ایب کے مار سالے

اتوار، 29 ستمبر، 2013


دیکھ کالئیے،،،،!
میں تنے بتا رئیا ہوں کہ میرے ساتھ پنگا مت کریو،
میرے گھر والے جانتے ہیں کہ میں کتنا غصے والا ہوں، سب مجھے ''ہتھ چھُٹ'' کہتے ہیں گھر میں۔
ارے چھوٹے بہن بھائی تو ایک طرف، اماں اور باوا کی مجال نہیں جو میری طرف میلی آنکھ سے دیکھ لیویں۔

میری عمر اس وقت صرف 6 سال کی تھی جب گلی میں کھیلنے کے لیئے نکلا تو کالئیے نے میرے بڑے بھائی کا گریبان پکڑ رکھا تھا اور بھائی اسے دھمکانے میں مصروف تھا۔

قرائن سے کچھ یوں دکھائی دیتا تھا کہ کالئیے کی شامت آگئی تھی جو اس نے بھیا کے ساتھ لفڑا کر لیا کیونکہ بھائی ہمارے گھر کا 'بدی ماش'' تھا، جسے چاہتا برا بھلا کہہ دیتا اور چھوٹے بہن بھائیوں کو روئی کی طرح دھنک دینا اسکا معمول تھا، پورے گھر میں بھائی کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی اور کسی کو بھی اسکے سامنے لب کشائی کی ہمت نہیں تھی،

اپنی اسی بدمعاشی کے بل پر گھر کے بیشتر وسائل اسی کے قبضے میں رہتے تھے اور وہ آتے جاتے اماں سے وہ بیسے بھی چھین لیا کرتا جو ابا ہنڈیا کے لیئے دیکر جایا کرتے تھے، اسکی بدمعاشی کی وجہ سے گھر میں پیسوں کی ہمیشہ تنگی ہی رہی، منی کےلیئے دودھ کے پیسے چھین لینا اور مجھ سے بڑے کی سکول فیس ہتھیا لینا بڑے بھیا کا معمول تھا،

اسکے علاوہ گھر کے امور خارجہ اور داخلہ پر بھی اسی کی گرفت تھی، کہ فلاں سے ملنا ہے اور فلاں سے بائیکاٹ کرنا ہے، ہم لوگ بھیا کی آمریت سے بڑے پریشان تھے مگر کر کچھ نہیں سکتے تھے چنانچہ پاکستانی عوام کی طرح خون کے گھونٹ پی کے رہ جاتے۔

جب بھیا کا پھڈا کالئیے کے ساتھ ہوا تو میں ایک دیوار کی آڑ سے اس لڑائی کا احوال دیکھ رہا تھا، اس وقت میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب بھائی کی دھمکی کے جواب میں دپلے پتلے کالئیے نے ایک زوردار تھپڑ بھیا کے منہ پر مارا ،

بھائی نے کہا، میں نے کہا بھی تھا کہ میرے ساتھ پنگا مت کیجئیو، مگر تم نے اپنے شامت کو آواز دے ہی ڈالی نا،،،،،
چل ایب کے مار ، پھر میں تنیں بتاتا ہوں کہ میرے ساتھ لفڑا کرنے کا کیا نتیجہ ہوتا ہے،

یہ سنتے ہی کالئیے نے ایک اور تھپڑ بھیا کے منہ پر جڑ دیا،
اب تو بھیا کی آنکھوں میں آنسو آگئے مگر بڑی بہادری کے ساتھ ہر تھپڑ پر یہی کہتے رہے کہ '' ایب کے مار سالے''
میں نے جب بھیا کی یہ درگت بنتے دیکھی تو ایک انجانی سی خوشی کا اھساس بھی ہوا اور ساتھ ہی خوفزدہ بھی ہوگیا کہ بھیا سے نپٹنے کے بعد اگر کالئیے نے مجھ پر مکے بازی شروع کردی تو کیا ہوگا؟

میں موقعہء واردات سے فرار ہو کے گھر آگیا۔ تھوڑی دیر کے بعد خیر سے بھیا بھی گھر واپس آئے تو میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ انکے چہرے پر زخم کیسے آئے؟
جس پر بھیا نے کہا،،،،،،،،،،،
ایک بدبخت کی شامت آئی تھی جو مجھ سے ٹکر لے بیٹھا،،،
میں نے بھی وہ چار چوٹ کی مار لگائی ہے کہ برسوں یاد رکھے گا۔

آج کل مذاکرات کا بڑا رولا شولا ہے مگر نہ جانے کیوں ہر بم دھماکے اور دہشت گردانہ کاروائی کے بعد مجھے اپنے بچپن کا یہ واقعہ یاد آجاتا ہے اور میں سوچنے لگتا ہوں کہ بڑے بھیا گھر والوں کےلیئے بدمعاش اور دشمن کے لیئے ملائی کیوں ثابت ہوئے؟


''کتے کی دُم''


ایک دوست کی پوسٹ دیکھی جو کچھ یوں تھی۔

مجھے وفا کی تلاش تھی
میں کتا خرید لایا

میرے یہ دوست انتہائ معقول انسان ہیں لیکن لگتا ہے کہ کسی انتہائی قریبی فرد نے انکے دل کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے جسکا انہیں رنج ہے،
اپنے اسی غصے کو انہوں نے فیس بک پر شئیر بھی کردیا جو کہ انکا ایک جذباتی اقدام کہا جا سکتا ہے۔ انکی پوسٹ نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ واقعی انسان زیادہ وفادار ہے یا کتا؟
تب غور کرنے پر جو کچھ معلوم ہوا وہ آپکے ساتھ شیئر کررہا ہوں۔

کبھی کسی انسان سے کتے والی وفاداری مت مانگو کیونکہ وہ غیر مشروط ہوتی ہے، جس میں ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہمیں ہماری ساری کی ساری کمینگیوں اور خباثتوں سمیت کسی کتے کی طرح ہمارے تلوے چاٹتے رہیں، اور ہمارے سامنے اپنی دم ہلاتے رہیں۔

مگر نہیں،،!

وفا اور وفاداری دو الگ چیزیں ہیں ہمارا با وفا دوست ہمیں ہماری خامیوں پر ڈانٹے گا، برا بھلا کہے کا، تھپڑ تک مار دے گا کیونکہ وہ ہمیں ایک اچھا انسان دیکھنا چاہتا ہے،جس کے ساتھ اٹھنے بیٹنے میں اسے فخر محسوس ہو نہ کہ کراہت آنے لگے،،،

مگر کتا؟

کتے کو اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ آپ کیا ہیں کیا کرتے ہیں اسکی سرشت میں ہی غیر مشروط وفاداری موجود ہے، بالکل اس طرح جیسے کسی روبوٹ کے دماغ میں پروگرامنگ کردی گئی ہو۔

کتے کے ساتھ رہتے ہوئے آہستہ آہستہ اسکے مالک کے اندر بھی جانوروں والی صفات پیدا ہونے لگتی ہیں۔ انسان اسکی سبھی عادات اپنا لیتا ہے جن میں اپنے ہی ہم جنسوں پر بھونکنا اور کاٹنا، وغیرہ شامل ہے مگر نہ جانے کیوں برسوں کتے کی ہم نشینی کے باوجود اسکی وہی عادت انسان آج تک نہیں اپنا سکا جسکے لیئے کتا مشہور ہے۔ یعنی غیر مشروط وفاداری۔

اس کے باوجود کتا بدنام ہے کہ اسکی دم بیس سال تک پائپ میں رکھیں مگر نکالنے پر ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہی
رہے گی۔

تیس سال بعد

ہفتہ، 28 ستمبر، 2013


17 سال پرانے اس کیس کا فیصلہ کرنے میں عدالت کو سترہ منٹ بھی نہیں لگے اور گیارہ سال پیشتر روبینہ قتل میں سزا یافتہ مجرموں جمیل چانڈیو اور قدیر ملانی کو عدالت نے باعزت بری کردیا۔ انکی زندگی کے 11 قیمتی سال جیل کی نظر ہونے پر ان کے ساتھ معذرت کرتے ہوئے کہا کہ کاش اس وقت ڈی این اے کو ایک شہادت کا درجہ دیا جاتا تو ان دو نوجوانوں کی زندگی کے سنہری سال سلاخوں کے پیچھے نہ گزرتے۔

جمیل اور قدیر کو ان کے ایک دوست کی شہادت پر سزا ہوئی جس نے انہیں روبینہ کے گھر میں جاتے دیکھا تھا، سترہ سال قبل ہونے والے اس جبری آبرو ریزی اور قتل کے واقعہ میں اور کوئی شہادت موجود نہیں تھی ورنہ شائید یہ دونوں موت کی سزا پاچکے ہوتے۔

یہ اس زمانے کی بات تھی جب وطنِ عزیز میں ڈی این اے کو بطور شہادت قبول نہیں کیا جاتا تھا مگر جب سن 2025 میں بننے والی انقلابی حکومت نے اسے اہم ترین شہادت کا درجہ دیا تو ایسے تمام کیسز کو بھی کھنگالا گیا جس میں سزائیں بھی ہوچکی تھیں۔ ایسا ہی ایک کیس روبینہ قتل کیس بھی تھا۔

جمیل چانڈیو کے والد صاحب ایک معروف عالم دین تھے جنہوں نے ڈی این اے ٹیسٹ کی خلاف بڑے زور و شور سے دلائل دئیے اور اسے پاکستانی قانون کا حصہ بننے سے روکنے میں انکا بھی بہت بڑا کردار تھا۔ بیٹے کے اس قسم کے مقدمے میں ملوث ہونے کے بعد انکی سماجی حیثیت بالکل صفر ہوکر رہ گئی اور پچھلے 11 سال کے عرصہ میں ایک زبردست قسم کی سماجی زندگی گزارنے والے مولانا کلیم اللہ چانڈیو محض گھر کی چار دیواری تک محدود ہو کر رہے گئے کیونکہ اب لوگوں کی تمسخرانہ نظروں کا سامنا کرنا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔

بیٹے کی باعزت واپسی کے باوجود کھو جانے والے 11 سال واپس کر دینا کسی کے بس کی بات نہیں تھی، اتنے عرصہ میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا، لوگ مولانا کلیم اللہ چانڈیو کو ایک بھولی بسری داستان کی طرح فراموش کرچکے تھے، انکا بیٹا جمیل چانڈیو 6 ماہ کے اندر ہی گھُل گھُل کر اس دنیا سے رخصت ہوگیا اور یوں اس بھرے پرے خاندان کو محض ایک جھوٹی گواہی کی بھینٹ چڑھ کر تباہی و بربادی کا نشانہ بننا پڑا۔

جب روبینہ کیس کے دوران ملنے والی رطوبات کے سیمپلز کو ٹیسٹ کرکے انکے حاصل شدہ رزلٹ کو نادرا کے کمپیوٹر سے لنک کیا گیا تو ایک ہی منٹ کے بعد مطلوبہ مجرم کی تصویر کمپیوٹر سکرین پر نمودار ہوگئی ۔
جی ہاں قارئین یہ وہی شخص تھا جسکی گواہی نے دو نوجوانوں کا مستقبل تاریک کردیا اور وہ خود اپنے علاقے سے ایم این اے منتخب ہوکر عوام الناس کی ''خدمت'' میں مصروف تھا۔

جمیل چانڈیو کا قصہ تو تمام ہوا لیکن قدیر ملانی کی زندگی نے ایک نیا موڑ لیا۔ آج کل اس نے ایک تنظیم بنا رکھی ہے جو بے گناہی کے جرم میں سزا پانے والوں کو انصاف دلانے کا کام کرتی ہے، اس مقصد کے لئیے اس نے وکلاء کے ایک پورے پینل کی خدمات حاصل کرکھی ہیں۔

فساد پلس چینل کے نمائندے کی حیثیت سے انٹرویو کرتے ہوئے جب میں نے قدیر ملانی سے جیل میں گزرے ہوئے لمحات کے بارے میں پوچھا تو اسکی آواز رندھ سی گئی اور وہ گلوگیر آواز میں کہنے لگا، میں ان تکلیف دہ لمحات کو وبارہ یاد نہیں کرنا چاہتا، بس اپنے عوام، حکمرانوں اور علماء کرام سے درخواست ہے کہ نئے زمانے کی روشنی اور ایجادات کسی خاص گروہ یا مذہب کی ملکیت نہیں بلکہ پوری انسانیت کی بھلائی کے لیئے ہوا کرتی ہیں،
اگر یہی ڈی این اے چند سال پہلے اہم شہادت کے طور پر قبول کرلیا جاتا تو 11 سال تک 2 بے گناہ افراد بھی سزا سے بچ جاتے اور اصلی مجرم بھی ایک لمبے عرصے تک آزاد نہ پھرتا۔ یہ کہہ کر وہ زور زور سے رونے لگا اور میرے پاس اسے تسلی دینے کے لیئے دو بول تک نہیں تھے۔

بارٹر سسٹم

بہت سے دوستوں نے ممکن ہے کہ بارٹر سسٹم کا نام نہ سنا ہو اس لئیے پہلے اسکی تشریح کرتا چلوں۔
زمانہء قدیم میں جب کرنسی یا سونے چاندی جیسی قیمتی دھاتوں کا استعمال وجود میں نہیں آیا تھا تب تجارت میں لین دین کے لیئے ایک طریقہء کار وضع کیا گیا تھا جس میں جنس کے بدلے جنس یا جانور اور غلام وغیرہ دوسرے فریق کے بطور رقم ادا کئیے جاتے تھے، اسے بارٹر سسٹم کہا جاتا ہے

آج کا دلچسپ واقعہ گو کہ بارٹر سسٹم کی مروجہ تشریح پر پورا نہیں اترتا مگر اس میں کچھ مماثلت ضرور پائی جاتی ہے۔ میں شائد پانچویں کلاس میں پڑھتا تھا جب ہمارے ایک دوست کو اس کے والد محترم نے 22 انچ کی بائیسکل لے کر دی اور اسے کہا کہ باہر گراؤنڈ میں جاکر اسے چلانے کی پریکٹس کرو میں تھوڑی دیر میں آکر تمہیں سائیکل چلانے میں بالکل طاق کردوں گا،

میرے دوست کے والد پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل تھے اور آنے جانے کے لئیے انہوں نے ایک عدد ویسپا رکھا ہوا تھا،
اس زمانے میں بائیسکل بھی کسی کسی کے ہاں ہوا کرتی تھی اس لیئے موٹر سائیکل اور ویسپا رکھنا اپر مڈل کلاس کی نشانی ہوا کرتا تھا، آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس دور میں پورے بہاولنگر شہر میں گنتی کے دو یا 4 ویسپا گھومتے دکھائی دیا کرتے تھے۔ موٹر سائیکل کا رواج تو لگتا ہے سرے سے مفقود تھا اور استطاعت رکھنے والوں کی پسندیدہ ترین سواری ویسپا ہی کہلاتی تھی۔

میرے دوست نے سائیکل پر سواری شروع کی اور ہم تمام لڑکے اسے دھکا لگا کر سائیکل چلانے کی تربیت دینے کی کوشش کرنے لگے، اتنے میں ایک اجنبی شخص وہاں آیا اور ہمیں پیچھے ہٹا کر اس لڑکے کو سائیکل سکھانے لگا۔

کچھ دیر کے بعد اس نے لڑکے کو نیچے اتارا اور کہا کہ دیکھو جس طرح میں پیڈل چلاؤں گا اسے غور سے دیکھنا تاکہ بعد میں تم بھی اسی طرح سائیکل چلانا۔ میدان کے دو تین چکر لگانے کے بعد موصوف نے اپنا رخ بدلا اور جنگل کی طرف سائیکل بھگا دی جو وہاں سے کوئی 2 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔

ہمارے شور مچانے پر وکیل صاحب اپنے ویسپے سمیت تشریف لائے اور اکیلے ہی چور کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے۔ کوئی نصف گھنٹے کے بعد انکی واپسی کچھ اس طرح ہوئی کہ وہ اپنے پسینے پسینے بھاری بھرکم وجود کو سائیکل پر لاد کر بڑی مشکل سے کھینچ کر لانے میں کامیاب ہوئے۔

جب دیگر تفصیلات کا پتہ چلا تو سب کا مارے ہنسی کے برا حال ہوگیا،
ہوا کچھ یوں کہ وکیل صاحب کو قریب پہنچتا دیکھ کر چور نے سائیکل سے چھلانگ لگائی اور پھرتی کے ساتھ ایک اونچے درخت پر چڑھ گیا اور وہاں دبک کر بیٹھ گیا،
وکیل صاحب نے اسے گرفتار کرنے کی غرض سے درخت پر چڑھنا شروع کیا اور جب چور سے تھوڑی دور رہ گئے تو چور نے اچانک ایک ٹہنی کو پکڑا، اس سے لٹک کر بندر کی طرح زمین پر چھلانگ لگائی اور وکیل صاحب کا ویسپا لے کر یہ جا وہ جا،،،،،،

''پینڈنگ''


اپنی محرومیوں، ناکامیوں اور حسرتوں کا ہار بنا کر انہیں اپنے گلے میں لٹکانے اور پھر قابلِ رحم سی شکل بنا کر خود کو دنیا کے سامنے پیش کرنے سے کیا ہوتا ہے؟

فقط چند لوگ اظہار تاسف کریں گے، کچھ ایسے بھی ہوں گے جو دل و جان سے آپکے مسائل حل کرنا چاہتے ہوں گے مگر انکے گلے میں موجود مالا میں موتیوں اور منکوں کی تعداد آپکے ہار سے بھی زیادہ ہوگی۔

چند لوگ ایسے بھی ضرور ہونگے جو آپکی کم ہمتی اور بزدلی کو آپکے مسائل کی اصل وجہ قرار دیں گے،
آپکو مظلوم سمجھنے کی بجائے ایک ملزم کی طرح کٹہرے میں کھڑا کردیں گے اور شائد یہی آپکے سچے اور کھرے دوست ہوں گے جو واقعی آپکی مدد کرنے میں سنجیدہ ہیں۔

دور حقیقت ہم نے مسائل کو روزانہ کی بنیاد پر حل کرنے کی بجائے انہیں زیر التوا رکھ کے اپنے سامنے مسائل کی فائلوں کا ایک انبار سا کھڑا کرلیا ہے جسے اگر روزانہ کی بنیاد پر مکمل کیا جاتا تو آج فائلوں کا یہ ماؤنٹ ایورسٹ وجود میں نہیں آتا۔
یہ پہاڑ گوادر میں نمودار ہونے والے جزیرے کی طرح راتوں رات کھڑا نہیں ہوگیا بلکہ خود ہماری سستی، کاہلی اور نکمے پن کی وجہ سے رفتہ رفتہ تعمیر ہوا۔

ہماری ذاتی ہی نہیں بلکہ قومی زندگی کا بھی یہی المیہ ہے،
ارباب اختیار نے کچھ کرنے کی بجائے ہر فائل پر ''پینڈنگ'' کا لفظ تحریر نہ کیا ہوتا تو آج یہ قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی۔

یہ بیویاں

جمعہ، 27 ستمبر، 2013


ایک کسان نے گھر میں داخل ہوتے ہی اپنی بیوی کو بتایا کہ آج جب وہ اپنے گدھے پر چارہ لاد کر گھر آرہا تو راستے میں گدھے،،،
اتنے میں چنو نے زور سے ہانک لگائی،،،،،
امی منو نے میرا جوتا پہن لیا ہے،

بیوی نے اپنے خاوند سے معذرت کی اور ان بچوں کا معاملہ سیٹل کروانے کے بعد دوبارہ اپنے شوہر کے پاس آبیٹھی اور بولی،
اب سناؤ کیا ہوا تھا،

کسان بولا کہ جب میں گدھے کو لیکر واپس گاؤں کی چلا تو،،،، ا
اتنے میں سب سے چھوٹی بیٹی چلانے لگی جو واکر سے گر کے ماتھے پر چوٹ کھا بیٹھی تھی اور اسکے ماتھے پر ایک گومڑ سا نمودار ہوچکا تھا جس طرح گوادر میں جزیرہ نمودار ہوا ہے۔

اسی طرح بے چارے کسان نے کئی مرتبہ اپنی بات مکمل کرنے کی کوشش کی مگر اسکی اپنی ہی ''مکتی باہنی'' نے اسے ناکام بنادیا۔

آخر کار کسان کی بیوی اپنے بچوں پر برس پڑی اور انہیں سختی سے ڈانٹتے ہوئے بولی،

کم بختو!

سکون کے ساتھ ''گدھے'' کی بات تو سن لینے دو،،،،!

دیوتا

جمعرات، 26 ستمبر، 2013

ورلڈ ہیلتھ آگنائزیشن کی طرف سے مجھے ایک ایسے علاقے میں سانپوں اور دیگر زہریلے کیڑے مکوڑوں پر ریسرچ کے لیئے بھیجا گیا جسکا ایک حصہ لق و دق صحرا پر مشتمل تھا تو ایک بڑے حصے پر دلدلی زمینیں میلوں تک پھیلی ہوئی تھیں، سروے کے دوران لوگوں سے ڈاکٹر امجد کے بارے میں معلوم ہوا جو آج کے دور میں ایک افسانوی سا کردار لگتا ہے۔

شہر سے سیکنڑوں میل دور اس ویرانے میں ایک ڈاکٹر کی موجودگی ہی بڑی عجیب بات تھی اور اس پر اس نے اس علاقے کے لوگوں میں زندگی بانٹی جہاں سرکار بھی نہیں تھی مگر ایک ڈاکٹر موجود تھا،وہ وہاں کے لوگوں کو ملیریا کے ٹیکے اور سانپوں کے کاٹے کے انجیکشن لگا کر بلاشبہ اب تک ہزاروں زندگیاں بچا چکا تھا، جہاں کوئی فیس نہیں تھی مگر صرف دعائیں تھیں اور یا پھر ڈاکٹر امجد جو پچھلے 35 سال سے لوگوں کے علاج میں مصروف تھا۔

اس نے اخباروں میں اپنی تصویریں نہیں چھپوائیں کوئی عام سا آپریشن کرکے ٹی وی چینلز کو انٹرویو نہیں دئیے، سرکار سے کوئی تمغہ نہیں لیا، پی آر کی فرموں سے جعلی نام و نمود حاصل کرکے اپنی شان میں اضافہ بھی نہیں کیا بلکہ ذلتوں اور غربت کے مارے لوگوں کے دکھ کم کرنے میں مسلسل مصروف رہا انکی ٹوٹتی سانسوں کو بحال کرکے واپس زندگی کی طرف کھینچ لیا، حکومتوں اور سماج کے ٹھیکیداروں کی نطر میں یہ کوئی کام تو نہیں تھا مگر وہ یہ کام کرتا رہا یہاں تک کہ آج اسکی عمر 75 برس کے قریب تھی اور وہ چالیس سال کی عمر میں یہاں آیا اور واپسی کا راستہ جیسے بھول ہی گیا۔ اپنی واپسی سے ایک شام پہلے میں ڈاکٹر امجد کے ساتھ چائے پی رہا تھا۔

اپنے کپ سے آخری چسکی لینے کے بعد میں نے سوال کیا کہ ڈاکٹر صاحب آپ یہاں کس طرح پہنچے؟ ڈاکٹر نے سگریٹ کے دھویں سے مرغولے بناتے ہوئے کہا کہ ''قسمت'' میرا ایک دوست تھا جو اس علاقے کا ڈپٹی کمشنر تھا اس نے مجھے اور میری فیملی کو اس جگہ مدعو کیا کہ شہر کی کثیف فضائوں سے دور کہیں ایک ہفتے کے لیئے اپنا آپ گم کرکے دیکھتے ہیں۔

وہ اس جگہ ہماری پہلی ہی رات تھی جب مجھے کسی کی زور زور سے جھگڑنے کی آوازیں آئیں اور میں اپنا گائون پہن کر باہر نکلا، وہاں ایک مرد اور عوت چوکیدار کی منت سماجت کررہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب کو جگاؤ لیکن وہ ہمارے آرام میں خلل دالنے پر آمادہ نہیں تھا،،، مجھے دیکھ کر اس شخص کی بیوی تیزی سے میری طرف آئی اور کہنے لگی،،، ڈاکٹر صاحب میرے تین بچے پہلے ہی اسی طرح مر گئے اب یہی ایک باقی بچا ہے،،، یہ کہہ کر زور زور سے رونے لگی۔

میں نے بچے کا بغور معائنہ کیا تو وہ سردی سے کپکپا رہا تھا اور اسکی سانس بھی تیز چل رہی تھی،،، واضع طور پر یہ ملیریا کا کیس تھا، میرے بیگ میں کوئی 20 کے قریب ملیریا کے انجیکشن موجود تھے جو میں احتیاطاً ساتھ لیکر آیا تھا،،،چنانچہ بچے کو فوری طور پر ایک انجیکشن لگایا اور ماتھے پر پانی کی پٹیاں رکھیں،، پھر میں نے اندر چل کر سونے کی دعوت دی لیکن ڈاک بنگلے کے برآمدے میں ہی انہوں نے باقی رات گزاری اور اگلے روز صحتمند بچے کو لیکر واپس چلے گئے۔

اس ایک ہفتے کے دوران مزید کئی ملیریا کے مریضوں کا علاج کیا یہاں تک کہ میری روانگی کا دن بھی آگیا، اب میں مزید رک بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ شہر میں میرے کئی ایکڑ پر پھیلے ہوئے جدید ترین ہسپتال کا افتتاح تھا اس لیئے جانا تو تھا، جس وقت ہمارا سامان گاڑی میں رکھا جارہا تھا تو اس علاقے کے سینکڑوں لوگ ہمارے چاروں طرف کھڑے ہوکر اشکبار آنکھوں سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔

اچانک ہجوم کو چیرتا ہوا کوئی میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا،،، اور اس نے کھجوروں سے بھری ایک بوری لاکر میرے قدموں میں رکھ دی،،اسکی بیوی اور بچہ بھی آنکھوں میں آنسو لیئے میرے سامنے آکر ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوگئے، میں نے زندگی میں بڑی بھاری بھرکم فیسیں بھی وصول کی ہیں مگر ایسی فیس زندگی میں کبھی نہیں ملی جس نے میرے اندر کی دنیا کو تہہ و بالا کردیا ہو۔

بس یہی وہ شائد کوئی جادوئی لمحہ تھا یا پھر اس چھوٹے سے بچے کی آنکھوں میں لرزتے ہوئے وہ آنسو؟ جس نے ایک پل میں ان صحرا والوں کے حق میں فیصلہ کردیا۔ میری بیوی اور تینوں بچے منتیں کرتے رہے مگر میں نے واپس جانے سے صاف انکار کردیا
پھر تھوڑی دیر کے بعد وہ روتے ہوئے گاڑی میں سوار ہوکر شہر کی طرف روانہ ہوگئے اور میں انکی گاڑی کی دھول اڑتی دیکھتا رہا،۔

Bancassurance

منگل، 24 ستمبر، 2013


آج تک میں آپکو ماضی کے قصے یا پھر رزمرہ واقعات پر مبنی کہانیاں سنایا کرتا تھا لیکن آج میں ایک ایسے ہوش ربا اور خوفناک اسکینڈل سے پردہ اٹھانے جا رہا ہوں جس کے ہولناک نتائج سے اس ملک کی معیشت ایک زبردست قسم کےدھچکے سے دوچار ہو سکتی ہے۔

ہماری قومی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پہلے کسی جرم یا حادثے کے وقوع پذیر ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے اور پھر اسکے بعد اس سارے ہنگامے میں شریک مجرموں کو بچانے کے عمل کا آغاز کردیا جاتا ہے کیونکہ اس قسم کے فراڈ میں بڑے بڑے لوگوں کے نام آتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس تحقیق کے نتیجے میں حکومت وقت پر ایکشن لے کر عوام کو لُٹنے سے بچا لے۔ اس قانونی ڈبل شاہ دھندے کا نام ہے بانکا اشورنس ہے جس کی وجہ سے بینکوں کا سرمایہ رفتہ رفتہ انشورنس کمپنیوں کی طرف منتقل ہو رہا ہے اور شائد اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی میٹھی نیند سو رہا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے انشورنس کمپنیوں نے مختلف قسم کے پیکیج متعارف کروائے تھے جن میں بچوں کی تعلیم، لڑکیوں کی شادیاں اور لائف انشورنس وغیرہ شامل ہیں۔ کچھ عرصہ تک تو ان کمپنیوں نے اپنے طور پر یہ کام شروع کیا لیکن انہیں خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی کیونکہ عام پاکستانیوں میں ابھی تک انشورنس کا وہ شعور ڈویلپ نہیں ہوسکا جو مغربی دنیا میں ہے۔ اسی لیئے انہوں نے بینکوں کے ساتھ مل کر اس منصوبے پر کام شروع کردیا ہے۔

مثال کے طور پر ایک صاحب نے 10 سال کی ایک پالیسی لی اور انہیں بتایا گیا کہ آپ ہر سال جتنی رقم ادا کریں گے اسے سٹاک ایکسچینج میں انویسٹ کیا جائے گا اور جب دس سال کے بعد آپکی پالیسی میچور ہوگی تو اس وقت ممکن ہے کہ آپکی انویسٹمنٹ سے دس گنا آپکو واپس مل جائے۔

یاد رہے کہ سٹاک مارکیٹ کا گورکھ دھندا عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہے، انہیں صرف لامتناعی منافع کی امید پر جال میں پھنسایا جاتا ہے جبکہ سٹاک مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کی بدولت یہ بھی ممکن ہے کہ دس سال کے بعد واپس ملنے والی رقم انکی انویسٹمنٹ سے بھی کم رہ جائے۔

جب بھی کوئی کلائنٹ کسی بینک کی معرفت انشورنس کمپنی کی پالیسی خریدتا ہے تو سب سے پہلے بینک 56٪ رقم اپنے کھاتے میں جمع کرلیتا ہے، اسکے علاوہ عملے کا جو بھی فرد گاہگ کو پھانس کر لاتا ہے اسے بھی نقد کی صورت میں ادائیگی کی جاتی ہے اور یوں بیچارے گاہک کی پہلی انسٹمنٹ اسکی ادا شدہ رقم کا صرف 30 سے 35٪ تک رہ جاتی ہے، اسی طرح بینک تین سال تک مختلف ریشو کے تحت گاہک کی انویسٹمنٹ میں سے حصہ وصول کرتا ہے جسکے بعد اس بیچارے کے منافع کا جو حال ہوگا وہ سب کے سامنے ہے۔

بینکوں کے عملے کے لیئے اس اسکیم کو مزید پر کشش بنانے کے لیئے انشورنس کمپنیاں عملے کو مختلف قسم کے مفادات سے بھی نوازتی ہیں جن میں غیر ملکی دورے تک شامل ہوتے ہیں، اس طریقے سے انشورنس کمپنیوں نے نہ صرف بینکوں بلکہ ان کے عملے کو بھی پوری طرح اپنے جال میں جکڑ رکھا ہے اور وہ مفادات کے لالچ میں اپنے کلائنٹ کو درست صورتحال بتانے کی زحمت نہیں کرتے۔

بینکوں کے عملے کا آسان ترین شکار قرضہ حاصل کرنے کے خواشمند حضرات ہوتے ہیں جو بڑی آسانی کے ساتھ ایک دو پالیسیاں خرید لیتے ہیں۔ اسکے بعد وہ لوگ آتے ہیں جو اپنے قرضوں کو ری شیڈول کروانا چاہتے ہیں اور سب سے آخر میں وہ ان پڑھ اور سادہ لوح افراد ہیں جنہوں نے مختلف بینکوں میں اپنی رقمیں ڈیپازٹ کرا رکھی ہیں انہیں سبز باغ دکھا کر لالچ دیا جاتا ہے اور آخر کار انکو بھی پالیسی فروخت کردی جاتی ہے۔

اس سارے کھیل میں بینکوں کو وقتی منافع مل جاتا ہے اور انکے عملے کو بھی عیاشیاں کروائی جاتی ہیں مگر کس کے پیسوں سے؟
اگر یہی رقم ان کھاتہ داروں کے منافع میں شامل کرری جاتی تو پالیسی ہولڈر کا فائدہ ہوتا اور اسکے ساتھ ہی بیکوں کے ڈیپاذٹ بھی کم ہوتے جارہے ہیں جو کہ بینکوں کے لیئے ایک بہت بڑا رسک بننے جا رہا ہے۔

بیکوں کی شمولیت کے بعد یہ ڈبل شاہ دھندا کئی گنا بڑھ چکا ہے اور اسکے مابعد اثرات اس وقت سامن
ے آئیں گے جب پالیسی ہولڈر کی پالیسی میچور ہوگی اور یا پھر کوئی پالیسی ہولڈر قبل از وقت اپنی پالیسی کو کیش کروائے گا۔ اس وقت شائد ان بیکوں کی عمارتوں کے سامے مظاہرے ہو رہے ہونگے اور بینک والے وضاحتیں کرتے پھریں گے کہ اس سارے کھیل میں بینک ذمہ دار نہیں ہے۔ لوگ متعلقہ انشورنس کمپنی سے رجوع کریں اور تب پاکستان کے کتنے پڑھے لکھے لوگ ہوں گے جو انکی بات سمجھ پائیں گے؟

ایک بینک کی طرف سے بانکا انشورنس کا ترغیبی پوسٹر ملاحظہ فرمائیں۔

MCB BANCASSURANCE

As dreams pass into the reality of action, from the actions stems the dream again. This interdependence constructs the highest form of living. Your dreams may be to give your children the best education, live a dignified life after retirement, or just keep your loved ones financially secure and protected. What everyone wants from life is a continuous and genuine happiness. Your action to plan for your future financially will stem your dreams. MCB Bancassurance has a financial plan that fits all your needs by fulfilling your and your loved ones dreams and keeping your ‘Har Pal Mehfooz.’

Combining the best of banking and financial solutions, MCB Bancassurance provides a one-stop shop solution for you by guaranteeing convenience and security with a wide range of products available for all your financial needs.

All our plans are specially designed by reputable insurance providers. These companies have excellent experience with insurance products and guarantee that your funds would be in good hands as there is a team of professional investment experts in each company working on making the funds grow higher in a secure manner.

Each plan is designed to give you a peace of mind because we know that in the end, it’s not the years in your life that counts. It’s the life in your years.








کاوہ لوہار

پیر، 23 ستمبر، 2013



رات کا پچھلا پہر تھا جب دروازے پر زوردار دستک ہوئی،،،

کون ہے؟۔۔۔۔
کاوہ لوہار نے دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا،، لیکن جواب دینے کی بجائے کوئی درجن بھر سپاہی اسے دھکا دیتے ہوئے گھر کے اندر داخل ہوئے اور اسکے دونوں نوجوان بیٹوں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈل دیں،،،،،

جناب انکا قصور کیا ہے؟
سپاہیوں کا سردار بولا،،
قصور تو کوئی نہیں لیکن تم خوش قسمت ہو کہ نمہیں ایک مرتبہ پھر ہمارے عادل اور رحم دل بادشاہ کی خدمت کا موقع ملنے والا ہے۔ یہ سنتے ہی کاوہ لوہار کی بیوی جو اس سے قبل چیخ و پکار کررہی تھی ایک دم زمین پر گر کے بے ہوش ہوگئی اور سپاہی انکے بیٹوں کے لے کر چلے گئے،،،،،،

یہ کوئی 600 سال قبل مسیح کا زمانہ تھا جب ایران پر ایک ظالم ،سفاک، عیاش اور بدکردار بادشاہ ضحاک بن علوان کی حکومت تھی جس نے بادشاہ جمشید کو قتل کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔اس بادشاہ کو کندھوں پر سرطانی پھوڑے تھے جن مین شدید درد اٹھا کرتا تھا، اس وقت کے طبیبوں نے اسکا علاج دریافت کیا، یہ ایک ایسی دوائی تھی جس میں ہر روز 2 انسانوں کا مغز استعمال ہوتا تھا اور اس دوائی کی پیسٹ بنا کر لگانے سے بادشاہ کے کندھوں کا درد ایک دن کےلیئے ٹھیک ہوجاتا۔

پہلے پہل تو سزائے موت کے مجرموں کا مغز استعمال مین لایا گیا، جب سزائے موت کے قیدی ختم ہوگئے تو عام جرائم مین ملوث قیدیوں کا قتل کرکے انکا مغز بادشاہ کی دوائی بنانے مین استعمال کیا جاتا،، جوں جوں وقت گذرتا رہا ، جیلوں سے قیدی بھی ختم ہوگئے اور پھر بے گناہ عوام کی باری آگئی، کاوہ لوہار کے 2 بیٹے پہلے بھی اسی ناکردہ جرم مین مارے گئے تھے اور آج ان دو بیٹوں کو بھی بادشاہ کے لوگ اٹھا کر لے گئے۔کاوہ لوہار جتنے بھی وزراء اور امراء کو جانتا تھا انکے پاس اپنے بیٹوں کی جان بخشی کی درخواست لیکر گیا لیکن کسی نے بھی اسکی ایک نہیں سنی،

یاد رہے کہ بادشاہ کی اس میڈیکل دہشتگردی کا نشانہ صرف پسا ہوا غریب اور مڈل کلاس طبقہ ہی ہوا کرتا تھا۔ امراء اور
رئوساء سے مایوس ہو کر کاوہ لوہار نے چمڑے کا پرچم تیار کیا اور بادشاہ کے خلاف اعلانِ بغاوت کردیا، وہ گلیوں اور بازارون مین بادشاہ کے مطالم کے خلاف تقریریں کرتا اور بادشاہ کے ستائے ہوئے لوگ اسکے ارد گرد اکٹھے ہونا شروع ہوگئے، جلد ہی سارا اصفہان اسکے ساتھ ہوگیا۔اس پرچم کے بارے مین عجیب و غریب کہانیاں مشہور ہوگئیں، اور اس پرچم کو خدا کی طرف سے فتح کا نشان سمجھا جانے لگا،، جب بادشاہ کی افواج کو پے درپے شکستین ہوئیں تو لوگوں کا ایمان اس جھنڈے پر اور بھی مضبوط ہو گیا۔

تاریخ میں اس پر اسرار جھنڈے کو ؛درفش کاویانی؛ کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ ضحاک کو شکست دینے کے بعد قتل کردیا گیا اور لوگوں نے کاوہ لوہار کو بادشاہی کی پیشکش کی لیکن اس نے انکار کردیا اور اسکے بعد تاریخ انسانی میں کاوہ لوہار کوئی ذکر نہیں ملتا۔

ایران مین اس جھنڈے کو ایس خاص حیثیت حاصل ہوگئی تھی ، اسے فتح کا نشان سمجھا جاتا تھا، جس میدان میں یہ جھنڈا لہرایا جاتا وہان ہر مخالف فوج پر دہشت طاری ہوجاتی اور اور وہ نفسیاتی طور پر ہی آدھی جنگ ہار چکی ہوتی۔ بعد میں آنے والے بادشاہوں نے اس پرچم پر ہیرے جواہرات مزین کروائے اور یہ جھنڈا کوئی 1100 سال تک ایرانیوں کی فتوحات اور عروج کی علامت بنا رہا۔

ایران کے آخری ساسانی بادشاہ یزدگرد کا زمانہ آیاتو اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے خلیفہ تھے ، انکے دور مین درفش کاویانی سرنگوں ہوا اور آپ کے پاس لایا گیا جس پر سے ہیرے جواہرات نکال کر مالِ غنیمت کے طور پر تقسیم کردئیے گئے اور اس پرچم کو جلا کر خاک کردیا۔۔اور فرمایا! سوائے اللہ کے کوئی چیز بھی یہ طاقت نہیں رکھتی کہ وہ کسی انسان کی مدد اور حمائت کرسکے؛ یوں اس مشہور زمانہ پرچم کے ظہور، عروج اور زوال کی داستان تمام ہوئی،لیکن انسانیت پر ظلم، بربریت اور درندگی کا دور آج بھی ختم نہیں ہوا،

آج بھی عوام پر ضحاک مسلط ہے۔

ہے کوئی کاوہ لوہار؟
یا پھر ہمارے مقدر مین ضحاک کی دوائی کا جزو بننا ہی لکھا ہے؟

ہیلپ لائن

اتوار، 22 ستمبر، 2013


بارش تھی کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لےرہی تھی یوں لگتا تھا کہ آج ابر کرم اس شہر پر مائل بہ ستم ہے، شہر کا سیوریج سسٹم اس بارش کا بوجھ سمبھالنے میں پوری طرح ناکام ہوچکا تھا اور گلی کوچے نہروں کامنظر پیش کررہے تھے۔ پورے کا پورا شہر متاثر ہونے کی وجہ سے کاروبار زندگی معطل ہوکر رہ گیا۔

اس وقت خالد کے پاس 6 عدد ایمرجنسی سکواڈ موجود تھے جنہیں مختلف علاقوں کی طرف روانہ کردیا گیا مگر بجلی کا سسٹم بھی اس بارش کی تاب نہ لاتے ہوئے بریک ڈاؤن ہوگیا تھا، فون پر دھرا دھڑ شکایات موصول ہو رہی تھیں، ڈیوٹی پر موجود آپریٹر کالیں سن سن کر نیم پاگل ہونے کو تھا، خالد بھی اس صورت حال سے خاصا پریشان تھا جس کی وجہ سےاس کا سر درد سے پھٹنے کے قریب ہوگیا تب اس نے اسے حکم دیا کہ تمام ٹیلی فونوں کے ریسیورز کو کریڈل سے اتار کر رکھ دیا جائے تاکہ کچھ تو سکون ہو،،،
اب ہم مزید بندے کہاں سے لائیں جو لوگوں کی بجلی کی سپلائی کو ٹھیک کریں؟

نجمہ انتہائی پریشانی کے عالم میں اپنے بچے کو اٹھائے بارش میں بھیگ رہی تھی مگر اس تند و تیز موسم میں کوئی سواری دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی تھی، ایسے میں ایک نوجوان نے اپنی انٹر کولر اسکے پاس روک کر مدد کی پیشکش کی جسے اس نے شکریہ کے ساتھ قبول کرلیا اور اس طرح وہ اپنے بچے کو لیکر چوہدری ہسپتال پہنچ گئی جہاں ڈاکٹروں نے فوری طور پر بچے کو آئی سی یو میں منتقل کرکے اسے ڈرپ لگا دی۔

اس روز خالد کا 7 سالہ بیٹا بخار کی وجہ سے اسکول نہیں جاسکا تھا اس لیئے اس نے بیٹے کی طبیعت معلوم کرنے کے لیئے ایک دو مرتبہ گھر فون کرنے کی کوشش کی مگر موبائل کے سگنل بھی بجلی کی سپلائی کی مسلسل بندش کی وجہ سے نہیں آرہے تھے، آفس ٹائم ختم ہونے کے بعد خالد نے اپنی دیو ہیکل سرکاری گاڑی نکالی اور سڑکوں پر کھڑے پانی میں سے گزرتا ہوا اپنے گھر پہنچ گیا لیکن مکان پر لگا تالہ اسکا منہہ چڑا رہا تھا۔

ہمسایوں نے بتایا کہ اسکی بیوی بیٹے کو چوہدری ہسپتال میں لیکر گئی ہے کیونکہ اسکی طبیعت زیادہ خراب تھی، خالد نے جلدی سے ہسپتال کا رخ کیا اور ریسیپشن سے اپنے بیٹے کے کمرے کا پوچھ کر اندر داخل ہوگیا، اسکے بیٹے کو ڈرپ لگی تھی اور اسکا چہرہ کمزوری کے باعث پیلا ہورہا تھا۔

خالد جاتے ہی بیوی پر برس پڑا،،،
نجمہ،،،! تم سے اتنا بھی نہیں ہوا کہ مجھے ایک فون ہی کر دیتی؟
اس نے روتے ہوئے جواب دیا کہ اس نے خالد کے موبائل کے علاوہ دفتر کے نمبروں پر کئی پرتبہ ٹرائی کیا مگر کوئی بھی فون نہیں لگا پھر وہ بیٹے کو لیکر بڑی مشکل سے ہسپتال پہنچی کیونکہ سڑکیں پانی میں ڈوب چکی تھیں اور کوئی رکشہ ٹیکسی بھی دستیاب نہیں تھے، اللہ کے ایک نیک بندے نے مصیبت میں دیکھ کر انہیں اپنی گاڑی میں ہسپتال پہنچایا۔

یہ سب کچھ سن کر خالد کا شرمندگی سے برا حال تھا، اس نے سوچا کہ پتہ نہیں ہمارے کال اٹینڈ نہ کرنے سے کتنے لوگوں کو ذہنی اذیت سے گزرنا پڑتا ہوگا اس لیئے اس نے دل ہی دل میں ایک فیصلہ کرلیا اور اگلے دن دفتر میں اعلان کردیا کہ آج کے بعد کبھی دفتر کے فون انگیج نہیں کئیے جائیں گے اور ہر فون کال اٹینڈ کی جائے گی۔

سارا عملہ حیرت سے اپنے آفیسر کا منہ دیکھنے لگا جو شائد پاگل ہوگیا تھا۔

سگریٹ پینے کے نقصانات


میں نے جیب سے کریون اے کی ڈبیہ سے سگریٹ نکالی اور خوبصورت نیوڈ عورت کے مجسمے والا لائٹر نکال کر اس کی مدد سے ایک سگریٹ سلگائی اور شانِ بے نیازی سے فضا میں دھویں کے مرغولے چھوڑنے لگا، میرے پیچھے 8 منزلہ خوبصورت سی عمارت اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ کھڑی تھی اور دائیں جانب نئی نویلی چم چم کرتی گرے کلر کی ایکس ایل آئی کار کو لوگ حسد اور تحسین کے ملے جلے جذبات کے ساتھ دیکھ کر گزرتے چلے جارہے تھے۔

سنئیے بھائی صاحب،،،!
میں ایک دم چونک گیا، میرے سامنے ایک نفیس قسم کے بزرگ کھڑے تھے، میں نے پوچھا فرمائیے؟
انہوں نے کہا کہ ویسے تو یہ آپکا ذاتی معاملہ ہے لیکن کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ آپ کب سے سگریٹ پی رہے ہیں؟
گزشتہ 20 سال سے، میں نے ادب سے جواب دیا۔

انہوں نے انگلیوں پر کچھ دیر حساب کتاب لگایا اور فرمانے لگے،
کیا آپ جانتے ہیں کہ 20 سال میں آپ نے جتنے سگریٹوں کو آگ دکھائی اور اپنی صحت کا بیڑہ غرق بھی کیا، اگر وہ رقم آپ بچاتے تو آج آپکے پیچھے کھڑی یہ 8 منزلہ عمارت اور یہ خوبصورت کار آپ کی ملکیت ہوتی؟

میں نے بصد احترام جواب دیا کہ حضور یہ بلڈنگ اور کار آج اتنے سگریٹ پھونکنے کے باجود اس خاکسار کی ہی ملکیت ہیں، یہ جواب سن کر وہ بزرگ کچھ شرمندہ سے ہوگئے اور معذرت کرکے آگے بڑھ گئے، میں انکی دلی کیفیات کا اندازہ کرکے مسکرانے لگا۔

چند منٹ کے بعد 9 نمبر روٹ کی بس میرے سامنے کھڑی ہوئی اور میں باقی ماندہ سگریٹ کو اپنے پیروں سے مسل کر جلدی سے اس میں سوار ہوگیا۔

کاروباری ذہانت

جمعہ، 20 ستمبر، 2013


میرا روزمرہ کا معمول تھا کہ صبح 9 بجے اپنی دکان کا شٹر اٹھا دیتا اور سب سے پہلے رات کا حفاظتی الارم آف کرنے کے بعد اپنی جیولری شاپ کے تمام سیکورٹی کیمرے آن کردیا کرتا۔

آپ تو جانتے ہیں کہ آج کل کراچی کے حالات کاروباری افراد کے لیئے سازگار نہیں ہیں لیکن پھر بھی روزی کمانے کے لیئے کوئی کام دھندہ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ یوں بھی جیولری کا کاروبار ہمارا جدی پشتی کام ہے اور جب پاکستان بنا تو اس زمانے میں میرے دادا دلی کے سب سے مشہور جیولر ہوا کرتے تھے۔ نقل مکانی کے بعد کراچی میں بھی انہوں نے خود اس کاروبار کو سیٹ کیا اور بہت جلد اپنی کاروباری ذہانت اور محنت و ایمانداری کی بدولت اپنی ساکھ قائم کرلی۔

یہ سب انہی کی محنت کا نتیجہ ہے کہ آج ایک حادثے میں انکی اور میرے والد کی وفات کے بعد مجھے بنا بنایا بزنس ملا اور مجھے نئے سرے سے سٹارٹ لینے کی زحمت نہیں کرنا پڑی۔ آج اللہ کے فضل و کرم سے ہمارے گاہگوں میں شہر کی بڑی بڑی کارباری شخصات کے علاوہ ملکی سطح کے نامور سیاستدان اور رئیس لوگ شامل ہیں۔ ہم بھی انکی ضروریات کا خاص خیال رکھتے ہیں اور جواب میں ہمیں ان سے خطیر منافع بھی حاصل ہوتا ہے۔

اس روز بھی ایک بڑی پارٹی کی ڈیمانڈ پر میں نے 6 ہیرے سنگاپور سے منگوائے جن میں سے ہر ایک مالیت کوئی ایک لاکھ ڈالر کے برابر تھی اس طرح پاکستانی کرنسی میں یہ 6 کروڑ روپے سے بھی زیادہ رقم بنتی تھی۔ اس لیئے میں نے رسک لینے کی بجائے ان ہیروں کی انشورینس بھی کروا رکھی تھی۔

میرے ملازمین کے آنے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا کہ ایک نوجوان جوڑا میری شاپ میں داخل ہوا اور کچھ قیمتی زیورات دکھانے کی فرمائش کی۔ میں نے انہیں مختلف زیورات دکھائے مگر لڑکی کو کوئی بھی پسند نہیں آیا۔ لڑکے نے کہا کہ یہ افروز ہے اور اگلے ہفتے ہماری منگنی کی تقریب ہے، آپ ہمیں کوئی ایسا نیکلس دکھائیں جن میں قیمتی ہیرے جڑے ہوں قیمت کی پرواہ مت کریں کیونکہ میں اپنی افروز کے ماتھے پر ایک شکن بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ آخر بابا سائیں کی چھوڑی ہوئی سینکڑوں ایکڑ زمین میری ہی تو ہے۔

میرے اندر بھی لالچ نے سر اٹھایا کہ موٹی آسامی ہے اسے مُونڈنے میں کوئی حرج نہیں چنانجہ انہیں قیمتی ہیروں ولا ڈبہ کھول کر ہیرے دکھانے لگا کہ پہلے آپ ہیرے پسند کرلیں اسکے بعد جو بھی نیکلس آپکو پسند آئے اس مین یہ ہیرے فٹ کردئیے جائیں گے۔ دراصل یہ ہیرے ایک پارٹی کو دکھانے تھے مگر آپ فکر نہ کریں ہم 3 دن کے اندر ایسے ہی دوسرے ہیرے منگوا کر آپکا آرڈر وقت پر پورا کردیں گے۔

ہیروں کا ڈبہ دیکھ کر لڑکی آنکھوں میں چمک آگئی لیکن لڑکے نے دھیمی آواز میں کہا کہ میرے پاس دستی بم ہے اس لیئے کسی مزاحمت کی ضرورت نہیں بس منہ پھیر کر کھڑے ہوجاؤ، میں نے ڈرتے ڈرتے دیوار کی طرف منہ کیا اس نے میرے سر پر کسی چیز سے وار کیا اور میری آنکھوں کے سامنے تارے سے ناچ گئے، پھر میں دنیا و مافیہا سے غافل ہوگیا۔

کوئی دس منٹ کے بعد ہوش و حواس بحال ہوئے تو پانی کا ایک گلاس پینے کے بعد پولیس سٹیشن فون کیا جو حسبِ روائت 3 گھنٹے کے بعد تشریف لائی اور اوٹ پٹانگ قسم کی تفتیش کرنے کے بعد سی سی کیمروں کی فوٹیج مانگی۔ محض اتفاق ہی تھا کہ اس وقت لائٹ گئی ہوئی تھی اس لیئے فوٹیج بھی نہیں مل سکی۔

ہماری پولیس کی مستعدی کی وجہ سے پوری امید ہے کہ میرا مجرم کبھی پکڑا نہیں جائے گا۔ اس طرح بہت سے لاینحل کیسز کی طرح ایک دن اس کیس کو بھی داخلِ دفتر کردیا جائے گا۔ ویسے بھی مجھے کوئی خاص پرواہ نہیں ہے کیونکہ میرے تمام ہیرے انشورڈ تھے اور اب میرا اس ملک میں رہنے کا قطعی کوئی ارادہ بھی نہیں، کیونکہ یہاں ''شرفاء'' قطعی طور پر غیر محفوظ ہوچکے ہیں۔ مجھے تو بس اب اپنی انشورنس کی رقم حاصل کرنا ہے جو ان چوری شدہ نقلی ہیروں کی بدولت مجھے ملنے والی ہے جنہیں میں نے بڑی مہارت سے تیار کروایا اور انکی مالیت بھی چند ہزار سے زیادہ ہرگز نہیں۔ انشورینس کے 6 کروڑ اور اپنا تمام اصلی مال لیکر دنیا کے کسی بھی ملک میں اپنا کاروبار سیٹ کرسکتاہوں۔
امید ہے کہ قارئین میری کاروباری سوجھ بوجھ سے کافی متاثر ہوئے ہوں گے۔




یہ منہ اور ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،!

جمعرات، 19 ستمبر، 2013





سیلاب زدہ علاقوں میں اشیائے ضرورت کے 2 ٹرک بانٹنے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ تو اُونٹ کے منہہ میں زیرے والی بات ہے، تباہی اور بربادی ہماری توقع سے کہیں زیادہ تھی اور وہاں کے لوگ ہر لمحہ زندگی سے دور اور موت سے قریب تر ہوتے جا رہے تھے۔

نہ حکومتی امداد وہاں تک پہنچ پا رہی تھی اور نہ ہی نام نہاد فلاحی تنظیمیں کچھ کرنے میں کامیاب تھیں، حد نظر تک سیلاب کا پانی تھا جس میں لوگوں کے گھر، جانور اور فصلیں ڈوب کر ختم ہوچکی تھیں،، ان لوگوں کےلیئے زندگی کا سفر از سرنو شروع کرنا ناممکن سی بات لگتی تھی۔

محلے کے نوجوانوں نے اپنے جیب خرچ سے چندہ ڈال کر امدادی کاموں کا آغاز تو کردیا تھا لیکن اس سے ہمیں ھوصلہ ملنے کی بجائے حد درجہ مایوسی ہوئی، خاص طور پر حکومت کا بے اعتنایانہ رویہ ہمارے لیئے ناقابلِ یقین تھا۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن پر بلند و بانگ دعوے کئیے جارہے تھے مگر عملی طور پر ہمیں وہاں کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دیا۔

اسی وجہ سے ہم سب نے ملکر فیصلہ کیا کہ واپس جاتے ہی محلے کے بزرگوں اور کاروباری حضرات کو متحرک کیا جائے اور ان سے چندہ لیکر لوگوں کی بحالی کا کام سٹارٹ کیا جائے۔ ہم جانتے تھے کہ ہم جیسے نوآموز نوجوانوں کے لیئے یہ ایک انتہائی مشکل کام ہے مگر کسی نہ کسی کو تو یہ کرنا ہی تھا۔ اسی لیئے ہم نے میدانِ عمل میں کودنے کا ارادہ کرلیا اور چندے کی مہم پر نکل کھڑے ہوئے۔

ہماری یہ مہم توقع کے مطابق تو نہ تھی مگر پھر بھی اسے حوصلہ افزا ضرور کہا جاسکتا ہے، ممکن ہے لوگوں کے خیال میں ہم جیسے لونڈے لپاڑے اعتماد کے قابل نہ ہوں۔ پھر ہماری کوئی باقاعدہ تنظیم تو تھی نہیں جس نے میڈیا کے زور پر خود کو ایک ''عظیم مخیر ادارے'' کے طور پر منوایا ہوا اور متعدد فوٹو سیشن کروانے کے بعد قابلِ اعتماد حیثیت بنا چکے ہوں۔

بہر حال ،،،،!
گھر گھر دستک دینے کے دوران حاجی فضل دین صاحب کا دروازہ دیکھ کر کچھ لڑکوں نے کہا کہ چھوڑو یار وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں،، یہ انتہائی کنجوس انسان ہیں جو جلی ہوئی روٹی سے چھلکا اتارنے کے بھی قائل نہیں، مگر میرے کہنے پر انکے در پر دستک دی گئی اور انکے سامنے مدعا بیان کیا گیا۔

حاجی فضل دین نے ایک نظر ہم سب پر ڈالی اور کہنے لگے کہ بوڑھی اور بیمار ماں کی دیکھ بھال اور اسکے دوا دارو کا خیال رکھنا نیکی نہیں ہے؟
ہم نے جواب دیا کہ بے شک یہ بڑی نیکی ہے،
وہ بھر بولے، کیا چھوٹے چھوٹے یتیم بہن بھائیوں پر دست شفقت رکھنا اور انکی ضروریات کا خیال رکھنا نیکی نہیں ہے؟

اب ہمارے شرمندہ ہونے کی باری تھی کہ ہم تو انہیں انتہائی کنجوس اور کمینہ انسان سمجھتے رہے اور یہ کتنے عظیم نکلے؟

حاجی صاحب نے اپنی بات جاری رکھی،،،،، میری ایک بیوہ چچیری بہن اور ایک معذور ماموں ہیں انکی ضروریات پورا کرنا نیکی نہیں ہے؟
بالکل حاجی صاحب اس میں کیا شک ہے؟

حاجی فضل دین نے ایک گہری سانس لی اور گویا ہوئے،

جب میں یہ سب کچھ نہیں کرتا تو تم کس منہہ سے چندہ لینے آگئے ہو؟

واپڈا ایملائز ٹاؤن



محسن رفیق (سرخ دائرے میں) دھرنے میں شامل مظاہرین کے ساتھ، خواتین کے علاوہ مردوں نے بھی اس دھرنے میں بھرپور حصہ لیا۔

اس دھرنے اور احتجاجی ریلی کے بعد واپڈا ٹاؤن سوسائٹی ممبران اخلاقی طور پر نااہل ہوگئے ہیں جو مظاہرین کا سامنا کرنے کی بجائے پچھلے دروازے سے فرار ہوگئے،، بعد ازاں 2 گھنٹے کے بعد پولیس کی معیت مین آئے مگر تب بھی انہیں سوسائٹی آفس سے باہر نکلنے کی ہمت نہ ہوسکی،

کافر یا مسلمان؟،،، میں کون ہوں آخر؟

بدھ، 18 ستمبر، 2013



میں ایک باپ ہوں اور معاملات کو ایک باپ کی نظر سے دیکھنا میری عادت بن چکا ہے، شائد اسی لیئے مجھے سب کے بچے اپنی ہی اولاد کی طرح عزیز ہیں، میرا دل کڑھتا ہے جب کسی کا باپ مارا جاتا ہے اور وہ اس دنیا میں بے آسرا اور بے سہارا ہوکر دنیا کی اس بھیڑ میں دھکے کھانے کے لیئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

ان میں سے کچھ تو باپ کا انتقام بن کر رہ جاتے ہیں تو زیادہ تر منشیات اور جسم فروشی تک کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا پھر ہوٹلوں اور دکانوں میں ''چھوٹے'' بن کر زمانے بھر کی ٹھوکروں میں آجاتے ہیں۔

زمانہ انکے ساتھ کیا سلوک روا رکھتا ہے اس کا حساب نہ تو کبھی ''اہلِ حق'' نے کرنے کی زحمت کی ہوگی اور نہ ہی ''اہلِ باطل'' نے، خود غرضی کے اس دور میں فرقہ وارانہ لڑائیوں میں جانیں دینے والوں کی فیملیوں کو میں نے خود رُلتے ہوئے دیکھا ہے، انہیں یوں فراموش کردیا جاتا ہے کہ جیسے یہ کبھی تھے ہی نہیں،،،

اچھے اچھے گھرانوں کی عورتوں کو دو وقت کی روٹی کے لیئے لوگوں کے گھروں میں صفائی کا کام کرتے بھی دیکھا گیا ہے اور عیاش لوگوں کی راتیں رنگین کرتے بھی، ایسی ہی لاتعداد داستانیں ہمارے معاشرے میں بکھری پڑی ہیں۔

دنیا کا 70٪ اسلحہ بنانے والے امریکہ کو اسے فروخت کرنے کی منڈیاں بھی تو درکار ہیں اور اسی لیئے وہ اسلامی ممالک میں شیعہ سنی جنگ شروع کروا چکا ہے، اب تو شائد ہی کوئی اسلامی ملک اس بے بچ پایا ہو، مگر کیا وجہ کہ یورپین اور امریکن تو اپنے ملکوں میں چین کی نیند سوتے ہیں اور ہمیں آپس میں لڑا دیا گیا ہے۔ عیسائیوں میں تو ہم سے بھی زیادہ فرقے موجود ہیں مگر وہ ایک دوسرے کے گلے کیوں نہیں کاٹتے؟

صرف اس لیئے کہ انہیں اللہ کی اس زمین پر رہنے کا ڈھنگ آگیا ہے جو بدقسمتی سے ہم نہیں سیکھ پائے۔

حرام اور حلال کا فلسفہ


ادریس فسادی کے فسادی ہونے میں مجھے تو کوئی شک نہیں کیونکہ ہر الٹے سیدھے کام کے لیئے مجھے ہی منتخب کرتا ہے۔ کل کی بات ہی سن لیجئے جب میں فساد پلس چینل کی طرف سے لیڈی ہیلتھ ورکرز کے مظاہرے کی کوریج کرکے تھکا ماندہ واپس آیا تو اس نے میرے ذمے علاقے کے ایک وڈیرے اور گدی نشین کے انٹرویو کا کام سونپ دیا جو ابھی حال ہی میں اسمبلی کا ممبر منتخب ہوا تھا۔ اس سے پہلے اسکا باپ اس سیٹ سے منتخب ہوتا رہا مگر اسکی وفات کے بعد گدی اور زمینداری اسی کے ہاتھ میں آگئی۔

پیرزادہ فخر عالم ایک روائتی قسم کا وڈیرہ تھا اس لیئے اس میں جاگیرداروں اور گدی نشینوں کی تمام عادات و اطوار موجود تھیں حالانکہ یہ انگلینڈ سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری بھی لے کر آیا تھا مگر وہاں کے انسان دوست ماحول نے بھی اس کی خونخوار فطرت پر کوئی مثبت اثر نہیں چھوڑا۔

اسکے بارے میں زبانی خبریں تو اکثر ملتی رہتی تھیں مگر کسی اخبار یا چینل نے کبھی اسکی ذات پر ''کیچڑ'' ملنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ ہر ماہ سب کو لفافے باقاعدگی سے مل جایا کرتے تھے۔ اسکے مشاغل بھی روائتی قسم کے تھے جن میں گھوڑے پالنا، خونخوار کتے اور ظالم و جابر قسم کے بدمعاشوں کی پرورش شامل تھی۔ اسکے علاقے میں کسی کی عزت محفوظ نہیں تھی، جسکی بہو بیٹی پر نظر پڑتی اسے اٹھوا لینا اسکے لیئے کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ حکم عدولی کرنے والوں پر خونخوار کتے چھوڑنا اور کمزوروں کی زمینوں پر قبضے کرنا عام سی بات تھی۔

اسی روز شام کے وقت میں اسکی اوطاق میں اسکے سامنے بیٹھا انٹرویو کرنے میں مصروف تھا کہ ایک درمیانی عمر کا دیہاتی فریاد کرتا ہوا اوطاق میں داخل ہوا، اور چوہدری فخر عالم کے قدموں میں گر کر گڑگڑانے لگا۔ چوہدری صاحب آپ کے کارندے میری ''مج'' (بھیینس) کھول کر لے آئے ہیں، میرے پاس ایک ہی مج ہے جسکا دودھ بیچ کر گزارہ کرتے ہیں۔ چوہدری بولا اوئے کھالے،،،! جھوٹ کیوں بولتا ہے؟
تیری مج تو ہماری زمینوں میں گھس کر ساری فصل کو برباد کررہی تھی۔
نہیں چوہدری صاحب یہ جھوٹ بول رہے ہیں میں نے کبھی مج کو اکیلے چھوڑا ہی نہیں،
چوہدری نے کہا بس بس زبان بند کر اور جاکر دس ہزار روپے جرمانہ لیکر آ اور اپنے مج لے جا،
سرکار میں غریب آدمی ہوں میرے پاس دس ہزار کہاں سے آئے؟
اچھا زیادہ بک بک مت کر اور اپنی بیٹی چھیمو کو کل سے ایک ہفتے کے لیئے حویلی میں کام کرنے کےلیئے بھیج دینا تمارا جرمانہ معاف ہوجائے گا۔ کھالا (خالد) بے چارہ روتا دھوتا وہاں سے رخصت ہوگیا۔

انٹرویو پھر سے شروع ہوگیا اور میں نے اگلا سوال کیا،،،
چوہدری صاحب آپکے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اسکے باوجود کبھی زندگی میں حرام بھی کھایا ہے؟

چوہدری بولا صرف ایک مرتبہ حرام کھانے کا اتفاق ہوا تھا۔ ہوا یوں کہ ایک دن میرا جگری یار چوہدری غلام محمد مجھ سے ملنے آیا تو ہمارے کمیوں نے چھیدے مراثی کی دو مرغیاں پکڑ کر ذبح کرلیں مگر بعد میں پتہ چلا کہ یہ مرغیاں پکڑنے کے دوران ہیں اللہ کو پیار ہوگئی تھیں۔
ہمارے باورچی نے ڈر کے مارے ہمیں بتایا ہی نہیں اور اس طرح زندگی میں ایک ہی مرتبہ حرام کھانے کا اتفاق ہوا۔ اس کمبخت باورچی کو تو میں نے اسی وقت کتوں کے آگے ڈال دیا تھا۔

میں نے پنڈ کے مولوی صاحب سے فتویٰ لے لیا تھا کہ اگر انجانے میں حرام کھالیا جائے تو کھانے والے پر اسکا کوئی گناہ نہیں اور یوں اللہ پاک نے مجھے اس ''گناہ'' سے محفوظ رکھا،،، اسکی ذات بڑی غفور الرحیم ہے سلیم صاحب۔

اور میں اسکا منہ دیکھتا رہ گیا کہ کتنی آسانی کے ساتھ اس نے حرام اور حلال کا فلسفہ حل کردیا۔

خلیج میں امریکی عزائم اور عرب حکمران


ماسکو کیخلاف 40 سالہ سرد جنگ کے خاتمے کے فوراً بعد امریکی صدر بش سینئر نے ”نئے عالمی نظام“ کے جو خدوخال وضع کئے۔ اس میں سب سے بڑا ہدف مڈل ایسٹ کے وہ مسلمان ممالک تھے جن کے پاس معدنی تیل کی بے پناہ دولت تھی۔ یہ ممالک تیل کی دولت کیساتھ ساتھ اسرائیل کیلئے بھی مستقل خطرہ تھے اور عرب اسرائیل جنگوں کے بعد یہودیوں کے خلاف پیشتر مسلمان ممالک کا موقف تقریباً دشمنانہ اور غیر لچکدار تھا۔ ان ممالک میں مصر، عراق، شام، لبنان اور ایران بطور خاص سرگرم تھے۔ امریکہ نے پہلے مرحلے میں ایران عراق کی جنگ بپا کروائی اور بچے کھچے ممالک کو حالیہ خانہ جنگی کی آگ میں دھکیل دیا۔

جنگ عظیم اول کے بعد عثمانی سلطنت کے ٹکڑے کرنے کے بعد اسلامی دنیا کے دل میں یہودی ریاست کا قیام بجائے خود بہت بڑا فتنہ تھا جس کی شروعات امریکہ سمیت برطانیہ، روس اور جرمنی وغیرہ کی مشترکہ کاوشوں سے ممکن ہوسکی تھیں۔ امریکہ کی ہر حکومت نے ہمیشہ اسرائیلی عزائم کی تکمیل کیلئے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی۔ ایرانی انقلاب کو ناکام بنانے کیلئے ایران، عراق جنگ میں 10 لاکھ مسلمان لقمہ اجل بن گئے، امریکہ کی اسلحہ ساز فیکٹریوں نے تاریخی کاروبار کیا۔ بعد ازاں صدام کی حماقتوں کے ہاتھوں کویت سے عراقی قبضہ چھڑانے کیلئے سعودی حکمرانوں نے امریکی حکومت کو عراق پر حملے کی درخواست کی جس کے نتیجے میں پہلی بار بھاری تعداد میں امریکی فوجیں اور فوجی بحری بیڑے خلیج کے پانیوں پر آکر مسلط ہوگئے۔ چنانچہ گذشتہ تقریباً 20سالوں سے عرب ممالک جارح امریکی فوج کا خرچ بھی برداشت کررہے ہیں اور ان کا انسان کش اسلحہ بھی خرید رہے ہیں۔

امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ عربوں کی مخاصمت کم کرکے بڑی حکمت کے ساتھ اس عداوت اور دشمنی کا رخ ایران کی طرف موڑ دیا ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ عرب و عجم کے جس تعصب نے عثمانی سلطنت کو اندر سے کمزور کیا تھا آج ایک سو سال بعد مسلم بیداری کی نئی لہر کو خانہ جنگی میں بدلنے کیلئے پھر وہی عرب اور غیر عرب کے تعصب کو ابھارا جارہا ہے۔ عراق کی تباہی کے بعد لیبیا میں امریکی مداخلت کا واحد مقصد وہاں کی معدنی دولت پر قبضہ تھا۔ اب شام کے خلاف فوجی کاروائی کا اعلان اور آئے روز کی دھمکیاں اسی نیو ورلڈ آرڈر کا تسلسل ہے۔ اسی نوعیت کا ایک ٹیسٹ حزب اللہ کے ساتھ گذشتہ عشرے میں اسرائیل کی جنگ میں بھی کیا گیا جو بری طرح ناکام ہوا۔ اب اسی ڈھٹائی کیساتھ نہتے شام پر عالمی استعمار اپنے حواریوں سمیت حملے کی تیاریاں کررہا ہے۔ وقتی طور پر روس کے فعال کردار کے باعث یہ خطرہ ٹلا ہے مگر حملے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ جب تک اسرائیل مخالف بشار حکومت میں دم خم موجود ہے یہ خطرہ بھی باقی ہے۔

شام ایک غریب مسلمان ملک ہے اس کے پاس تیل کے ذخائر تو نہیں مگر اس وقت شام میں خانہ جنگی کا بدترین ماحول ہے۔ حکومتی فوجیں مزاحمت کار غیر ملکی دہشت گردوں کیخلاف لڑ رہی ہیں اور اس لڑائی میں ایک لاکھ شامی مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔ 25 لاکھ سے زائد عورتیں مرد بچے اور بوڑھے پڑوسی ممالک میں بے گھری کے عذاب سے گزر رہے ہیں۔ اتنا بڑا انسانی المیہ ان ظالم قوتوں کو نظر نہیں آرہا اور مصر میں ان کی حمایت یافتہ فوج میں جس قدر بے دردی سے رمضان المبارک میں 5000 نہتے شہریوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا اس پر بھی استعماری قوتیں اور انکے منافق مقامی مسلمان حکمران مجرمانہ کردار ادا کررہے ہیں۔

امریکہ پوری دنیا میں انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے مگر عراق کے بعد افغانستان، پاکستان، مصر اور شام میں اسکے ایماءپر ہزاروں انسانی المیے جنم لے رہے ہیں۔ وہ دنیا کے سامنے جمہوریت کا راگ الاپ رہا ہے مگر وہ خود اور اسکے حلیف عرب حکمران فوجی ڈکٹیٹروں کو جمہوری حکومتیں ختم کرنے کیلئے بھاری معاوضے بھی دے رہے ہیں۔ مصر میں قاتل فوج کی حوصلہ افزائی سب سے زیادہ سعوری عرب نے کی ہے اور اسے تمام عرب ممالک نے بھرپور مالی امداد سے نوازا ہے۔ تاکہ مصر جیسا ملک کبھی بھی فرعونی آمریت کے پنجوں سے آزاد نہ ہوسکے۔

حماس کی حمایت بھی عرب مسلمان ممالک نے صرف اس لئے نہیں کی کیونکہ وہ عوام کے انتخابات کے بعد فلسطین میں حکومت کے عہدوں پر فائز ہوئے تھے۔ ان حکمرانوں کو دراصل خطرہ یہ ہے کہ عرب ممالک میں اگر جمہوریت پختہ ہوگئی اور عوام کی منتخب حکومتیں خطے میں کامیابی کے ساتھ چل پڑیں تو ان کی اپنی بادشاہتیں ڈھیر ہوجائیں گی‘ اس لئے ”نہ رہے بانس نہ بجے بانسری“ کے مصداق جس نظام جمہوریت کے ہاتھوں انکی بادشاہتیں ختم ہوسکتی ہیں اس کی حتی المقدور مخالفت میں ہی ان کے اقتدار کی بقاءہے۔ ہوسِ اقتدار میں یہ مسلمان ممالک اس قدر آگے نکل رہے ہیں کہ انہوں نے امت مسلمہ کے اجتماعی وجود کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔

بدقسمتی سے سعودی عرب کی موجودہ حکومت ان معاملات میں خاصی متحرک دکھائی دے رہی ہے۔افسوسناک حد تک عالمی استعمار کی ہر اسلام دشمن پالیسی اور مسلمان کش سرگرمی کی حمایت سعودی عرب کو دنیا بھر کے مسلمانوں کی نظروں میں متنازعہ بنارہی ہے۔ شام کے معاملے میں بھی پوری دنیا امریکی حملے کی مخالفت کررہی ہے مگر سعودی وزیر خارجہ حملوں پر اصرار کررہے ہےں۔

جان کیری نے علی الاعلان کہہ دیا ہے کہ ہمیں حملوں کیلئے عرب حکمران اخراجات کی پیشکش کرچکے ہیں۔ اس سارے دل خراش منظر نامے پر جو چیز گہری تشویش کا باعث ہے وہ عرب، ایران مخاصمت کی بڑھتی ہوئی شدت ہے جو آگے چل کر امت مسلمہ کیلئے مزید مشکلات پیدا کریگی۔دنیا اگر تیسری عالمی جنگ کی عالمگیر تباہ کاریوں سے بچنا چاہتی ہے اسے ان ہاتھوں کو روکنا ہوگا جو شام کی تباہ حال عوام کو خون میں نہلانے کیلئے پر تول رہے ہیں۔ عرب حکمرانوں کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ آج اگر عراق، لیبیا اور بشارالاسد امریکی جارحیت کا نشانہ بنتے ہیں تو کل انکی باری بھی آرہی ہے۔ ایسا نہ ہوکہ شام اور دیگر خلیجی ممالک میں مذہبی اعتقادات کی لڑائی ایران، عراق جنگ کی طرح باہمی خونی جنگ میں
تبدیل ہوجائے۔

ڈاکٹر علی اکبر الازہری

کم جوان دی موت اے

منگل، 17 ستمبر، 2013



میں نے جب ایف اے کے پیپرز دئیے تو فارغ بیٹھنے کی بجائے ایک ورکشاپ پر الیکٹرک ریپیئنگ کا کام سیکھنے لگا،
ایک دن استاد صاحب نے واقعہ سنایا کہ وہ کسی زمانے میں ایک فیکٹری میں کام کیا کرتے تھے وہاں ایک ورکر مالکوں کی نگاہ میں آگیا اور اسے پہلے مزدوروں کا سپر وائزر اور بعد ازاں پوری فیکٹری کا انچارج بنا دیا گیا،،،

میرے استاد نے ان سے اس ترقی کا گر سیکھنے کی کوشش کی تو اس نے کہا کہ زیادہ کام مت کیا کرو،،

استاد صاحب بڑے حیران ہوئے کہ یہ کیا بات ہوئی،،، کام نہ کرنے سے تو مالکان ناراض ہوسکتے ہیں ،،

تب انچارج نے استاد جی بتایا کہ ہماری فیکٹری کے مزدور کام تو کرتےہیں لیکن اپنے کپڑوں اور ہاتھوں کو میل کچیل اور سیاہی مائل گریس اور آئل وغیرہ سے بچا کر رکھتے ہیں۔ جبکہ میں کام تو کوئی خاص نہیں کرتا تھا مگر اپنے کپڑوں اور ہاتھ منہہ پر سیاہ گریس وغیرہ از خود لگا لیا کرتا، ایک ہاتھ میں رینچ اور دوسرے میں پلاس پکڑ کر ادھر ادھر گھومتا رہتا اور میری کوشش ہوتی کہ دن میں دو چار مرتبہ مالکان سے ضرور آمنا سامنا ہو جائے، اس طریقے پر عمل کرنے سے مالکان کے خیال میں سب سے محنتی اور ایمان دار ورکر میں ہی تھا اور باقی سب نکمے اور کام چور۔۔

یہ اسی میک اپ کا ہی نتیجہ ہے کہ محنت سے کام کرنے والے آج بھی مزدور ہیں اور میں انکا انچارج بن کر ان سے تین گنا زیادہ تنخواہ لے رہا ہوں اور مالک بھی مجھ سے بڑے خوش ہیں،،

آج میں اس قوم کی حالت دیکتا ہوں تو مجھے 35 سال پرانا یہ واقعہ یاد آجاتا ہے، ہمارے ہاں کے علماء، سیاستدان، سرکاری آفیسر اور نائب قاصد سے لیکر صدر پاکستان تک، سبھی ''لِپ سروس '' کے ماہرین دکھائی دیتے ہیں، عملی طور پر صفر مگر باتیں بڑی بڑی کرنے سے نہیں چوکتے۔

کاش ہم جتنا زور پھرتیاں دکھانے میں لگاتے ہیں اس سے نصف بھی عملی کام میں صرف کریں تو اس قوم کی معاشی حالت بہتر ہوسکتی ہے مگر،،،،
''اے بسا آرزو کہ خاک شدہ''

گوجرانوالہ کا روائتی ناشتہ (بکرے کے پائے)



اللہ کے فضل سے ہم بھی دیگر مشرقی شوہروں کی طرح اچھے خاصے سگھڑ واقع ہوئے ہیں اور جب ہم گھر پر ہوتے ہیں تو زیادہ تر وقت کچن میں بیگم صاحبہ کا ہاتھ بٹاتے پائے جاتے ہیں۔

شروع شروع میں ہمیں چپاتیاں بنانے مین خاصی مشکل پیش آیا کرتی تھی مگر اب ہم اتنے ماہر ہوچکے ہیں کہ اکیلے بھی سارا کچن سنبھال سکتے ہیں،، وہ الگ بات کہ ہماری بیگم صاحبہ ابھی تک ہماری صلاحیتوں کا اعتراف نہیں کرتیں،،، ان کے خیال کے مطابق ہم نہائت ہی کام چور واقع ہوئے ہیں اور اپنی اسی سستی اور کاہلی کی وجہ سے برتن بھی اچھی طرح نہیں دھو پاتے،،

بہرحال میں ان عورتوں کی باتوں پر زیادہ یقین نہیں رکھتا اور اپنی خودی کو ہمیشہ بلند رکھتاہوں،،،، یوں بھی بیویوں کو انکی ؛اوقات؛ میں رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے،زرا ڈھیل دو تو گویا سر پر سوار ہوجاتی ہین،،، یوں بھی ہم غصے کے کچھ زیادہ ہی تیز ہیں اس لیئے انکی عدم موجودگی میں انکو خوب کھری کھری سناتے ہیں،،

خیر چھوڑیں ان باتوں کو،،، آج رات میں گوجرانوالہ کا روائتی ناشتہ یعنی بکرے کے پائے تیار کرنے والا ہوں،،،جس نے پائے کھانے ہوں وہ کل ناشتے پر عبدالغنی پائے والے سے 6 عدد پائے خرید کر میرے غریب خانے پر تشریف لاسکتا ہے،،،
آپ کا بہت بہت شکریہ

سعودی شہزادے کا اڑن کھٹولہ



بھوک، ننگ اور افلاس کی ماری اس دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے پاس لامحدود وسائل ہیں مگر وہ انہیں دنیا کے مجبور اور مظلوم لوگوں کی بھلائی کےلیئے استعمال کرنے کی بجائے اپنے ذاتی مشاغل اور عیاشیوں میں اڑا دیتے ہیں،،
ذیل میں جناب شہزادہ الولید بن طلال کا آڑن کھٹولہ ملاحظہ فرمائیں۔

گدھا اور پاکستانی عوام



'ﺍﯾﮏ ﮔﺪﮬﮯ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺳﮯ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﮐﯽ ﮐﮧ ﯾﺎﺍﻟﻠﮧ ﻣﯿﺮﺍﻣﺎﻟﮏ ﺑﮩﺖ ﺳﺨﺖ ﮨﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﺑﮩﺖ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﯼ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﺑﮩﺖ ﮐﻢ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺭﺣﯿﻢ ﻭ ﮐﺮﯾﻢ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺎﻟﮏ ﺑﺪﻝ ﺩﮮ۔ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﻋﺎﮐﻮ ﺷﺮﻑِ ﻗﺒﻮﻟﯿﺖ ﺑﺨﺸﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﮐﻤﮩﺎﺭ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ
ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺳﺨﺖ ﺗﮭﺎ ﮔﺪﮬﮯ ﻧﮯ ﭼﻨﺪﺩﻥ ﺗﻮ ﮔﺰﺍﺭﺍﮐﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﺑﺎﺕ ﺍﺱﮐﯽ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﭘﮭﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﯾﻮﮞ ﮔﻮﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﯾﺎﺑﺎﺭﯼ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﯾﮧ ﻣﺎﻟﮏ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯﺑﮭﯽ ﺟﺎﺑﺮ ﮨﮯ ﺩﻥ ﺑﮭﺮ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﺑﺮﺗﻦ
ﮈﮬﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﭼﺎﺭﺍ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮈﺍﻟﺘﺎ ﯾﺎﺍﻟﻠﮧ ﺭﺣﻢ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﯿﺮﺍﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﺎﻟﮏ ﺑﺪﻝ ﺩﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﻗﺒﻮﻝ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﮔﺪﮬﺎ
ﮨﻨﺴﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﭼﻨﺪﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﺌﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺧﻮﺷﯽ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮐﺎﻓﻮﺭ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺟﺐ ﺍﺳﮯ ﭘﺘﮧ ﭼﻼ ﮐﮧ ﺍس کا ﻧﯿﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﻣﻮﭼﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﮯ ﻇﺎﻟﻢ ﮨﮯ، ﭘﮩﻠﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﻮ ﭼﻠﻮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﻣﻮﭼﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﺗﻮ ﻣﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﮭﺎﻝ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﮯ ﺟﻮﺗﯿﺎﮞ ﺑﻨﺎ ﮈﺍﻟﯿﮟ ﮔﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺏ ﮐﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﮑﻤﺖ ﻭ ﺭﺿﺎ ﮐﮯ ﺳﺮﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮﺍﺏ ﺩﻋﺎﮐﯽ ﺗﻮ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﻧﯿﺎﺁﻧﯿﻮﺍﻻﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﯿﺎﺳﻠﻮﮎ ﮐﺮﮮ
ﮔﺎ''ﮨﻤﺎﺭﯼ عوام کی ﻣﺜﺎﻝ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮔﺪﮬﮯ ﺟﯿﺴﯽ ﮨﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮨﺮ ﻧﺌﮯ ﺳﺮﺑﺮﺍﮦ ﻣﻤﻠﮑﺖ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﺴﯿﺤﺎ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﭘﮭﻮﻟﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺎﺗﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﻠﺪ ﮨﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﺻﻞ ﭼﮩﺮﮦ ﺍﻭﺭ گھناؤنے کرتوت
ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﺪﺩﻝ ﮨﻮﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﮨﺮﺁﻧﯿﻮﺍﻻ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺳﺘﻢ ﮔﺮ ثابت ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ...

'' جنسی گھٹن کا شکار معاشرہ''

پیر، 16 ستمبر، 2013


ایک اخباری رپورٹ کے مطابق سندر اور قصور میں اوباش افراد نے دو معصوم بچیوں جبکہ شاہدرہ ٹائون میں بچے کو زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ مانگا منڈی کے علاقے سندر میں تھانے سے متصل رانا مختار کے بھٹے پر کام کرنیوالے شوکت علی کی 5 سالہ بچی کو جو گھر کے باہر کھیل رہی تھی کہ ایک اور بھٹہ مزدور محمد طفیل کا 20 سالہ اوباش بیٹا بوٹا ورغلا کر کھیت میں لے گیا اور درندگی کا نشانہ بنایا۔ بچی کے شور مچانے پر دیہاتی اکٹھے ہوگئے اور ملزم کو چھترول کے بعد پولیس کے حوالے کردیا۔ بچی کو جناح ہسپتال لاہور داخل کرا دیا گیا، زیرحراست ملزم بوٹا نے بتایا کہ اس نے بچی سے زیادتی کی کوشش کی تھی مگر زیادتی نہیں کی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ حقائق میڈیکل رپورٹ سامنے آنے پر واضح ہونگے۔

شاہدرہ ٹائون میں اوباش شخص اسد ندیم علی کے 10سالہ بیٹے کو ورغلا کر اپنے گھر لے گیا اور زیادتی کا نشانہ بناکر فرار ہوگیا۔ پولیس اسکی تلاش میں چھاپے مار رہی ہے۔ ادھر ہربنس پورہ کے علاقے فتح گڑھ میں عبدالمنان کی 10سالہ بیٹی گلی میں کھیل رہی تھی کہ محلے دار رضوان نے اس سے زیادتی کی کوشش کی اور بچی کے شور مچانے پر اہل علاقہ کے جمع ہونے پر وہ فرار ہوگیا۔

قصور میں نامعلوم افراد نے محنت کش ارشاد کی 6سالہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد بے ہوشی کی حالت میں شہباز خان روڈ پر پھینک دیا۔ ایک راہگیر نے بچی کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال پہنچایا جہاں اسے طبی امداد دی جا رہی ہے، رات گئے بچی کی سرجری کیلئے مصطفی آباد سے لیڈی ڈاکٹر بلوائی گئی۔ متاثرہ بچی شہباز خان روڈ سے ملحقہ کچی آبادی کی رہائشی بتائی گئی ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے قصور میں 6 سالہ بچی سے زیادتی کا نوٹس لیتے ہوئے آر پی او سے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی۔ وزیراعلیٰ نے پولیس کو ملزموں کی فوری گرفتاری کا حکم دیا۔

