جمعہ، 20 ستمبر، 2013
آپ تو جانتے ہیں کہ آج کل کراچی کے حالات کاروباری افراد کے لیئے سازگار نہیں ہیں لیکن پھر بھی روزی کمانے کے لیئے کوئی کام دھندہ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ یوں بھی جیولری کا کاروبار ہمارا جدی پشتی کام ہے اور جب پاکستان بنا تو اس زمانے میں میرے دادا دلی کے سب سے مشہور جیولر ہوا کرتے تھے۔ نقل مکانی کے بعد کراچی میں بھی انہوں نے خود اس کاروبار کو سیٹ کیا اور بہت جلد اپنی کاروباری ذہانت اور محنت و ایمانداری کی بدولت اپنی ساکھ قائم کرلی۔
یہ سب انہی کی محنت کا نتیجہ ہے کہ آج ایک حادثے میں انکی اور میرے والد کی وفات کے بعد مجھے بنا بنایا بزنس ملا اور مجھے نئے سرے سے سٹارٹ لینے کی زحمت نہیں کرنا پڑی۔ آج اللہ کے فضل و کرم سے ہمارے گاہگوں میں شہر کی بڑی بڑی کارباری شخصات کے علاوہ ملکی سطح کے نامور سیاستدان اور رئیس لوگ شامل ہیں۔ ہم بھی انکی ضروریات کا خاص خیال رکھتے ہیں اور جواب میں ہمیں ان سے خطیر منافع بھی حاصل ہوتا ہے۔
اس روز بھی ایک بڑی پارٹی کی ڈیمانڈ پر میں نے 6 ہیرے سنگاپور سے منگوائے جن میں سے ہر ایک مالیت کوئی ایک لاکھ ڈالر کے برابر تھی اس طرح پاکستانی کرنسی میں یہ 6 کروڑ روپے سے بھی زیادہ رقم بنتی تھی۔ اس لیئے میں نے رسک لینے کی بجائے ان ہیروں کی انشورینس بھی کروا رکھی تھی۔
میرے ملازمین کے آنے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا کہ ایک نوجوان جوڑا میری شاپ میں داخل ہوا اور کچھ قیمتی زیورات دکھانے کی فرمائش کی۔ میں نے انہیں مختلف زیورات دکھائے مگر لڑکی کو کوئی بھی پسند نہیں آیا۔ لڑکے نے کہا کہ یہ افروز ہے اور اگلے ہفتے ہماری منگنی کی تقریب ہے، آپ ہمیں کوئی ایسا نیکلس دکھائیں جن میں قیمتی ہیرے جڑے ہوں قیمت کی پرواہ مت کریں کیونکہ میں اپنی افروز کے ماتھے پر ایک شکن بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ آخر بابا سائیں کی چھوڑی ہوئی سینکڑوں ایکڑ زمین میری ہی تو ہے۔
میرے اندر بھی لالچ نے سر اٹھایا کہ موٹی آسامی ہے اسے مُونڈنے میں کوئی حرج نہیں چنانجہ انہیں قیمتی ہیروں ولا ڈبہ کھول کر ہیرے دکھانے لگا کہ پہلے آپ ہیرے پسند کرلیں اسکے بعد جو بھی نیکلس آپکو پسند آئے اس مین یہ ہیرے فٹ کردئیے جائیں گے۔ دراصل یہ ہیرے ایک پارٹی کو دکھانے تھے مگر آپ فکر نہ کریں ہم 3 دن کے اندر ایسے ہی دوسرے ہیرے منگوا کر آپکا آرڈر وقت پر پورا کردیں گے۔
ہیروں کا ڈبہ دیکھ کر لڑکی آنکھوں میں چمک آگئی لیکن لڑکے نے دھیمی آواز میں کہا کہ میرے پاس دستی بم ہے اس لیئے کسی مزاحمت کی ضرورت نہیں بس منہ پھیر کر کھڑے ہوجاؤ، میں نے ڈرتے ڈرتے دیوار کی طرف منہ کیا اس نے میرے سر پر کسی چیز سے وار کیا اور میری آنکھوں کے سامنے تارے سے ناچ گئے، پھر میں دنیا و مافیہا سے غافل ہوگیا۔
کوئی دس منٹ کے بعد ہوش و حواس بحال ہوئے تو پانی کا ایک گلاس پینے کے بعد پولیس سٹیشن فون کیا جو حسبِ روائت 3 گھنٹے کے بعد تشریف لائی اور اوٹ پٹانگ قسم کی تفتیش کرنے کے بعد سی سی کیمروں کی فوٹیج مانگی۔ محض اتفاق ہی تھا کہ اس وقت لائٹ گئی ہوئی تھی اس لیئے فوٹیج بھی نہیں مل سکی۔
ہماری پولیس کی مستعدی کی وجہ سے پوری امید ہے کہ میرا مجرم کبھی پکڑا نہیں جائے گا۔ اس طرح بہت سے لاینحل کیسز کی طرح ایک دن اس کیس کو بھی داخلِ دفتر کردیا جائے گا۔ ویسے بھی مجھے کوئی خاص پرواہ نہیں ہے کیونکہ میرے تمام ہیرے انشورڈ تھے اور اب میرا اس ملک میں رہنے کا قطعی کوئی ارادہ بھی نہیں، کیونکہ یہاں ''شرفاء'' قطعی طور پر غیر محفوظ ہوچکے ہیں۔ مجھے تو بس اب اپنی انشورنس کی رقم حاصل کرنا ہے جو ان چوری شدہ نقلی ہیروں کی بدولت مجھے ملنے والی ہے جنہیں میں نے بڑی مہارت سے تیار کروایا اور انکی مالیت بھی چند ہزار سے زیادہ ہرگز نہیں۔ انشورینس کے 6 کروڑ اور اپنا تمام اصلی مال لیکر دنیا کے کسی بھی ملک میں اپنا کاروبار سیٹ کرسکتاہوں۔
امید ہے کہ قارئین میری کاروباری سوجھ بوجھ سے کافی متاثر ہوئے ہوں گے۔

0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں