مستقبل کے خواب

پیر، 16 ستمبر، 2013



ابھی ہماری لانچ سمندر میں چند میل تک ہی گئی ہوگی کہ پاکستانی کوسٹ گارڈز نے اسے گھیر لیا اور پھر اسی شام ہم ایک کمرے میں انکے آفیسر کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے، آفیسر کوئی نرم طبیعت کا مہربان قسم کا انسان تھا جو بڑی رسان سے سب کے کوائف نوٹ کرتا جارہا تھا، ویسے بھی انہیں معلوم تھا کہ ہم مظلوم لوگ ہیں اور ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، ہم میں سے ہر کسی کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک دردناک کہانی تھی، کسی کے باپ نے اپنی کٹیا بیچ کر اپنے پیٹے کو بدیش بھیجنے کی کوشش کی تھی کیونکہ اسکی 4 بیٹیاں ہاتھ پیلے ہونے کے انتطار میں بوڑھی ہورہی تھیں تو کسی نے ماں کا زیور فروخت کرکے مستقبل کے خواب خریدنے کا سودا کیا تھا۔

جب میری باری آئی تو میں نے آفیسر سے کہا کہ بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ مجھ سے تنہائی میں ملیں، اس نے میری بات مان لی اور دوسرے کمرے میں لے گیا۔ جناب میں ایک صحافی ہوں اور میں انسانی سمگلروں کے بارے میں معلومات اکٹھی کررہا تھا کہ کس طرح یہ معصوم لوگوں کو پھانستے ہیں، بھاؤ تاؤ کیسے کیا جاتا ہے اور انکی شاخیں کہاں کہاں تک ہیں۔ میری ریسرچ ابھی ابتدائی مراحل میں تھی کہ آپکی وجہ سے میرا یہ قومی مشن ادھورا رہ گیا۔ اگر یہ لوگ پکڑے جاتے تو شائد بہت سے گھرانے لٹنے سے بچ جایا کرتے ۔ یہ کہہ کر میں نے اپنے چینل ''فساد پلس'' کا کارڈ اسکے سامنے رکھ دیا۔

آفیسر مسکرایا،،، یہ تو بڑا رسک لیا تم نے، جی ہاں سر مگر میں اتنا بھی غافل نہیں تھا اس بیچ میں میرے 2 ساتھی ''بابر '' اور ''ولید'' بھی میرے ساتھ تھے جنہیں میں اپنی مدد کے لیئے ساتھ لایا تھا، ٹھیک ہے میں تم تینوں کو چھوڑ رہا ہوں کیونکہ تم ایک زبردست ٹاسک پر کام کررہے ہو جو ایک لحاظ سے قومی خدمت بھی ہے، اپنے اس مشن کو ادھورا نہیں چھوڑنا، یہ میرا پرسنل فون نمبر ہے آئندہ جب اس کیس پر پیش رفت کا رادہ ہو تو مجھے بتا دینا تاکہ تمہاری لانچ کو نکلنے دیا جائے اور تم اس پورے ریکٹ کو بے نقاب کرسکو، یہ کہہ کر آفیسر نے میرے ساتھ الوداعی مصافحہ کیا۔ ا

گلے دن میں بابر اور ولید کے ساتھ چائے ہی رہا تھا کہ ولید بولا ، مان گئے استاد تم کس صفائی سے ہمیں نکال کر لے آئے۔ میں نے اسکے سر پر چپت جماتے ہوئے کہا، صفائی کے بچے، اب جلدی سے بیس 25 بندے پکڑو اور پانچ پانچ لاکھ میں معاملہ طے کرلو، ہم دو ہفتے کے بعد اگلے بیچ کو لے کر روانہ ہوں گے اور اس مرتبہ پکڑنے والے خود ہمیں راستہ دیں گے،، اور کمرا ہم تینوں کے قہقہوں سے گونج اٹھا۔