گوجرانوالہ میں تھانہ دھلے کے علاقہ گلی فضل بٹ والی میں وسیم عباس نامی اوباش گلی میں کھیلتی ہوئی ہمسایہ کی تین سالہ بچی کو ورغلا کر اپنی حویلی میں لے گیا اور اسکے ساتھ مبینہ طور پر زیادتی کی کوشش کی مگر بچی کے شور مچانے پر اہل محلہ نے اکٹھے ہوکر اسے دبوچ لیا جبکہ مشتعل لوگوں نے اسے بری طرح زدوکوب کیا اور بعدازاں پولیس کے حوالے کر دیا۔

جنسی زیادتیوں کی بڑھتی ہوئی وبا کے پیشِ نظر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ہمارا معاشرہ شدید قسم کی جنسی گھٹن کا شکار ہے اور اسکی ذمہ داری بھی پورے معاشرے پر عائد ہوتی ہے، جدید ترین ذرائع ابلاغ نے کچے ذہنوں کو اس درجہ مسموم کردیا ہے کہ اب ان واقعات کی روک تھام کے لئیے سنجدیگی سے غور کرنا ہوگا، صرف سخت سزائیں ہی کافی نہیں ہونگی بلکہ اسکے ساتھ ساتھ معاشرے میں گند پھیلانے والے عوامل کو بھی مدِ نظر رکھنا ہوگا، خاص طور پر موبائل فون اور کمپیوٹر استعمال کرنے پر بھی عمر کی حد بندی ضروری ہوگئی ہے۔

ڈاکو کون؟



میں ایک عام آدمی ہوں۔ وہی عام آدمی جو دنیا کے اس سمندر میں ایک چھوٹی مچھلی کی طرح اپنی جان بچانے کے علاوہ زندہ رہنے کےلیئے ہاتھ پاؤں مارنے اور جدوجہد کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ وہ سمندر میں رہنے والی بڑی مچھلیوں کی خوراک بننے سے بچ بھی جائے تو ایک دن مچھیرے کے جال میں پھنس کر زندگی کی بازی ہار جاتا ہے اور اس طرح اس دنیا سے ایک کہانی کا اختتام ہوجاتا ہے۔

ٹھہرئیے ،،،،!
میں آپکو شروع سے بتاتا ہوں، ہمارے ٹی وی چینل نے جیل میں سزائے موت کے قیدیوں سے انٹرویو کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جنکے انٹرویوز ہمارے چینل فساد پلس سے چلائے جانے تھے، شیدے ٹی ٹی کے ساتھ اس سلسلے کا پہلا انٹرویو تھا، جس
نے اپنی بات نہائت ہی فلسفیانہ انداز میں شروع کی۔ میں نے اس سے سوال کیا کہ تم جرائم کی دنیا میں کیسے آئے؟

شیدا ٹی ٹی کچھ دیر تک فضا میں کچھ دیکھتا رہا اور اور پھر ایک ٹھنڈی سانس لیکر بولا، صاحب، میں کوئی پیدائشی مجرم نہیں ہوں، بلکہ کوئی بھی ماں کے پیٹ سے جرائم کا چارٹ لیکر پیدا نہیں ہوتا اسکے حالات اور ارد گرد کا ماحول اسے جرم کی دنیا میں دھکیل دیتے ہیں، میں بھی محنت مزدوری کرنے والا بندہ تھا جو سارا دن سائیکل پر رکھ کر گلیوں گلیوں بیڈ شیٹس اور دریاں فروخت کیا کرتا، میرے گاہکوں میں اچھے اچھے امیر ترین گھرانوں کی خواتین بھی شامل تھیں کیونکہ میں واجبی سا منافع لیکر زیادہ سیل کا قائل تھا اور میری اشیاء بازار کے مقابلے میں سستی ہونے کے علاوہ معیار میں بھی بہترین ہوا کرتی تھیں، یہی وجہ سے کہ میری مستقل گاہکوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا تھا اور یوں عزت سے گزارہ ہورہا تھا،

ایک دن گھر واپس آیا تو دیکھا کہ میری بیوی بری طرح کھانس رہی ہے، میں جلدی سے اسے محلے کے ڈاکٹر کے پاس لے گیا جس نے مجھے ایک اسپیشلسٹ کا پتہ دیا،، میں فکر مند ہوگیا اوراسے بڑے ڈاکٹر کے پاس لے گیا جس نے چند ٹیسٹ لکھ کر دے دئیے، جب لیبارٹری پہنچا تو پتہ چلا کہ یہ سب ٹیسٹ ملا کر کوئی 20 ہزار روپے میں ہوں گے اور میری جیب میں فقط چند سو روپے موجود تھے، میں نے اسی وقت سائیکل پکڑی اور مسز درانی کے پاس چلا گیا جو انتہائی خدا ترس خاتون تھیں، انہوں نے میری مجبوری سنی تو مجھے 5 ہزار روپے دے دئیے کہ بعد میں سودوں میں سے ایڈجسٹ کرلیں گی، اسی طرح میں نے بمشکل رقم جمع کرکے بیوی کے ٹیسٹ کروائے، ڈاکٹر صاحب نے حکم دیا کہ ایک اور لیبارٹری سے بھی یہی ٹیسٹ کروا لیئے جائیں تاکہ ہم درست ترین نتیجے پر پہنچ سکیں، یہ سن کر میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا کہ اب کیسے بندوبست کروں؟

بہر حال جیسے تیسے یہ منزل بھی سر کی مگر میں بری طرح مقروض ہوگیا، رپورٹس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ تمہاری بیوی کو کینسر ہے اس لیئے کم از کم 5/6 لاکھ روپے کا بندوبست کرلو تاکہ اسکا آپریشن کیا جاسکے،،،اور ہاں اس آپریشن میں دیر نہیں ہونی چاہئیے ورنہ آپریشن سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہونے والا، مجھے اور تو کچھ سجھائی نہیں دیا ایک سود خور کے پاس ابا کی آخری نشانی مکان کو گروی رکھ کر اس سے 5 لاکھ روپے قرض لیا اور آپریشن کروا لیا۔ بیوی تو ٹھیک ہوگئی مگر سود خور کا قرض اتنا ہوگیا کہ میرے لیئے ادائیگی ممکن نہ رہی اور آخر کار مکان اسے دیکر خود کرائے پر آگیا۔

میرے حالات بھی اب پہلے جیسے نہیں تھے مگر پھر بھی گزر بسر ہورہی تھی کہ ایک دن میری بیوی کو پھر وہی پرانی تکلیف ہوئی،،، اس مرتبہ میں اسے سرکاری ہسپتال میں لے گیا جہاں معمولی سے ٹیسٹ ہوئے، میں نے انہوں پرانی رپورٹس بھی دکھائیں جنہیں دیکھ کر ڈاکٹرز نے کہا کہ یہ تو پھیپھڑوں کی معمولی سی انفیکشن کا کیس ہے، جب میری بیوی کا تفصیلی معائنہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ اسکا ایک گردہ نکالا جاچکا ہے۔

وہ میرا شرافت کی زندگی کا آخری دن تھا صاحب، اور پھر پہلا ڈاکہ میں نے اسی ڈاکٹر کے ہاں ڈالا جس نے میری بیوی کا گردہ نکال کر کسی رئیس کے ہاتھ فروخت کیا تھا،،، وہ دن اور آج کا دن میں جرائم کی دلدل میں دھنستا چلا گیا اور آج آپکے سامنے بیٹھا ہوں،، یہ کہہ کر شیدا ٹی ٹی زار و قطار رونے لگا اور میں سوچنے لگا کہ قاتل اور ڈاکو شیدا ہے یا وہ ڈاکٹر جس نے اس کی زندگی کو جرائم کی راہ پر ڈال دیا،،، معزز قارئین مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہی ،،، کیا آپ اس سلسلہ میں میری مدد کریں گے؟

''سو دن حکومت کے ''


پچھلے تین مہینوں میں عوام پر اسقدر ظالمانہ انداز میں تابڑ توڑ معاشی حملے کئیے گئے ہیں کہ ماضی میں اسکی مثال نہیں ملتی، لوگوں نے نواز شریف کو ووٹ دیا تھا کہ وہ انکی حالت میں بہتری لانے کے اقدامات کرے گا، مگر وہ تو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی قسطیں اتارنے کےلیئے عوام کی کھالیں اتارنے کا دھندہ شروع کر بیٹھا ہے،، اور مستقبل قریب میں یہ سلسلہ رکتا دکھائی نہیں دیتا۔،،

ابھی عوام کو مزید نچوڑا جائے گا تاکہ عالمی اداروں کے اقساط ادا کی جائیں تو دوسری طرف روپے کی قیمت میں مسلسل کمی کی جارہی ہے اور ایسا صرف عالمی سود خود اداروں کی ایماء پر کیا جارہا ہے۔ ان سو دنوں میں حکمرانوں کا کردار محض ان اداروں کے ریکوری افسران کا سا رہا ہے۔

حال ہی میں بجلی کے بلوں میں ہوش ربا اضافے نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں اور ان سے آخری نوالہ تک چھین لینے کی کوشش کی جارہی ہے، سبزیاں، پھل اور دیگر اشیائے ضرورت عوام کی پہنچ سے باہر نکل چکی ہیں اور اس طرح پاکستان کی مڈل کلاس کو کان سے پکڑ کر غربت کی دلدل میں دھکیلا جارہا ہے۔ ملک کے عوام پر عرصہء حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ اس مرتبہ ہم ایک ایسے نواز شریف کو دیکھ رہے ہین جو کسی بوڑھے شیر کی طرح شکار کرنے سے معذور ہوچکا ہو اور اسکے بعد آدم خور بن جائے۔

اس پر مستزاد کہ حکومتی کارکردگی بھی ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے، نہ تو چیئرمین نیب کی تقرری کی جاسکی ہے اور نہ ہی اسمبلیوں میں قائمہ کمیٹیاں بنانے کا کام شروع ہوا ہے، اوپر سے طویل المیعاد انرجی منصوبے بھی گھٹائی میں پڑ چکے ہیں اور ان پر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں کی جاسکی۔

ایسے میں عوام یہ کہنے میں بالکل حق بہ جانب ہیں کہ حکومت کے 100 دن مکمل ناکامیوں کی ایک داستان تھے اور پاکستانی عوام کے لیئے ایک ڈروانا خواب، اپوزیشن بھی حکومت کے ساتھ ساز باز کرچکی ہے کیونکہ دھرنوں کے شوقین عمران خان بھی آج تک نہ تو اسمبلی میں جاکر حکومتی پالیسیوں کو بے نقاب کرنے کے فرائض انجام دے پائے اور نہ ہی کسی قسم کے احتجاج کی ہمت کی۔

سرمایہ دارانہ سسٹم میں رہ کر عوام کے ساتھ اس سےزیادہ نیکیاں کی ہی نہیں جاسکتیں جتنی ان سو دنوں میں کی گئیں۔ اب پاکستانی عوام کو سوچنا ہوگا کہ چند لوگوں کے مفادات کی آبیاری کرنے والے اس سسٹم کو مقدس گائے کی طرح پوجتے رہنا ہے یا پھر پرانے کمبل کی طرح اتار پھینکنا ہے۔

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کو جو ساتھ لے کر چلے

ایسے دستور کو، صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

مستقبل کے خواب



ابھی ہماری لانچ سمندر میں چند میل تک ہی گئی ہوگی کہ پاکستانی کوسٹ گارڈز نے اسے گھیر لیا اور پھر اسی شام ہم ایک کمرے میں انکے آفیسر کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے، آفیسر کوئی نرم طبیعت کا مہربان قسم کا انسان تھا جو بڑی رسان سے سب کے کوائف نوٹ کرتا جارہا تھا، ویسے بھی انہیں معلوم تھا کہ ہم مظلوم لوگ ہیں اور ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، ہم میں سے ہر کسی کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک دردناک کہانی تھی، کسی کے باپ نے اپنی کٹیا بیچ کر اپنے پیٹے کو بدیش بھیجنے کی کوشش کی تھی کیونکہ اسکی 4 بیٹیاں ہاتھ پیلے ہونے کے انتطار میں بوڑھی ہورہی تھیں تو کسی نے ماں کا زیور فروخت کرکے مستقبل کے خواب خریدنے کا سودا کیا تھا۔

جب میری باری آئی تو میں نے آفیسر سے کہا کہ بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ مجھ سے تنہائی میں ملیں، اس نے میری بات مان لی اور دوسرے کمرے میں لے گیا۔ جناب میں ایک صحافی ہوں اور میں انسانی سمگلروں کے بارے میں معلومات اکٹھی کررہا تھا کہ کس طرح یہ معصوم لوگوں کو پھانستے ہیں، بھاؤ تاؤ کیسے کیا جاتا ہے اور انکی شاخیں کہاں کہاں تک ہیں۔ میری ریسرچ ابھی ابتدائی مراحل میں تھی کہ آپکی وجہ سے میرا یہ قومی مشن ادھورا رہ گیا۔ اگر یہ لوگ پکڑے جاتے تو شائد بہت سے گھرانے لٹنے سے بچ جایا کرتے ۔ یہ کہہ کر میں نے اپنے چینل ''فساد پلس'' کا کارڈ اسکے سامنے رکھ دیا۔

آفیسر مسکرایا،،، یہ تو بڑا رسک لیا تم نے، جی ہاں سر مگر میں اتنا بھی غافل نہیں تھا اس بیچ میں میرے 2 ساتھی ''بابر '' اور ''ولید'' بھی میرے ساتھ تھے جنہیں میں اپنی مدد کے لیئے ساتھ لایا تھا، ٹھیک ہے میں تم تینوں کو چھوڑ رہا ہوں کیونکہ تم ایک زبردست ٹاسک پر کام کررہے ہو جو ایک لحاظ سے قومی خدمت بھی ہے، اپنے اس مشن کو ادھورا نہیں چھوڑنا، یہ میرا پرسنل فون نمبر ہے آئندہ جب اس کیس پر پیش رفت کا رادہ ہو تو مجھے بتا دینا تاکہ تمہاری لانچ کو نکلنے دیا جائے اور تم اس پورے ریکٹ کو بے نقاب کرسکو، یہ کہہ کر آفیسر نے میرے ساتھ الوداعی مصافحہ کیا۔ ا

گلے دن میں بابر اور ولید کے ساتھ چائے ہی رہا تھا کہ ولید بولا ، مان گئے استاد تم کس صفائی سے ہمیں نکال کر لے آئے۔ میں نے اسکے سر پر چپت جماتے ہوئے کہا، صفائی کے بچے، اب جلدی سے بیس 25 بندے پکڑو اور پانچ پانچ لاکھ میں معاملہ طے کرلو، ہم دو ہفتے کے بعد اگلے بیچ کو لے کر روانہ ہوں گے اور اس مرتبہ پکڑنے والے خود ہمیں راستہ دیں گے،، اور کمرا ہم تینوں کے قہقہوں سے گونج اٹھا۔

کراچی کا نوحہ



عروس البلاد کراچی جسے کبھی روشنیوں کا شہر کیا جاتا تھا آج بھتہ خوری، ٹاگٹ کلنگ اور منشیات کے اندھیروں میں غرقاب ہونے کو ہے، صاحبانِ اقتدار و اختیار سر جوڑ کر اسے ان بلاؤں سے نجات دلانے کے منصوبے بنا رہے ہیں، کوئی اس ہولناک تباہی کا ذمہ دار لسانی تنظیموں کو قرار دے رہا ہے تو کوئی قرفہ وارانہ جماعتوں کو، کسی کے خیال میں پولیس اور رینجرز اختیارات کا ناجائز استعمال کرتی ہے تو کوئی یہ نسخہء کیمیا نکال کر لاتا ہے کی پولیس میں ہزاروں کے حساب سے سیاسی بنیادوں پر بھتیاں ہی اس ہلاکت آفرینی کی اصل وجہ ہیں۔

یہ سارے بزرجمہر اور دانشور سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود جس وجہ پر لب کھولنے سے معذور ہیں وہ ہے بے روزگاری اور مہنگائی۔ انکی زبانیں اس لیئے گونگی ہوچکی ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ اسکے ذمہ دار وہ خود ہیں جنہیں دو دو تین
تین مرتبہ اقتدار میں آنے کے مواقع ملے مگر انہوں نے عوام کی زندگیوں کو آسان بنانے کی بجائے مزید مشکلات کا شکار کردیا۔

اس سے قبل بھی کراچی میں 2 مرتبہ آپریشن کیئے جاچکے ہیں جن کے بعد یہ دعوے کئیے گئے کہ اب کراچی کو تمام غلاظتوں سے پاک کردیا گیا ہے اور اب اس شہر کی رونقیں بہت جلد واپس لوٹ آئیں گی، مگر بدقسمتی سے کبھی ایسا ممکن نہ ہوسکا اور غلاظتوں کو صاف کرنے کی بجائے قالین کے نیچے چھپانے کی پالیسی پر عمل کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج کراچی پہلے سے بھی کہیں زیادہ مصائب اور الجھنوں کا شکار ہے۔

میرے خیال میں جب تک اس ملک میں معاشی اصلاحات نہیں آئیں گی اور بے روزگاری کا خاتمہ نہیں ہوگا تب تک بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کی مافیاؤں کو غربت اور بھوک کی نرسریوں سے خام مال مہیا ہوتا رہے گا اور کراچی کا امن محض خواب و خیال بن کر رہ جائے گا۔ بے روزگاری اور مہنگائی کا عفریت خود حکومتوں کا اپنا پیدا کردہ ہے اور ان مسائل پر سرمایہ دارانہ سسٹم میں رہ کر قابو پانا دیوانے کا خواب تو ہو سکتا ہے مگر حقیقت کی دنیا اس سے کوسوں دور ہے۔

