ہیلپ لائن

اتوار، 22 ستمبر، 2013


بارش تھی کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لےرہی تھی یوں لگتا تھا کہ آج ابر کرم اس شہر پر مائل بہ ستم ہے، شہر کا سیوریج سسٹم اس بارش کا بوجھ سمبھالنے میں پوری طرح ناکام ہوچکا تھا اور گلی کوچے نہروں کامنظر پیش کررہے تھے۔ پورے کا پورا شہر متاثر ہونے کی وجہ سے کاروبار زندگی معطل ہوکر رہ گیا۔

اس وقت خالد کے پاس 6 عدد ایمرجنسی سکواڈ موجود تھے جنہیں مختلف علاقوں کی طرف روانہ کردیا گیا مگر بجلی کا سسٹم بھی اس بارش کی تاب نہ لاتے ہوئے بریک ڈاؤن ہوگیا تھا، فون پر دھرا دھڑ شکایات موصول ہو رہی تھیں، ڈیوٹی پر موجود آپریٹر کالیں سن سن کر نیم پاگل ہونے کو تھا، خالد بھی اس صورت حال سے خاصا پریشان تھا جس کی وجہ سےاس کا سر درد سے پھٹنے کے قریب ہوگیا تب اس نے اسے حکم دیا کہ تمام ٹیلی فونوں کے ریسیورز کو کریڈل سے اتار کر رکھ دیا جائے تاکہ کچھ تو سکون ہو،،،
اب ہم مزید بندے کہاں سے لائیں جو لوگوں کی بجلی کی سپلائی کو ٹھیک کریں؟

نجمہ انتہائی پریشانی کے عالم میں اپنے بچے کو اٹھائے بارش میں بھیگ رہی تھی مگر اس تند و تیز موسم میں کوئی سواری دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی تھی، ایسے میں ایک نوجوان نے اپنی انٹر کولر اسکے پاس روک کر مدد کی پیشکش کی جسے اس نے شکریہ کے ساتھ قبول کرلیا اور اس طرح وہ اپنے بچے کو لیکر چوہدری ہسپتال پہنچ گئی جہاں ڈاکٹروں نے فوری طور پر بچے کو آئی سی یو میں منتقل کرکے اسے ڈرپ لگا دی۔

اس روز خالد کا 7 سالہ بیٹا بخار کی وجہ سے اسکول نہیں جاسکا تھا اس لیئے اس نے بیٹے کی طبیعت معلوم کرنے کے لیئے ایک دو مرتبہ گھر فون کرنے کی کوشش کی مگر موبائل کے سگنل بھی بجلی کی سپلائی کی مسلسل بندش کی وجہ سے نہیں آرہے تھے، آفس ٹائم ختم ہونے کے بعد خالد نے اپنی دیو ہیکل سرکاری گاڑی نکالی اور سڑکوں پر کھڑے پانی میں سے گزرتا ہوا اپنے گھر پہنچ گیا لیکن مکان پر لگا تالہ اسکا منہہ چڑا رہا تھا۔

ہمسایوں نے بتایا کہ اسکی بیوی بیٹے کو چوہدری ہسپتال میں لیکر گئی ہے کیونکہ اسکی طبیعت زیادہ خراب تھی، خالد نے جلدی سے ہسپتال کا رخ کیا اور ریسیپشن سے اپنے بیٹے کے کمرے کا پوچھ کر اندر داخل ہوگیا، اسکے بیٹے کو ڈرپ لگی تھی اور اسکا چہرہ کمزوری کے باعث پیلا ہورہا تھا۔

خالد جاتے ہی بیوی پر برس پڑا،،،
نجمہ،،،! تم سے اتنا بھی نہیں ہوا کہ مجھے ایک فون ہی کر دیتی؟
اس نے روتے ہوئے جواب دیا کہ اس نے خالد کے موبائل کے علاوہ دفتر کے نمبروں پر کئی پرتبہ ٹرائی کیا مگر کوئی بھی فون نہیں لگا پھر وہ بیٹے کو لیکر بڑی مشکل سے ہسپتال پہنچی کیونکہ سڑکیں پانی میں ڈوب چکی تھیں اور کوئی رکشہ ٹیکسی بھی دستیاب نہیں تھے، اللہ کے ایک نیک بندے نے مصیبت میں دیکھ کر انہیں اپنی گاڑی میں ہسپتال پہنچایا۔

یہ سب کچھ سن کر خالد کا شرمندگی سے برا حال تھا، اس نے سوچا کہ پتہ نہیں ہمارے کال اٹینڈ نہ کرنے سے کتنے لوگوں کو ذہنی اذیت سے گزرنا پڑتا ہوگا اس لیئے اس نے دل ہی دل میں ایک فیصلہ کرلیا اور اگلے دن دفتر میں اعلان کردیا کہ آج کے بعد کبھی دفتر کے فون انگیج نہیں کئیے جائیں گے اور ہر فون کال اٹینڈ کی جائے گی۔

سارا عملہ حیرت سے اپنے آفیسر کا منہ دیکھنے لگا جو شائد پاگل ہوگیا تھا۔