بھوک کی نرسریوں سے خام مال مہیا ہوتا رہے گا اور کراچی کا امن محض خواب و خیال بن کر رہ جائے گا۔ بے روزگاری اور مہنگائی کا عفریت خود حکومتوں کا اپنا پیدا کردہ ہے اور ان مسائل پر سرمایہ دارانہ سسٹم میں رہ کر قابو پانا دیوانے کا خواب تو ہو سکتا ہے مگر حقیقت کی دنیا اس سے کوسوں دور ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں