میں کئی سال سے بیرون ملک مقیم تھا، اس دوران گھر والوں کے علاوہ کچھ دوستوں سے بھی رابطے میں رہا، پھر والدین کی وفات کے بعد بیوی بچوں کو بھی وہیں بلا لیا اور یوں وطن سے تھوڑا بہت رابطہ بھی ٹوٹ گیا۔
اب ایسا بھی نہیں تھا کہ اپنے دیس کی یاد کبھی نہ آتی ہو، پاکستانی چینلز پر وہاں کی خبریں دیکھ کر جی کڑھتا تھا کہ وہاں کیا ہورہا ہے؟
کچھ لوگوں کے پاگل پن کی وجہ سے ملکی حالات دن بہ دن مزید خراب ہوتے چلے جا رہے تھے، کئی مرتبہ پروگرام بنایا کہ پاکستان جاؤں مگر بیوی بچوں نے وہاں کے حلات کے تناظر میں اسکی شدید مخالفت کی اور یوں مزید 25 برس بیت گئے،
پھر میرے حالات میں مزید تغیر آیا، بیوی بھی اگلے جہان سدھار گئی اور بچوں کی شادیوں کے بعد میں پھر اکیلا رہ گیا، تب ایک دن ایک ہوک سی دل میں اٹھی اور میرا دل اپنے وطن کی خاک پر سجدہ دینے کو بے قرار ہوگیا،
میں نے اپنے دوست حاجی کلیم اللہ شیخ کو کال ملائی، پہلے تو اس نے مجھے پہچانا ہی نہیں مگر جب میں نے اسے بتایا کہ میں اسکے بچپن کا دوست عبدلکریم بات کرہا ہوں تو اسکی آواز میں گرم جوشی آگئی اور وہ کہنے لگا کہ پاکستان آنے کے بعد کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں تم وہاں میرے مہمان ہوگے، میں نے اسکا ایڈریس دریافت کیا تو وہ بول،
یار میں اپنے شہر کا ''میئر ''بن چکا ہوں اس لیئے وہاں کا ہر بندہ مجھے جانتا ہے، کسی بھی ٹیکسی، رکشہ یا تانگے والے سے کہنا وہ میری رہائش گاہ تک پہنچا دے گا۔
میں نے جلدی جلدی تیاریاں مکمل کیں اور ایک ہفتے کے بعد اپنے شہر کے بس اسٹینڈ پر موجود تھا، ایک ٹیکسی والے کو آواز دی،،، اس نے کہا بابو جی کہاں جاؤ گے؟
میں نے کلیم اللہ کا نام لیا تو اسکے چہرے پر ناگواری سی چھا گئی اور کہنے لگا، سوری جناب ٹیکسی خالی نہیں ہے،،،
اب میں نے ایک رکشہ روکا اور اسے کلیم اللہ کے گھر پہنچانے کو کہا،،، اس نے غصے سے میری طرف دیکھا اور بولا،،، اڑے بابا جاؤ ہم ادھر نہیں جائے گا،،،
میں بہت حیران ہوا ،،،
خیر،،، اسکے بعد ایک ٹانگے والے سے معاملہ کرنے کی کوشش کی تو اسکے ضبط کے تمام بند ہی ٹوٹ گئے،، اسن نے چند گالیاں کلیم اللہ کو دیں اور اسکے بعد میری شان میں بھی چند الفاظ کہنے کے بعد وارننگ دی کہ چلتے پھرتے نظر آؤ ورنہ جوتے بھی پڑنے کا امکان پے،،،، ابکے تو میں بڑا پریشان ہوا ،،، یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے؟
بہر حال لوگوں سے پوچھتا پچھاتا بصد خرابئیء بسیار ''میئر ہاؤس'' پہنچ گیا،،
کلیم اللہ ے بڑی گرم جوشی کا اظہار کیا اور پھر ہم پرانی یادوں میں کھو گئے،، اچانک مجھے کچھ یاد آیا اور میں نے اس سے پوچھا،،،
بطور میئر تم کتنی تنخواہ لیتے ہو؟
کلیم اللہ زیر لب مسکرایا اور کہنے لگا،،، میرے دوست
اللہ نے مجھے اتنی ''عزت '' سے نواز رکھا ہے اس لیئے میں بلا معاوضہ اپنے شہر کے لوگوں کی خدمت کررہا ہوں۔۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں