اتوار، 29 ستمبر، 2013
میں تنے بتا رئیا ہوں کہ میرے ساتھ پنگا مت کریو،
میرے گھر والے جانتے ہیں کہ میں کتنا غصے والا ہوں، سب مجھے ''ہتھ چھُٹ'' کہتے ہیں گھر میں۔
ارے چھوٹے بہن بھائی تو ایک طرف، اماں اور باوا کی مجال نہیں جو میری طرف میلی آنکھ سے دیکھ لیویں۔
میری عمر اس وقت صرف 6 سال کی تھی جب گلی میں کھیلنے کے لیئے نکلا تو کالئیے نے میرے بڑے بھائی کا گریبان پکڑ رکھا تھا اور بھائی اسے دھمکانے میں مصروف تھا۔
قرائن سے کچھ یوں دکھائی دیتا تھا کہ کالئیے کی شامت آگئی تھی جو اس نے بھیا کے ساتھ لفڑا کر لیا کیونکہ بھائی ہمارے گھر کا 'بدی ماش'' تھا، جسے چاہتا برا بھلا کہہ دیتا اور چھوٹے بہن بھائیوں کو روئی کی طرح دھنک دینا اسکا معمول تھا، پورے گھر میں بھائی کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی اور کسی کو بھی اسکے سامنے لب کشائی کی ہمت نہیں تھی،
اپنی اسی بدمعاشی کے بل پر گھر کے بیشتر وسائل اسی کے قبضے میں رہتے تھے اور وہ آتے جاتے اماں سے وہ بیسے بھی چھین لیا کرتا جو ابا ہنڈیا کے لیئے دیکر جایا کرتے تھے، اسکی بدمعاشی کی وجہ سے گھر میں پیسوں کی ہمیشہ تنگی ہی رہی، منی کےلیئے دودھ کے پیسے چھین لینا اور مجھ سے بڑے کی سکول فیس ہتھیا لینا بڑے بھیا کا معمول تھا،
اسکے علاوہ گھر کے امور خارجہ اور داخلہ پر بھی اسی کی گرفت تھی، کہ فلاں سے ملنا ہے اور فلاں سے بائیکاٹ کرنا ہے، ہم لوگ بھیا کی آمریت سے بڑے پریشان تھے مگر کر کچھ نہیں سکتے تھے چنانچہ پاکستانی عوام کی طرح خون کے گھونٹ پی کے رہ جاتے۔
جب بھیا کا پھڈا کالئیے کے ساتھ ہوا تو میں ایک دیوار کی آڑ سے اس لڑائی کا احوال دیکھ رہا تھا، اس وقت میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب بھائی کی دھمکی کے جواب میں دپلے پتلے کالئیے نے ایک زوردار تھپڑ بھیا کے منہ پر مارا ،
بھائی نے کہا، میں نے کہا بھی تھا کہ میرے ساتھ پنگا مت کیجئیو، مگر تم نے اپنے شامت کو آواز دے ہی ڈالی نا،،،،،
چل ایب کے مار ، پھر میں تنیں بتاتا ہوں کہ میرے ساتھ لفڑا کرنے کا کیا نتیجہ ہوتا ہے،
یہ سنتے ہی کالئیے نے ایک اور تھپڑ بھیا کے منہ پر جڑ دیا،
اب تو بھیا کی آنکھوں میں آنسو آگئے مگر بڑی بہادری کے ساتھ ہر تھپڑ پر یہی کہتے رہے کہ '' ایب کے مار سالے''
میں نے جب بھیا کی یہ درگت بنتے دیکھی تو ایک انجانی سی خوشی کا اھساس بھی ہوا اور ساتھ ہی خوفزدہ بھی ہوگیا کہ بھیا سے نپٹنے کے بعد اگر کالئیے نے مجھ پر مکے بازی شروع کردی تو کیا ہوگا؟
میں موقعہء واردات سے فرار ہو کے گھر آگیا۔ تھوڑی دیر کے بعد خیر سے بھیا بھی گھر واپس آئے تو میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ انکے چہرے پر زخم کیسے آئے؟
جس پر بھیا نے کہا،،،،،،،،،،،
ایک بدبخت کی شامت آئی تھی جو مجھ سے ٹکر لے بیٹھا،،،
میں نے بھی وہ چار چوٹ کی مار لگائی ہے کہ برسوں یاد رکھے گا۔
آج کل مذاکرات کا بڑا رولا شولا ہے مگر نہ جانے کیوں ہر بم دھماکے اور دہشت گردانہ کاروائی کے بعد مجھے اپنے بچپن کا یہ واقعہ یاد آجاتا ہے اور میں سوچنے لگتا ہوں کہ بڑے بھیا گھر والوں کےلیئے بدمعاش اور دشمن کے لیئے ملائی کیوں ثابت ہوئے؟
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں