ناامید نسل

منگل، 10 ستمبر، 2013


جب ہمارے والدین اپنے بچوں کے گلے میں بسٹہ لٹکا کر انہیں پہلی مرتبہ سکول چھوڑنے جاتے ہیں تو انکی آنکھوں میں کیسے کیسے سپنے سجے ہوتے ہیں، کتنی ہی امیدوں کے دیپ انکی نگاہوں میں روشن دکھائی دیتے ہیں۔ مگر جب یہ تعلیم حاصل کے عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو پہلے قدم پر ہی انہیں باور کرا دیا جاتا ہے کہ جو کچھ تم نے سکول، کالج اور یونیورسٹی میں حاصل کیا وہ سب فضول اور بیکار تھا،،، تمہاری ڈگریاں کاغذ کے پرزوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں،اگر تمہاری جیب میں کڑکتے ہوئے کرارے کرارے نوٹ موجود ہیں تو پھر تم اس دنیا کے بازار سے نوکری تو کیا دنیا کی ہر چیز حاصل کرسکتے ہو، ورنہ یا تو ایک دن خود کشی کرنے والوں میں تمہارا نام ہوگا یا پھر جرائم پیشہ افراد کی لسٹ میں،،،،کوئی بھی اس گندے اور بے ہودہ سسٹم کو الزام نہیں دے گا،،، ایسے وقت میں ان والدین (جنہوں نے نہ جانے کس طرح اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اپنی اولاد کو تعلیم دلائی ہوتی ہے) کی آنکھوں میں حسرت و یاس اور ناامیدی کے آنسو دیکھ کر کس کا دل نہیں کٹ جاتا ہوگا؟ آئیے اس ظالمانہ اور بے ہودہ سسٹم کے خلاف بغاوت کا اعلان کریں، ورنہ ایک دن یہ سسٹم ہماری آنے والی نسلوں سے امید اور آس کی روشنی بھی چھین لے گا۔ (
تحریکِ تکمیلِ پاکستان)