ڈاکو کون؟

پیر، 16 ستمبر، 2013



میں ایک عام آدمی ہوں۔ وہی عام آدمی جو دنیا کے اس سمندر میں ایک چھوٹی مچھلی کی طرح اپنی جان بچانے کے علاوہ زندہ رہنے کےلیئے ہاتھ پاؤں مارنے اور جدوجہد کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ وہ سمندر میں رہنے والی بڑی مچھلیوں کی خوراک بننے سے بچ بھی جائے تو ایک دن مچھیرے کے جال میں پھنس کر زندگی کی بازی ہار جاتا ہے اور اس طرح اس دنیا سے ایک کہانی کا اختتام ہوجاتا ہے۔

ٹھہرئیے ،،،،!
میں آپکو شروع سے بتاتا ہوں، ہمارے ٹی وی چینل نے جیل میں سزائے موت کے قیدیوں سے انٹرویو کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جنکے انٹرویوز ہمارے چینل فساد پلس سے چلائے جانے تھے، شیدے ٹی ٹی کے ساتھ اس سلسلے کا پہلا انٹرویو تھا، جس
نے اپنی بات نہائت ہی فلسفیانہ انداز میں شروع کی۔ میں نے اس سے سوال کیا کہ تم جرائم کی دنیا میں کیسے آئے؟

شیدا ٹی ٹی کچھ دیر تک فضا میں کچھ دیکھتا رہا اور اور پھر ایک ٹھنڈی سانس لیکر بولا، صاحب، میں کوئی پیدائشی مجرم نہیں ہوں، بلکہ کوئی بھی ماں کے پیٹ سے جرائم کا چارٹ لیکر پیدا نہیں ہوتا اسکے حالات اور ارد گرد کا ماحول اسے جرم کی دنیا میں دھکیل دیتے ہیں، میں بھی محنت مزدوری کرنے والا بندہ تھا جو سارا دن سائیکل پر رکھ کر گلیوں گلیوں بیڈ شیٹس اور دریاں فروخت کیا کرتا، میرے گاہکوں میں اچھے اچھے امیر ترین گھرانوں کی خواتین بھی شامل تھیں کیونکہ میں واجبی سا منافع لیکر زیادہ سیل کا قائل تھا اور میری اشیاء بازار کے مقابلے میں سستی ہونے کے علاوہ معیار میں بھی بہترین ہوا کرتی تھیں، یہی وجہ سے کہ میری مستقل گاہکوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا تھا اور یوں عزت سے گزارہ ہورہا تھا،

ایک دن گھر واپس آیا تو دیکھا کہ میری بیوی بری طرح کھانس رہی ہے، میں جلدی سے اسے محلے کے ڈاکٹر کے پاس لے گیا جس نے مجھے ایک اسپیشلسٹ کا پتہ دیا،، میں فکر مند ہوگیا اوراسے بڑے ڈاکٹر کے پاس لے گیا جس نے چند ٹیسٹ لکھ کر دے دئیے، جب لیبارٹری پہنچا تو پتہ چلا کہ یہ سب ٹیسٹ ملا کر کوئی 20 ہزار روپے میں ہوں گے اور میری جیب میں فقط چند سو روپے موجود تھے، میں نے اسی وقت سائیکل پکڑی اور مسز درانی کے پاس چلا گیا جو انتہائی خدا ترس خاتون تھیں، انہوں نے میری مجبوری سنی تو مجھے 5 ہزار روپے دے دئیے کہ بعد میں سودوں میں سے ایڈجسٹ کرلیں گی، اسی طرح میں نے بمشکل رقم جمع کرکے بیوی کے ٹیسٹ کروائے، ڈاکٹر صاحب نے حکم دیا کہ ایک اور لیبارٹری سے بھی یہی ٹیسٹ کروا لیئے جائیں تاکہ ہم درست ترین نتیجے پر پہنچ سکیں، یہ سن کر میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا کہ اب کیسے بندوبست کروں؟

بہر حال جیسے تیسے یہ منزل بھی سر کی مگر میں بری طرح مقروض ہوگیا، رپورٹس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ تمہاری بیوی کو کینسر ہے اس لیئے کم از کم 5/6 لاکھ روپے کا بندوبست کرلو تاکہ اسکا آپریشن کیا جاسکے،،،اور ہاں اس آپریشن میں دیر نہیں ہونی چاہئیے ورنہ آپریشن سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہونے والا، مجھے اور تو کچھ سجھائی نہیں دیا ایک سود خور کے پاس ابا کی آخری نشانی مکان کو گروی رکھ کر اس سے 5 لاکھ روپے قرض لیا اور آپریشن کروا لیا۔ بیوی تو ٹھیک ہوگئی مگر سود خور کا قرض اتنا ہوگیا کہ میرے لیئے ادائیگی ممکن نہ رہی اور آخر کار مکان اسے دیکر خود کرائے پر آگیا۔

میرے حالات بھی اب پہلے جیسے نہیں تھے مگر پھر بھی گزر بسر ہورہی تھی کہ ایک دن میری بیوی کو پھر وہی پرانی تکلیف ہوئی،،، اس مرتبہ میں اسے سرکاری ہسپتال میں لے گیا جہاں معمولی سے ٹیسٹ ہوئے، میں نے انہوں پرانی رپورٹس بھی دکھائیں جنہیں دیکھ کر ڈاکٹرز نے کہا کہ یہ تو پھیپھڑوں کی معمولی سی انفیکشن کا کیس ہے، جب میری بیوی کا تفصیلی معائنہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ اسکا ایک گردہ نکالا جاچکا ہے۔

وہ میرا شرافت کی زندگی کا آخری دن تھا صاحب، اور پھر پہلا ڈاکہ میں نے اسی ڈاکٹر کے ہاں ڈالا جس نے میری بیوی کا گردہ نکال کر کسی رئیس کے ہاتھ فروخت کیا تھا،،، وہ دن اور آج کا دن میں جرائم کی دلدل میں دھنستا چلا گیا اور آج آپکے سامنے بیٹھا ہوں،، یہ کہہ کر شیدا ٹی ٹی زار و قطار رونے لگا اور میں سوچنے لگا کہ قاتل اور ڈاکو شیدا ہے یا وہ ڈاکٹر جس نے اس کی زندگی کو جرائم کی راہ پر ڈال دیا،،، معزز قارئین مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہی ،،، کیا آپ اس سلسلہ میں میری مدد کریں گے؟