جیمز بانڈ 007




میرا تعلق انٹیلی جنس کے شعبے سے ہے ، قارئین کرام جانتے ہونگے کہ ہمارے کام میں راز داری اور خود کو دنیا کے سامنے طاہر نہ کرنے کی کتنی اہمیت ہوا کرتی ہے،

ہمیں اکثر چائے خانوں، حجاموں کی دکانوں اور ہوٹلوں وغیرہ میں گھنٹوں بیٹھ کر ارد گرد کی سن گن لینا ہوتی ہے تاکہ اگر کچھ مشکوک قسم کے لوگ وطن عزیز کے خلاف کسی قسم کی منصوبہ بندی کرنے میں مصروف ہوں تو ہماری ایجنسی انکا پیچھا کرکے ان ہاتھ ڈال سکے۔

خاص طور پر نائین الیون کے واقعے کے بعد تو ہماری ذمہ داریوں میں اور بھی اضافہ ہوچکا ہے، دنیا پھر سے آئے ہوئے جرائم پیشہ افراد، دہشت گردوں اور غیر ملکی ایجنٹوں نے پاکستان کو نانی کا گھر سمجھ لیا ہے،، جسے دیکھو منہہ اٹھائے چلا آتا ہے۔

ایک دن مجھے اوپر والوں سے حکم ملا کہ کراچی کہ لاہور کے علاقے بادامی باغ میں بھولا نام کا ایک شخص رہتا ہے اس سے ملکر کچھ اہم معلومات حاصل کرو اور انہیں افسرانِ بالا تک پہنچا دو،

مجھے بھولا صاحب کے کوائف اور اتہ پتہ بھی نہیں بتایا گیا اور مجھے یہ حکم ملا کہ اسے خود ہی اپنے ذرائع سے تلاش کرنا ہے، چنانچہ میں مسٹر بھولا کی تلاش میں بادامی باغ کو کھنگالنے میں جُت گیا،، صبح سے لیکر شام ہونے کو آگئی مگر میرا مطلوبہ بندہ نہیں مل سکا۔

آخر کار میں نے ایک چائے خانے کا رخ کیا کہ شائد یہیں سے گوہر مقصود ہاتھ آجائے، ایک کپ چائے کا آرڈر دینے کے بعد میں نے چائے والے سے پوچھا کہ تم کسی بھولے نامی بندے کو جانتے ہو؟

اس نے کہا کہ جناب آپ پتہ نہیں کس بھولے کی بات کررہے ہیں،، ایک بھولا تو دوبئی گیا ہوا ہے، دوسرا کراچی میں جاب کرتا ہے،، ایک اور بھولا ہے جو کہ سائیں لوک (فاترالعقل) ایک بھولا ٹھیکیدار ہے جو اکثر اندرون سندھ کے دورے پر رہتا ہے،،

ویسے خود میرا نام بھی بھولا ہے،،،،

میں نے اسکے قریب جاکر آہستہ سے اپنا کوڈ ورڈ ادا کیا '' آج موسم بڑا خوشگوار ہے''

چائے والا مسکرایا اور کہنے لگا،،،

اچھا صاحب آپ بھولے جیمز بانڈ سے ملنا چاہتے ہیں نا؟
بس دو گلیاں چھوڑ کر دائیں مڑ جائیں نکڑ والا مکان اسی کا ہے۔

میں حیرت سے اسے دیکھتا رہ گیا اور ساری بات میری سمجھ میں آگئی کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارکردگی اس قدر ''شاندار'' کیوں ہے۔

سرمایہ داری کے ہتھکنڈے


سرمایہ دارانہ نظام کی قوت محرکہ منافع نہیں بلکہ شرح منافع ہے۔ شرح منافع میں اضافے کی ہوس کا کوئی انت نہیں ہے۔ اس پیاس کو جتنا بجھاؤ یہ اتنی زیادہ بھڑکتی ہے۔ تاہم شرح منافع میں لامحدود اور مستقل اضافہ ممکن نہیں ہے۔ خاص طور پر پیداواری شعبے میں ایک خاص شرح منافع سے آگے نہیں جایا جاسکتا۔ اس صورت میں اپنی دولت میں اضافہ جاری رکھنے کے لئے سٹہ بازی اور سٹاک ایکسچینج کے جوئے کا سہارا لیا جاتا ہے۔

یوں سرمائے کی پیداواری شعبے سے غیر پیداواری شعبے کی طرف حرکت کا سفر شروع ہوتا ہے، بیروزگاری بڑھتی ہے، قوت خرید کم ہوتی ہے اور خاص مقام پر پہنچ کر پوری معیشت دھڑام ہوجاتی ہے۔ 2008ء کا عالمی معاشی بحران امریکہ سے اسی طرح شروع ہوا تھا، جو اب یورپ کے بعد پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔

نظام کے بحران کی شدت کے پیش نظر حکمران طبقات سماج پر مسلط اپنی سیاست، ریاست، صحافت اور ثقافت کے ذریعے محنت کشوں پر وحشیانہ معاشی حملے کرتے ہیں۔ ان حالات میں نیچے سے بغاوت کے خطرے کے پیش عوام کو نان ایشوز میں الجھایا جاتا ہے، انہیں میڈیا پر چلنے والے مختلف کھیل تماشوں میں محو رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ قومی، نسلی اور فرقہ وارانہ تعصبات اور تنازعات ابھار کر محنت کشوں کی طبقاتی یکجہتی کو توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن حکمرانوں کے یہ بیہودہ ہتھکنڈے ہمیشہ کے لئے کارگر نہیں رہ سکتے۔

تاریخ گواہ ہے کہ ایسے وقت بھی آتے ہیں جب محنت کش، حکمرانوں کی سماجی زنجیروں کو توڑ کر تاریخ کے میدان عمل میں داخل ہوتے ہیں۔ ایسے لمحات اور حالات ہی کو انقلاب کہا جاتا ہے۔ لیکن انقلابات، تاریخ کے غیر معمولی ادوار ہوتے ہیں، اگر محنت کش کامیاب نہ ہوں تو پھر گہری پسپائی اور شکستوں کے عہد میں رد انقلاب کی شکل میں خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔

تحریر : ڈاکٹر لال خان

کنجر خانہ

اتوار، 15 ستمبر، 2013


ایک سردار جی برے دوستوں کی صحبت میں پڑ کے ہیرا منڈی جاپہنچے، وہاں کا طلسماتی ماحول اور لہراتی بل کھاتی کمر والی حسین و جمیل اور طرح دار طوائفوں کے چکر میں کچھ ایسے پھنسے کہ گھر کا راستہ
ہی بھول گئے، اسی چکر میں انکا بزنس بھی متاثر ہوا اور خانگی زندگی بھی عذاب بن کر رہ گئی،

سردارنی نے کچھ دن تو اس صورتحال کو برداشت کیا مگر کب تک؟
آخر ایک دن سردار صاحب کو گھیر ہی لیا اور اپنے ساتھ بٹھا کر پیار سے بولیں،، سردار جی ایمان سے بتائیں کہ وہ طوائفیں مجھ سے زیادہ خوبصورت ہیں؟

سردار جی نے بہ غور سردارنی کی طرف دیکھا اور بولے نہیں، تم ان سب سے زیادہ حسین ہو، مگر میں تو انکا ڈانس دیکھنے جاتا ہوں، بس تھوڑی سی دل پشوری ہو جاتی ہے، سردارنی نے کہا ، سردار جی میں نے بھی ایک ڈانس کلب میں ٹریننگ لے رکھی ہے، آج کی رات آپ کو میں اپنا ڈانس دکھاؤں گی، آپ مجھ پر نوٹ پھیک کر اپنی عادت بھی پوری کرلینا اور اس طرح گھر کا پیسہ بھی گھر میں رہے گا، اگر آپکو میرا ڈانس پسند نہ آئے تو پھر بے شک دوبارہ ہیرا منڈی چلے جانا میں تمہیں کبھی نہیں روکوں گی۔

اس رات سردار جی نے جب اپنی زوجہ کو ڈانس کرتے دیکھا تو ہیرا منڈی کی طوائفوں کو چھوڑ کر روزانہ گھر میں شغل فرمانا شروع کردیا جس سے انکی مالی حالت بھی بہتری کی طرف گامزن ہوگئی۔ ایک دن انکے سارے دوست اکٹھے ہوکر سردار جی کے پاس پہنچے اور شکوہ کیا کہ بھائی ہم سے کوئی خطا ہوگئی جو یوں بے رخی اختیار کرلی؟

تمہارے بنا پریوں کے دیس کی سیر کا مزہ نہیں آتا،، آج ہم سب تمہیں اپنے ساتھ لیکر جائیں گے۔ اس پر سردار جی نے معذرت کی کہ آئندہ وہ ہیرا منڈی نہیں جائیں گے، دوستوں کے اصرار پر بتایا کہ دراصل ہم نے اپنے گھر میں ہی ایک چھوٹا سا ''کنجر خانہ'' کھول لیا ہے۔

انصاف کا دھندہ

جمعرات، 12 ستمبر، 2013


آج سے قریباً 2600 برس قبل سولون نے طبقاتی سماج میں قانون کی اوقات بیان کرتے ہوئے کہا تھاکہ یہ مکڑی کے جالے کی مانند ہے، اس میں چھوٹے اور کمزور پھنس کے رہ جاتے ہیں، بڑے اور طاقتور اسے چیر پھاڑ کر نکل آتے ہیں۔ کل کی خبر کے مطابق شاہ زیب کے قاتلوں کو اس کے والدین نے معاف کر دیا ہے۔ ساتھ میں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ یہ معافی ''فی سبیل اللہ‘‘ دی گئی ہے۔ اب نیت کا حال تو ہم انسان نہیں جان سکتے لیکن ہم یہ بخوبی دیکھ رہے ہیں کہ یہ معافی جن لوگوں کو دی گئی ہے ان میں ایک جتوئی، ایک لاشاری اور دو تالپوُر خاندان کے سپوت تھے، جنہوں نے پہلے مقتول کی بہن کو چھیڑا تھا، مقتول کے منع کرنے پر لڑائی ہوئی جس کے بعد ان چاروں نے شاہ زیب کا قتل کیا اور باآسانی ملک سے فرار ہو گئے۔ ہم نے دیکھا کہ اس قتل کے خلاف پورے ملک میں تحریک چلی، جس پر اعلیٰ عدالتوں نے نوٹس لے کر ان با اثر ملزموں کو گرفتار کروایا، اور بعد ازاں جرم ثابت ہونے پر انہیں موت اور عمر قید کی سزائیں سنا دی گئیں۔ اب ان بڑے لوگوں کے بیٹوں کو مقتول کے لواحقین نے معاف کر دیا ہے۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا۔ اس سے پہلے ریمنڈ ڈیوس کیس اور سرفراز قتل کیس میں ہم ''معافی‘‘ اور ''مک مکا‘‘ کا یہ طریقہ کار دیکھ چکے ہیں۔ یہ اس ملک کے عدالتی نظام کامعمول ہے کہ گواہ خرید لئے جاتے ہیں، مار دیے جاتے ہیں یا پھر دھمکا دیے جاتے ہیں۔ عدالت نے تو پوچھنا ہوتا ہے کہ گواہ یا وارث اپنی مرضی سے یہ بیان دے رہا ہے کہ نہیں۔ عدالت کے پاس ججمنٹ کرنے کا ایسا کوئی آلہ نہیں جس سے اکراہ اور جبر کا پتہ چلایا جا سکے۔ داس کیپیٹل کی پہلی سطرکے مطابق سرمایہ دار معاشروں میں دولت ناپنے کی اکائی ''شئے‘‘ یعنی کموڈیٹی ہے۔ اور سرمایہ دارانہ معاشروں میں یہ انباروں کی صورت میں پڑی ہیں۔ یعنی دولت ناپنے کے لئے ہم'' اشیائے صرف‘‘ کو دیکھتے ہیں، روپے پیسے کو نہیں۔ پہلے پہل انسان کے لئے سب سے بڑی دولت اس کے جانور ہی ہوتے تھے۔ (ہم اس بات کو ایسے بھی دیکھ سکتے ہیں کہ لاطینی زبان میں ''پِیکَس‘‘ کا لفظ جانور اور پیسے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اطالوی 'پِیسو‘‘ اور ہمارا پیسہ بھی اسی سے ماخوذ ہے۔ اور ہم اپنے جانوروں کو پنجابی میں''پشّو‘‘ کہتے ہیں۔ ویسے ہماری پنجابی میں مال کا لفظ بھی پیسے اور جانور دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے) چنانچہ قدیم زمانے میں'' دیّت‘‘ کی رقم سو اُونٹوں کے برابر مقرر تھی۔ تکنیکی طور پر پسماندہ انتہائی قلت کے اس قدیم سماج میں یہ کتنی خطیر رقم ہو گی اس کا اندازہ آج بھی اونٹوں کی قیمت لگایا جاسکتا ہے۔ تاہم آج کے اس سرمایہ دار انہ معاشرے میں جہاں ایک گھڑی کی قیمت ایسے پانچ سے دس ہزار اونٹوں کے برابر ہے، اس رقم کا ادا کرنا کسی سرمایہ دار کے لئے چنداں مشکل نہیں ہے۔ یوں آج اپنے بازو پر دس بارہ ہزار اونٹوں سے زیادہ قیمتی گھڑی باندھ کر پھرنے والوں کے لئے ''قصاص‘‘ وغیرہ ادا کر کے قتل معاف کروا لینا کوئی مشکل نہیں ہے۔ اگر اسی چیز کو گائے، بھینسوں سے ناپا جائے تو بھی مختلف قسم کے جواب مل جائیں گے۔ مثلاً ایک چھیالیس کروڑ کی گھڑی کا مطلب ہے کہ آپ اپنے گھرمیں تین، تین لاکھ کی پندرہ سو بھینسیں یا پانچ، پانچ ہزار کے بانوے ہزار چھترے باندھ سکتے ہیں! ویسے بھی دولت مند اکثر دولت کو رشتے داروں پر ترجیح دیتے ہیں۔ حال میں ہم نے منظر عام پر آنے والے بڑے کیسوں میں دیکھا ہے کہ چند بڑے لوگوں نے اپنی اور اپنی اولاد کی زندگیاں داؤ پر لگادی ہیں مگر تاوان وغیرہ کی رقم نہیں دی۔ چنانچہ اس نظام میں ایک قتل کر کے دو چار لاکھ خرچ کر کے بری ہو جانا کوئی اتنا مشکل نہیں ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے اسلامک سٹڈیز کے صدر شعبہ ڈاکٹر شکیل نے کہا ہے کہ اس قانون کا اطلاق قتلِ خطا میں ہو سکتا ہے قتلِ عمد میں نہیں۔ (قتلِ عمد میں قاتل نے پہلے نمبر پر تیاری کی ہوتی ہے کہ وہ قتل کرے گا، دوسرے نمبر پر اس کی نیت، یعنی نیت مجرمانہ ہوتی ہے، تیسرے نمبر پر اس کا کوئی محرک ہوتا ہے اور چوتھے نمبر پر آلہ قتل بتاتا ہے کہ یہ ایکسیڈنٹ نہیں بلکہ قتلِ عمد ہے) وہ کہتے ہیں کہ قتلِ عمد میں تو لازمی ہے کہ مجرم کو سزا ملے، اور وہ بھی سزائے موت۔ ہاں اگر ایکسیڈنٹ ہو گیا ہو تو دیّت سے معاملہ حل ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی قصاص دیّت آرڈیننس میں حد کے علاوہ تعزیر کا بھی ذکر موجود ہے، یعنی ورثاء کی طرف سے سزائے موت کی معافی ہونے کے باوجود عدالت سزائے قید و جرمانہ دے سکتی ہے۔ تاہم قانون بظاہر کتنا ہی دلکش اور منصفانہ کیوں نہ ہو اس کی تشریح ہمیشہ طاقتور فریق کے حق میں کی جاتی ہے۔ ویسے اس کیس میں ''خدا ترسی‘‘ کی کوئی بات نہیں ہوئی۔ قاتلوں کو کسی اور وجہ سے معاف کر دیا گیا ہے۔ کہا جا رہا تھا کہ لواحقین پر ''پریشر‘‘ بڑا تھا۔ آج سے چھ ماہ پہلے اسی ''پریشر‘‘ نے کراچی میں سرفراز کے قاتلوں کو، جنہیں عدالت نے سزائے موت دی تھی، بری کروا دیا تھا۔ ایک خبر یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ کسی دینی شخصیت نے خاص طور پر بیچ میں پَڑ کے ان وڈیروں یعنی جتوئی، لاشاری اور تالپوروں کو معافی دلوائی ہے۔ یہ کوئی پیچیدہ یا نہ سمجھ آنے والی بات نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور اس کا حل کیا ہے؟ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس کاحل سرمائے اور ذاتی ملکیت پر مبنی اس نظام کے خاتمے کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ سرمایہ دارانہ سماج میں حتمی طاقت کا ماخذ سرمایہ ہوتا ہے اور ہر چیز کی طرح ''انصاف‘‘ بھی بکاؤ ہے جس کی منڈی میں بولی لگتی ہے۔ آپ کتنے ہی سخت قوانین بنا لیں، دولت مند اپنا راستہ نکال لیں گے اور غریب ان قوانین کی سختیوں میں پس جائیں گے۔ اس طبقاتی سماج میں یہی ہو گااور ہورہا ہے۔ سماجی برابری کے بغیر انصاف بھی ادھورا اور لاغر رہتا ہے۔ سماجی برابری اس وقت تک ممکن نہیں جب تک معاشی برابری نہ ہو۔ سرمایہ داری میں معاشی برابری ممکن نہیں ہے، بلکہ معاشی اونچ نیچ ہی اس نظام کی قوت محرکہ ہے۔ یہاں انصاف کے سودے ہر روز سر عام ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ پریشر سے، دھمکیوں سے، گواہ خرید کے، گواہ مروا کے، مدعی کو مروا کے، سودا کر کے، اچھے وکیل کر کے، مخالف وکیل خرید کے، جج خرید کے، رشوت دے کے وغیرہ وغیرہ۔ لواحقین کو پیسے لینے پہ بھی دو چیزیں ہی مجبور کر دیتی ہیں۔ پہلی مخالفین کی اعلیٰ مالی حیثیت، جو کہ صاف بتا رہی ہوتی ہے کہ کچھ لے کے خاموشی اختیار کرنے میں ہی عقل مندی ہے، ورنہ ان لوگوں نے تو بچ ہی جانا ہے۔ دوسری مظلوم کی غربت۔ چنانچہ غربت اور امارت کے اس سماج میں ''آزاد عدلیہ‘‘ کی باتیں سراسر بیہودگی ہیں۔ یہ عدلیہ سرمایہ دارانہ ریاست کا بنیادی ستون ہے جس کا مقصد سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کی نگہبانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ چنانچہ اس طبقاتی نظام اور اس پر مبنی استحصالی ریاست کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اکھاڑ کر ہی ایک منصفانہ معاشرے کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ (تحریر : صبغت وائیں)

بیرون ملک پاکستانیوں کی زمہ داریاں


10 سب سے پہلے میں اس تقریب یا اجلاس کی انتظامیہ چنگاری فورم جرمنی اور اسکے لیے اس موضوع کو چننے والے دانیال رضا کو داد دینا چاہتی ہوں۔ کیونکہ جس قسم کا ذہنی اور روحانی انتشار پاکستان میں رہنے والے پاکستانیوں میں ہے ۔ اس سے کئی درجے بڑھ کر ملک سے باہر رہنے والے پاکستانیوں میں نظر آرہا ہے۔ ہم پاکستان میں بڑے بڑے گروہوں اور جماعتوں میں بٹے ہوئے ہیں تو یہاں ڈیڑھ ڈیڑھ انچ کی مسجدوں میں(حقیقی او ر معنوی دونوں معنوں میں) بٹے ہوئے ہیں۔اور یہ صورتحال ہر یہاں وہاں رہنے والے پاکستانی اور پاکستان سے دلچسپی رکھنے والے ہر فرد کے لیے نہایت غور طلب اور دلچسپ موضوع ہے۔ میں اپنے اس مضمون میں پاکستان کے موجودحالات کا ہر گز ہر گز ذکر نہ کرونگی ۔کیونکہ وہ سب کو معلوم ہی ہے۔ا ورا آپ کے دعوت نامے پر چھپی تصویر ان حالات کی تصویری شکل ہے۔ ہاں میں یہ ضرور کہوں گی کہ پاکستان میں یہ زوال اچانک نہیں آیا بلکہ یہ ہماری نادانیوں اور نا عاقبت اندیشیوں کے نتائج ہیں۔ ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرنا دراصل ہماری قومی مجبوری ہے۔کیونکہ تمام حکومتیں اور سیاسی جماعتیں نااہلی کی وجہ سے پاکستان کو کوئی جامع پروگرام ہی نہ دے سکیں ۔ قوم کو ترقی کرنے کے لیے کوئی سمت ہی نہ دے سکیں۔مثال کے طور پر وہاں پاکستان میں سیاسی نمایندوں کے چناؤ کا معیار اب تک برادری اور پیسہ ہے۔ پھر ہر نئی حکومت پرانی حکومت کے تمام جاری پروگرام بے سوچے سمجھے کہ اس سے ملک و قوم کو کیافایدہ ہورہا ہے یا کتنا نقصان ہو رہا ہے، ختم کر دیتی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ تعلیمی اداروں کے اردو اور اسلامیات اور تاریخ کے کورس بدل دیتی۔کیونکہ ا ن کتابوں میں انکی جماعت یاانکے اسلامی فرقے کے معاملات میں اختلاف ہوتا ہے۔ ہر آنے والی حکومت کے لیے قومی پیسہ او ر وقت اور اس کام پر بہائے گئے پسینے کے کوئی اہمیت ہی نہیں ہوتی ۔پھر دوسرا ظلم یہ کیا جاتا ہے کہ ہر آنیوالا نیا وزیر یا افسر اول تو وہ خود ہی نا اہل اور نالائق ہوتا ہے اوپر سے وہ اپنی شان دیکھانے لیے اپنے رشتے داروں اور دوست اقارب کو ملک کے انتہائی ذمدار عہدوں پر براجمان کر دیتا ہے۔ ہر آنے والی پارٹی بے حد بے دردی سے غیر ذمہداری کا مظاہرہ کرتی ہے اور کوئی ان سے جواب اور حساب طلب نہیں کر سکتا۔پاکستان کی جڑیں اس بے حسی کی وجہ سے کھوکھلی ہو چکی ہیں۔ میرے نزدیک یہ پاکستان کے زوال کی بنیادی وجوہات ہیں جو ہماری ملکی اور قومی شناخت بننے نہیں دے رہیں۔ کیونکہ وہاں برادری سسٹم ختم نہیں ہو رہا ،علاقائی اور مذہبی منافرت کو اپنے سیاسی مفادات کی اور کبھی ذاتی مفادات کی خاطر بڑھایا جاتا ہے اور مجرموں کو پناہ دی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک سے باہر ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے پاکستانی ملک کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ تومرا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ جو بھی آپ یہاں سیکھ رہے ہیں وہ ان کو سیکھایءں ۔ بے شک کہ یہاں کی ہر بات اچھی نہیں جو کہ دنیا میں کہیں ہو بھی نہیں سکتی۔ ہم یہاں ان ترقی یافتہ ممالک میں ایک منظم نظام کو دیکھ رہے ہیں۔جہان دنیا جہان کی قومیتوں اور مذاہب کے لوگ سمائے ہوئے ہیں۔یہاں کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہوتابلکہ سب کے ساتھ پورا پورا قانون کے مطابق سلوک ہوتا ۔شاید یہ سو فی صد نہ مگر ۹۰ فی صد تو ضرور ہوتاہے۔ یہاں اکثر راہ چلتا فرد اپنے ملک کے قانون کا رکھوالا ہوتا ہے۔ یہاں ہر شخص ٹیکس دیتا ہے کیونکہ ٹیکس لینے کا نظام ہی ایسا ہے کہ ٹیکس چوری کرنا آسان نہیں۔یہاں ہر چھوٹے بڑے ادارے میں شفافیت ہے۔ پوچھ اور پکڑ ہے۔ یہاں نظام کی جڑیں عوام میں بہت گہری ہیں۔ یہاں کا تعلیمی نظام سب سے اولین مقام پر ہے ۔ پڑھانے کا طریقہ کار اہم ہے ۔۔یہاں کا ایک خاص اخلاقی اور ثقافتی کلچر ہے۔ یہاں صفائی کی اہمیت اور اسکے متعلق انتظامات اور احساس وشعور کی تربیت کا انتظام ہے۔ ان ممالک میں اور بھی بے تحاشہ خیالات اور احساسات ایسے ہیں جو ہمیں دنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو کر تے ہیں۔ مگر ہوتا کیا ہے ہم یہاں سے وہاں بھجتے کیا ہیں ؟ یہاں کا پیسہ اور اسکے ساتھ ایک خط لکھ کہ یہاں شراب پینے والے اور سور کھانے والے دوزخی رہتے ہیں۔ہم ان سے معاشرتی تعلقات نہیں کرسکتے۔ ہم یہاں بہت تنہا اور دکھی ہیں۔ہمارے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے۔زیادتی اور نفرت ہوتی ہے۔ اس قسم کے خیالات رکھنے والوں کی اکثریت کی تیسری یا چوتھی نسل یہاں کے سوشل نظام سے مسلسل فائدہ اٹھارہی ہے۔اوریہاں سے کمائے ہوئے سرمائے سے اپنے ملک میں بڑے بڑے گھر،اور پلازے بنا چکی ہے۔ اپنے بچوں کو یہاں کے خیراتی اداروں کی مدد سے تعلیم دلواء چکی ہے۔ مگر اپنی بند آنکھوں ،بنددلوں اور دماغوں کو نہ کھول سکی ہے۔بلکہ اپنے پیچھے گھروں میں پھیلے ذہنی اندھیروں، اور صدیوں پرانے نجاست اور طہارت کے تصورات کو تقویت مہیاء کر تے ہیں۔یعنی ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ افسوس کہ ہم یہاں سے پاکستاں صرف پیسہ اور تنگ نظری منتقل کر رہے ہیں۔ذہنی اور جسمانی ترقی کے راز نہیں۔ چاہیے یہ کہ ہم وہاں جائیدادوں کی مردہ دیواروں کے بجائے یہاں کی اخلاقی اصلاح اور معاشی فلاح کی زندہ روایات کی عمارات کھڑی کریں۔ پاکستاں میں تہذیب و ثقافت اب صرف عجائب گھروں میں شیشے کے ڈبوں میں بند ہو کر رہ گئی ہے۔ گلی کوچے،بازار سڑکیں کتابوں میں لکھی اخلاقی داستانوں سے محروم ہوتی جارہی ہے۔ بلکہ ان کتابی اخلاقی اقدار اور خاکساری کو دھوکے اور فریب کے لیے کسی کو بیواقوف بنانا ہو تضحیک کا نشانہ بنانا ہو،لوٹنا اور دھوکہ دینا ہو تو یہ سب ہتھکنڈوں کے طور پراستعمال کیا جاتا ہے۔ ملک سے باہر ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے معاشروں میں جہاں انصاف ،شرافت اور تہذیب اور صلاحیت کو کم اہمیت ملتی ہے۔ اپنی خیراتوں سے وہاں کے عام انسان،عام طالب علم،عام عورت اور عام بچوں کے لیے تقریبات کروائیں۔جس میں ان کو اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے کے اخلاقی معیار اور اہمیت کا اندازہ ہو۔انکے لیے ایسے پتلی تماشے اور اسٹریٹ تھیٹر کروائے جایءں جن سے وہ پہلے کھانے پینے کے آداب سیکھیں کیونکہ انہوں نے کھانے پر چھپٹتے ہوئے لوگوں کو دیکھا ہے آرام اور ادب سے اپنی باری کا انتظار کرنے والوں کو نہیں دیکھا۔ اس کے بعد ان کو کھانا یا خیرات دی جائے۔ وہ لوگ جو اپنی زکواتہ بھجواتے ہیں۔چاہیے کہ وہاں ایسی ورکشاپ ،ادارہ یا سافٹ ویر کا اسکول کھولیں جس سے سیکھنے کے بعد کوئی بھی مرد و عورت اپنی کمائی کا خود بندوبست کر سکے۔نا کہ وہ اگلے سال بھی ہاتھ پھیلا کر بیٹھا ملے۔ تعلیمی اور علمی ترقی کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے افراد اپنے اپنے علاقوں سے طلباء کے ایکسچینج پروگرام کروائیں۔ تو یقیناًتبدیلی لانے والوں میں اپنا نام لکھوا سکتے ہیں۔اس سلسلے میں ائیر فورٹ یونیورسٹی کی مثال دی جا سکتی ہے۔جہاں گزشتہ بارہ سال سے، اسلام ان دی وسٹ249 کے نام سے دنیا بر کے اسلامی ممالک سے تیس طلباء کو مدعو کیا جاتا ہے۔ پھر وہیں پر پاکستان کے ساتھ،سوشل میڈیا کا اسلامی معاشروں میں کردار ،پر تیں سالوں سے ورکشاپ کروائے جا رہے ہیں۔اسی یونیورسٹی نے اردو سمر اسکول شروع کروایا ہے۔تاکہ دونوں ثقافتوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقعہ مل سکے۔ پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک میں مطالعہ کی عادت کم ہے۔ وہاں لائبرئیریاں بنوائی جا سکتی ہیں۔وہ معاشرے جہاں مطالعہ کم ہوتا ہے۔تعلیم کی کمی ہوتی ہے۔ وہیں جذباتیت، انتہا پسندی اور تعصب پنپتا ہے۔ کیونکہ وہ معاشرہ چند پڑھے لکھے افراد کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتا ہے۔ مطالعہ اور تجزیہ کی عادت بنانے کے لیے لائیبری کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ تمام اسلامی ممالک میں تعلیم کی کمی کی وجہ سے جذباتیت زیادہ ہے، اس لیے وہاں دین اور مذہب کے نام پر زیادہ خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ تعلیم کو عام کرنے کے لیے سب سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دین کا انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بہت دخل ہوتا ہے۔مگر دین کو قوم اور ملک کا رکھوالا بنا دینے سے بہت سے پیچیدہ مسائل جنم لیتے ہیں۔ جن کا آنکھوں دیکھا حال ہم روزانہ دنیا بھر کے ٹیلی ویژن چینلز پر دیکھتے ہیں۔اگر ادیان کو ملکی قوانین کا پابند کر دیا جائے تو انسانیت بہت سے افسوس ناک واقعات سے بچ جاتی ہے۔ جرمنی اور یورپ اسکی مثال ہیں۔بلکہ مغرب کی ترقی کا راز ہی یہ ہے ۔کہ یہاں دین کو سیاست سے علیحدہ کر دیا گیا ہے۔یہاں دین اسٹیٹ کی حفاظت نہیں کرتا بلکہ اسٹیٹ ادیان کی حفاظت کرتی ہے کس ایک مذہب یا فرقے کو دوسرے کو کافر یا کم تر کہنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں۔ یہاں تمام ادیان کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ یہاں کے دینی گروپ ،اورگانیزیشن اور ادارے مار دھاڑ ، تعصب اور نفرت پھیلانے کے بجائے سوشل سیکٹر جن میں زیادہ تر کنڈر گارٹن ،بوڑھوں کی خدمت کے ادارے ،ہسپتال اور باغ شامل ہیں، میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مصروف عمل ہیں۔لیکن کہیں ایسا نہیں ہے کہ ایک دینی ادارہ کسی دوسرے فرقے مذہب یا دین والے کو اپنے ادارے میں نہ آنے دے۔کیونکہ یہاں کے تمام ممالک کے آئین میں امتیازی سلوک کے حوالے سے قانون موجود ہے۔اس قسم کے قوانین اور آئین ایک سکیولر ملک ہی بنا سکتا ہے۔سیکیولر کا مطلب ہر گز لا دینیت نہیں ہے۔بلکہ اس کا مطلب ہر دین کو اس کا حق اور عزت دینا ہے۔ ان تمام ممالک میں جہاں کسی ایک مذہب یافرقے کو اہمیت حاصل ہو جاتی ہے وہاں خون ریزی ،فرقہ پرستی اور بربریت پھیل جاتی ہے۔انسانوں کو اپنی ذاتی خواہشات اور تعصبات سے بچانے کے لیے سخت قسم کے قانونی شکنجے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی بھی ملک و معاشرے کو کسی ایک کی انفرادی سوچ اور کوشش سے نہ تو بچایا جا سکتا ہے اور نہ ہی بدلا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ایک گروپ ایک لیڈر اور اجتماعی سوچ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ایک تنظیم کی ضرورت ہوتی ہے جو ایک اجتماعی خیال کو پروان چڑھانے کے لیے پروگرام کروائے۔اسکے کارکنوں میں اخلاص ،سچائی اور خدمت خلق کا جذبہ ہو۔ ملک سے باہر رہنے والے افراد ان بہت سی خوبیوں اور برائیوں کو واضح طور پر دیکھ اور محسوس کر سکتے ہیں جو ملک کے اندر اور ان حالات کے عادی افراد نہیں دیکھ سکتے۔ (تحریر : بشریٰ اقبال ملک)

فلائی وور اور انڈر پاس کس کی ضرورت؟

بدھ، 11 ستمبر، 2013


چند گنے چنے لوگوں کی،،، جنہیں ٹریفک میں پھنس جانے پر اختلاج قلب ہونے لگتا ہے کیوںکہ وہ عام انسان نہیں بلکہ اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں آسمان سے حکمرانی کےلیئے نازل فرمایا گیا ہے،،،، وہ اپنی تیز رفتار گاڑیوں کے لیئے عمدہ ٹریک بناتے ہیں تاکہ ہر جگہ بلا روک ٹوک جاسکیں،،،، مجھے کوئی صاحب بتا سکتے ہیں کہ پاکستان کی کتنے فیصد آبادی ان خوبصورت سڑکوں، فلائی اوورز اور انڈر پاسز کو استعمال کرتی ہے؟ مگر بے روزگاری، ناخواندگی، بھوک اور طبی سہولیات کا فقدان تو 19 کروڑ پاکستانیوں کا مسئلہ ہے ،،، اس پر کتنا خرچ کیا جاتا ہے؟ اسکے باوجود بھی اگر کسی کی سمجھ میں ہماری ؛ غیر ترقیانہ ؛باتیں نہیں آتیں تو پھر یقیناً ہمیں کسی فلائی اوور کی منڈیر پر بیٹھ کر لاہور شہر کی خوبصورتی کا نظارہ کرنا چاہئیے،، اسکے اردگر آباد کچی بستیوں میں رینگنے والے کیڑے مکوڑوں کی بات کرکے اپنے سی ایم صاحب کی خدمات پر پانی پھیرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہئیے،