دوسری جنگ عظیم کی تباہی و بربادی کا جائزہ لینے کے لئے جاپان کے شہر ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں انکے ساتھیوں کی ایک ٹیم تشکیل دی گئی . جنکا مقصد وہاں کچھ دن قیام کر کے ایٹم بم کی تباہی اور وہاں کی موجودہ صورت حال ، اب و ہوا کی آلودگی اور دیگر بہت سے عوامل کا جائزہ لینا تھا . ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ایک دن ہم سبھی ساتھی حسب معمول اپنے اپنے پراجیکٹ پر کام میں مصروف تھے. کہ ایک ادھیڑ عمر شخص ہمارے پاس آیا. اور کہا میں بہت دور سے یہ سن کر آ رہا ہوں کہ آپ سب ہمارے ہاں مہمان آئے ہیں. آپکا کا تعلق فزکس کے مضمون سے ہے اور ا علی پائے کے سائنسدان ہیں . میرے ذھن میں میرے بچپن ہی سے فزکس سے متعلق کچھ سوالات ہیں. جو اب تک اسی برس کی عمر پر پہنچ کر بھی حل نہیں ہو پائے .آپ سے سیکھنا چاہتا ہوں سمجھنا چاہتا ہوں اور اپنی تسکین کرنا چاہتا ہوں .
ہم سبھی اسکی اس عمر میں بھی اس لگن اور شوق پر بہت حیران تھے . پھر اس نے اپنے سوالات کا ایک پرچہ ہمارے سامنے رکھ دیا . دیر تک بحث کرتا اور ہم سے سمجھتا رہا اور پھر جوابات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوے کہا. کہ میں جانتا ہوں کہ آپ سبھی حیران ہو گے کہ میں اب اس عمر میں سیکھ کر کیا کرونگا ؟ لیکن یہ میں اپنے لئے نہیں بلکہ اس لئے سیکھنا چاہتا ہوں کہ اگر کہیں میرے پوتوں یا نواسوں میں سے کسی نے مجھ سے پوچھنا چاہا تو کہیں مجھ سے مناسب جواب نہ پا کر مایوس نہ ہو جائیں . میری عمر تو اب جیسے تیسے گزر ہی چکی ہے مگر میری یہ نسل میرے پاس میرے ملک اور قوم کی امانت ہے .اور میں اس میں کسی طور بھی خیانت نہیں کرنا چاہتا . ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ آج تک مجھے اس جاپانی بزرگ کی چہرے پر جھریاں مگر آنکھوں میں جوش اور ولولہ ایک پل کو نہیں بھولا .

0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں