'' جنسی گھٹن کا شکار معاشرہ''

پیر، 16 ستمبر، 2013


ایک اخباری رپورٹ کے مطابق سندر اور قصور میں اوباش افراد نے دو معصوم بچیوں جبکہ شاہدرہ ٹائون میں بچے کو زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ مانگا منڈی کے علاقے سندر میں تھانے سے متصل رانا مختار کے بھٹے پر کام کرنیوالے شوکت علی کی 5 سالہ بچی کو جو گھر کے باہر کھیل رہی تھی کہ ایک اور بھٹہ مزدور محمد طفیل کا 20 سالہ اوباش بیٹا بوٹا ورغلا کر کھیت میں لے گیا اور درندگی کا نشانہ بنایا۔ بچی کے شور مچانے پر دیہاتی اکٹھے ہوگئے اور ملزم کو چھترول کے بعد پولیس کے حوالے کردیا۔ بچی کو جناح ہسپتال لاہور داخل کرا دیا گیا، زیرحراست ملزم بوٹا نے بتایا کہ اس نے بچی سے زیادتی کی کوشش کی تھی مگر زیادتی نہیں کی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ حقائق میڈیکل رپورٹ سامنے آنے پر واضح ہونگے۔

شاہدرہ ٹائون میں اوباش شخص اسد ندیم علی کے 10سالہ بیٹے کو ورغلا کر اپنے گھر لے گیا اور زیادتی کا نشانہ بناکر فرار ہوگیا۔ پولیس اسکی تلاش میں چھاپے مار رہی ہے۔ ادھر ہربنس پورہ کے علاقے فتح گڑھ میں عبدالمنان کی 10سالہ بیٹی گلی میں کھیل رہی تھی کہ محلے دار رضوان نے اس سے زیادتی کی کوشش کی اور بچی کے شور مچانے پر اہل علاقہ کے جمع ہونے پر وہ فرار ہوگیا۔

قصور میں نامعلوم افراد نے محنت کش ارشاد کی 6سالہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد بے ہوشی کی حالت میں شہباز خان روڈ پر پھینک دیا۔ ایک راہگیر نے بچی کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال پہنچایا جہاں اسے طبی امداد دی جا رہی ہے، رات گئے بچی کی سرجری کیلئے مصطفی آباد سے لیڈی ڈاکٹر بلوائی گئی۔ متاثرہ بچی شہباز خان روڈ سے ملحقہ کچی آبادی کی رہائشی بتائی گئی ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے قصور میں 6 سالہ بچی سے زیادتی کا نوٹس لیتے ہوئے آر پی او سے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی۔ وزیراعلیٰ نے پولیس کو ملزموں کی فوری گرفتاری کا حکم دیا۔

گوجرانوالہ میں تھانہ دھلے کے علاقہ گلی فضل بٹ والی میں وسیم عباس نامی اوباش گلی میں کھیلتی ہوئی ہمسایہ کی تین سالہ بچی کو ورغلا کر اپنی حویلی میں لے گیا اور اسکے ساتھ مبینہ طور پر زیادتی کی کوشش کی مگر بچی کے شور مچانے پر اہل محلہ نے اکٹھے ہوکر اسے دبوچ لیا جبکہ مشتعل لوگوں نے اسے بری طرح زدوکوب کیا اور بعدازاں پولیس کے حوالے کر دیا۔

جنسی زیادتیوں کی بڑھتی ہوئی وبا کے پیشِ نظر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ہمارا معاشرہ شدید قسم کی جنسی گھٹن کا شکار ہے اور اسکی ذمہ داری بھی پورے معاشرے پر عائد ہوتی ہے، جدید ترین ذرائع ابلاغ نے کچے ذہنوں کو اس درجہ مسموم کردیا ہے کہ اب ان واقعات کی روک تھام کے لئیے سنجدیگی سے غور کرنا ہوگا، صرف سخت سزائیں ہی کافی نہیں ہونگی بلکہ اسکے ساتھ ساتھ معاشرے میں گند پھیلانے والے عوامل کو بھی مدِ نظر رکھنا ہوگا، خاص طور پر موبائل فون اور کمپیوٹر استعمال کرنے پر بھی عمر کی حد بندی ضروری ہوگئی ہے۔