ریاض صاحب کی بیگم انتہائی سگھڑ، سلیقہ شعار اور امور خانہ داری میں مکمل طور پر طاق تھیں مگر نہ جانے کیوں ریاض صاحب کو انکے بنائے ہوئے کھانے اچھے تو لگتے، لذت میں بھی بے مثال ہوتے مگر انہیں ان کھانوں میں اپنی امں کے ہاتھ کی خوشبو کبھی نہ مل پائی،
خالدہ بھابھی (ریاض صاحب کی بیگم) نے کیا کیا جتن نہیں کئیے ہونگے، اپنی اماں سے مشورے کیئے، چند سینئر قسم کی پڑوسنوں کے ساتھ مذاکرات ہوئے، مزاروں پر چادریں چڑھائیں اور تو اور بنگالی باوا سے تعویز بھی لیکر ریاض صاحب کو پلایا مگر بات نہ بن سکی،
ایک دن خالدہ بھابی کی کالج کے زمانے کی سہیلی ملنے آئیں تو باتوں باتوں میں کچن کا خیال ہی نہیں رہا اور ہنڈیا تھوڑی سی جل گئی،
اب بھابی پریشان کہ ریاض بھائی کے کھر آنے کا وقت ہورہا تھا اور فوری طور پر بازار سے بھی کچھ منگوانا ممکن نہ تھا،
انکی سہیلی نے مشورہ دیا کہ جتنی ہنڈیا بچ گئی ہے اسے نکال کر دوبارہ بھون لو،
بھابی کہنے لگیں کہ انکے نخرے ہی ختم نہیں ہوتے، اچھے بھلے کھانے رد کردیتے ہیں تو یہ جلی ہوئی ہنڈیا کی بو تو فوراً انہیں اصل کہانی بتا دے گی،
سہیلی نے کہا کہ ان مردوں کو تم جیسی ''نیک پروین'' بیویوں نے سر پر چڑھا رکھا ہے آج میں بھی کھانے پر اساتھ ہی بیٹھوں گی اور دیکھتی ہوں کہ وہ کیا کرتے ہیں،،،
کھانا شروع ہوا تو خالدہ بھابی گھبرا رہی تھیں کہ ریاض صاحب کب پلیٹ اٹھا کر دیوار پر دے ماریں گے مگر انکی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے گلو گیر آواز میں کہا،،
اری خالدہ،،،، بالآخر تمہاری محنت رنگ لے ہی آئی،،،
آج تمہارے کھانے میں اماں مرحومہ کے ہاتھ کی خوشبو آرہی ہے،،،
یہ کہہ کر ریاض صاحب کی آنکھوں سے دو قطرے آنسو ڈھلکے اور نیپکن میں جذب ہوگئے۔

۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں