چند گنے چنے لوگوں کی،،، جنہیں ٹریفک میں پھنس جانے پر اختلاج قلب ہونے لگتا ہے کیوںکہ وہ عام انسان نہیں بلکہ اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں آسمان سے حکمرانی کےلیئے نازل فرمایا گیا ہے،،،، وہ اپنی تیز رفتار گاڑیوں کے لیئے عمدہ ٹریک بناتے ہیں تاکہ ہر جگہ بلا روک ٹوک جاسکیں،،،، مجھے کوئی صاحب بتا سکتے ہیں کہ پاکستان کی کتنے فیصد آبادی ان خوبصورت سڑکوں، فلائی اوورز اور انڈر پاسز کو استعمال کرتی ہے؟
مگر بے روزگاری، ناخواندگی، بھوک اور طبی سہولیات کا فقدان تو 19 کروڑ پاکستانیوں کا مسئلہ ہے ،،، اس پر کتنا خرچ کیا جاتا ہے؟
اسکے باوجود بھی اگر کسی کی سمجھ میں ہماری ؛ غیر ترقیانہ ؛باتیں نہیں آتیں تو پھر یقیناً ہمیں کسی فلائی اوور کی منڈیر پر بیٹھ کر لاہور شہر کی خوبصورتی کا نظارہ کرنا چاہئیے،، اسکے اردگر آباد کچی بستیوں میں رینگنے والے کیڑے مکوڑوں کی بات کرکے اپنے سی ایم صاحب کی خدمات پر پانی پھیرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہئیے،
2 comments:
موضوع اچھا ہے، اور میں کافی حد تک آپ کے موقف کی تائید کرتا ہوں ۔۔ لیکن کیوں کہ میں، زمانہ طالبعلمی میں بس کے سفر سے لیکر اب گاڑی میں سفر کرنے والے کے طور پر میں یہ ہی کہہ سکتا ہوں ۔۔ کہ ایک ملک کی یا شہر کی ترقی میں انفراسٹرکچر کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے ،، جہاں تک آپ نے معیشت کی بات، تو سڑکیں اور پل بنانے کے لیئے مزدور بھی تو آپ کے میرے ملک کے باشندے ہیں میرے عزیز ۔۔
سید فیصل کریم صاحب،، ہمیں مزدور کی اہمیت کا اھساس ہے لیکن اسکے ہونے والے سلوک پر تحفطات ہیں، بلا شبہ انفرا سٹرکچر کی اہمیت سے انکار نہیں مگر ایک آدمی بھوک سے مررہا ہو تو اسے فلائی اوور یا انڈر پاسز دکھا کر اسکی بھوک نہیں مٹائی جاسکتی،
اصل مسئلہ ترجیھات کے تعین کا ہے، سب سے پہلے انسان کی بنیادی ضروریات آتی ہیں اور اسکے بعد خواہشات اور پھر تیسرے نمبر پر تعیشات کا دور آتا ہے،، امید ہے کہ میں اپنا نکتہء نطر درست انداز میں پیش کر چکا ہوں۔
ایک تبصرہ شائع کریں