بدھ، 18 ستمبر، 2013
جنگ عظیم اول کے بعد عثمانی سلطنت کے ٹکڑے کرنے کے بعد اسلامی دنیا کے دل میں یہودی ریاست کا قیام بجائے خود بہت بڑا فتنہ تھا جس کی شروعات امریکہ سمیت برطانیہ، روس اور جرمنی وغیرہ کی مشترکہ کاوشوں سے ممکن ہوسکی تھیں۔ امریکہ کی ہر حکومت نے ہمیشہ اسرائیلی عزائم کی تکمیل کیلئے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی۔ ایرانی انقلاب کو ناکام بنانے کیلئے ایران، عراق جنگ میں 10 لاکھ مسلمان لقمہ اجل بن گئے، امریکہ کی اسلحہ ساز فیکٹریوں نے تاریخی کاروبار کیا۔ بعد ازاں صدام کی حماقتوں کے ہاتھوں کویت سے عراقی قبضہ چھڑانے کیلئے سعودی حکمرانوں نے امریکی حکومت کو عراق پر حملے کی درخواست کی جس کے نتیجے میں پہلی بار بھاری تعداد میں امریکی فوجیں اور فوجی بحری بیڑے خلیج کے پانیوں پر آکر مسلط ہوگئے۔ چنانچہ گذشتہ تقریباً 20سالوں سے عرب ممالک جارح امریکی فوج کا خرچ بھی برداشت کررہے ہیں اور ان کا انسان کش اسلحہ بھی خرید رہے ہیں۔
امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ عربوں کی مخاصمت کم کرکے بڑی حکمت کے ساتھ اس عداوت اور دشمنی کا رخ ایران کی طرف موڑ دیا ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ عرب و عجم کے جس تعصب نے عثمانی سلطنت کو اندر سے کمزور کیا تھا آج ایک سو سال بعد مسلم بیداری کی نئی لہر کو خانہ جنگی میں بدلنے کیلئے پھر وہی عرب اور غیر عرب کے تعصب کو ابھارا جارہا ہے۔ عراق کی تباہی کے بعد لیبیا میں امریکی مداخلت کا واحد مقصد وہاں کی معدنی دولت پر قبضہ تھا۔ اب شام کے خلاف فوجی کاروائی کا اعلان اور آئے روز کی دھمکیاں اسی نیو ورلڈ آرڈر کا تسلسل ہے۔ اسی نوعیت کا ایک ٹیسٹ حزب اللہ کے ساتھ گذشتہ عشرے میں اسرائیل کی جنگ میں بھی کیا گیا جو بری طرح ناکام ہوا۔ اب اسی ڈھٹائی کیساتھ نہتے شام پر عالمی استعمار اپنے حواریوں سمیت حملے کی تیاریاں کررہا ہے۔ وقتی طور پر روس کے فعال کردار کے باعث یہ خطرہ ٹلا ہے مگر حملے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ جب تک اسرائیل مخالف بشار حکومت میں دم خم موجود ہے یہ خطرہ بھی باقی ہے۔
شام ایک غریب مسلمان ملک ہے اس کے پاس تیل کے ذخائر تو نہیں مگر اس وقت شام میں خانہ جنگی کا بدترین ماحول ہے۔ حکومتی فوجیں مزاحمت کار غیر ملکی دہشت گردوں کیخلاف لڑ رہی ہیں اور اس لڑائی میں ایک لاکھ شامی مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔ 25 لاکھ سے زائد عورتیں مرد بچے اور بوڑھے پڑوسی ممالک میں بے گھری کے عذاب سے گزر رہے ہیں۔ اتنا بڑا انسانی المیہ ان ظالم قوتوں کو نظر نہیں آرہا اور مصر میں ان کی حمایت یافتہ فوج میں جس قدر بے دردی سے رمضان المبارک میں 5000 نہتے شہریوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا اس پر بھی استعماری قوتیں اور انکے منافق مقامی مسلمان حکمران مجرمانہ کردار ادا کررہے ہیں۔
امریکہ پوری دنیا میں انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے مگر عراق کے بعد افغانستان، پاکستان، مصر اور شام میں اسکے ایماءپر ہزاروں انسانی المیے جنم لے رہے ہیں۔ وہ دنیا کے سامنے جمہوریت کا راگ الاپ رہا ہے مگر وہ خود اور اسکے حلیف عرب حکمران فوجی ڈکٹیٹروں کو جمہوری حکومتیں ختم کرنے کیلئے بھاری معاوضے بھی دے رہے ہیں۔ مصر میں قاتل فوج کی حوصلہ افزائی سب سے زیادہ سعوری عرب نے کی ہے اور اسے تمام عرب ممالک نے بھرپور مالی امداد سے نوازا ہے۔ تاکہ مصر جیسا ملک کبھی بھی فرعونی آمریت کے پنجوں سے آزاد نہ ہوسکے۔
حماس کی حمایت بھی عرب مسلمان ممالک نے صرف اس لئے نہیں کی کیونکہ وہ عوام کے انتخابات کے بعد فلسطین میں حکومت کے عہدوں پر فائز ہوئے تھے۔ ان حکمرانوں کو دراصل خطرہ یہ ہے کہ عرب ممالک میں اگر جمہوریت پختہ ہوگئی اور عوام کی منتخب حکومتیں خطے میں کامیابی کے ساتھ چل پڑیں تو ان کی اپنی بادشاہتیں ڈھیر ہوجائیں گی‘ اس لئے ”نہ رہے بانس نہ بجے بانسری“ کے مصداق جس نظام جمہوریت کے ہاتھوں انکی بادشاہتیں ختم ہوسکتی ہیں اس کی حتی المقدور مخالفت میں ہی ان کے اقتدار کی بقاءہے۔ ہوسِ اقتدار میں یہ مسلمان ممالک اس قدر آگے نکل رہے ہیں کہ انہوں نے امت مسلمہ کے اجتماعی وجود کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
بدقسمتی سے سعودی عرب کی موجودہ حکومت ان معاملات میں خاصی متحرک دکھائی دے رہی ہے۔افسوسناک حد تک عالمی استعمار کی ہر اسلام دشمن پالیسی اور مسلمان کش سرگرمی کی حمایت سعودی عرب کو دنیا بھر کے مسلمانوں کی نظروں میں متنازعہ بنارہی ہے۔ شام کے معاملے میں بھی پوری دنیا امریکی حملے کی مخالفت کررہی ہے مگر سعودی وزیر خارجہ حملوں پر اصرار کررہے ہےں۔
جان کیری نے علی الاعلان کہہ دیا ہے کہ ہمیں حملوں کیلئے عرب حکمران اخراجات کی پیشکش کرچکے ہیں۔ اس سارے دل خراش منظر نامے پر جو چیز گہری تشویش کا باعث ہے وہ عرب، ایران مخاصمت کی بڑھتی ہوئی شدت ہے جو آگے چل کر امت مسلمہ کیلئے مزید مشکلات پیدا کریگی۔دنیا اگر تیسری عالمی جنگ کی عالمگیر تباہ کاریوں سے بچنا چاہتی ہے اسے ان ہاتھوں کو روکنا ہوگا جو شام کی تباہ حال عوام کو خون میں نہلانے کیلئے پر تول رہے ہیں۔ عرب حکمرانوں کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ آج اگر عراق، لیبیا اور بشارالاسد امریکی جارحیت کا نشانہ بنتے ہیں تو کل انکی باری بھی آرہی ہے۔ ایسا نہ ہوکہ شام اور دیگر خلیجی ممالک میں مذہبی اعتقادات کی لڑائی ایران، عراق جنگ کی طرح باہمی خونی جنگ میں
تبدیل ہوجائے۔
ڈاکٹر علی اکبر الازہری
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں