بابے اور کٹا

پیر، 30 دسمبر، 2013


ایک گجر صاحب کا کٹا (بھینس کا بچہ) گم ہوگیا، اس نے اپنے نو عمر بیٹے کو اپنے ساتھ لیا اور گاؤں گاؤں اپنے کٹے کو تلاش کرنے لگا۔

راستے میں جتنے بھی مزارات آتے گئے وہ کٹا ملنے پر ایک روپیہ چڑھاوے کی منت مان کر آگے بڑھتا گیا،
ایک جگہ پہنچ کر جب گجر صاحب نے مزید ایک روپیہ کسی بابے کی نذر کرنے کا وعدہ کیا تو بیٹا کہنے لگا کہ ابا چلو گھر واپس چلتے ہیں۔

باپ کے پوچھنے پر بیٹا کہنے لگا کہ ابا جی ہمارے کٹے کی قیمت سے زیادہ تو آپ منتیں مان چکے ہیں چنانچہ اب کٹا مل بھی گیا تو یہ گھاٹے کا سودا ہوگا اس لیئے میرا خیال ہے گھر واپس جانا چاہئیے۔

اس پر باپ زور زور سے ہنسنے لگا،،
جب بیٹے نے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو باپ بولا،،، میری بچے،،،!
زرا کٹے کے سینگوں پر ہاتھ تو پڑنے دو، ان بابوں شابوں کو میں دیکھ لوں گا۔

یہ واقعہ اس وقت یاد آیا جب میاں نواز شریف اور جناب خواجہ آصف نے اس قوم کو خوشخبری سنائی ک بجلی کا بحران 6 سال سے پہلے حل نہیں ہوسکتا، جبکہ الیکشن کے دوران 6 ماہ کے اندر اس مسئلے سے قوم کی جان چھڑانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اب حکومت کا کٹا اور اسکے سینگ، دونوں میاں صاحب کے ہاتھ میں آچکے ہیں اب انہوں نے ہمارے ساتھ وہی سلوک کرنا ہے جس کا وعدہ گجر بھیا نے اپنے بیٹے کے ساتھ کیا تھا۔

کاروباری سوجھ بوجھ

منگل، 17 دسمبر، 2013


جب کالج سے تعلیم حاصل کرکے جب میں نے اپنا آخری امتحان بھی زبردست نمبروں سے پاس کرلیا تو میرا خیال تھا میں نے اے سی سی اے کیا ہے اس لیئے پاکستان کے تمام صنعتکار مجھ جیسے ہونہار اور عالم فاضل شخص کو نوکری دینے کے لیئے لائن میں کھڑے ہوں گے۔

غیر ملکی کمپنیاں ہاتھوں میں ہار لیئے میری منتظر ہوں گی مگر مجھے سخت حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب ایک ماہ تک میں گھر میں پڑا انتظار کرتا رہا مگر کسی نے مجھے فٹے منہہ بھی نہیں پوچھا۔

ایک دن ابا جان نے یونہی ناشتے پر پوچھ لیا کہ تم نے کہاں کہاں سی وی ڈراپ کی ہے؟
جس پر میں نے کہا کہ ابو جان مجھ جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ بندے کو بھی سی وی دینے کی ضرورت ہے؟
اس پر ابا حضور نے کچھ برا سا منہ بنایا اور پھر کہنے لگے کہ بیٹا تم ہمارے ملک کے حالات سے شائد واقف نہیں ہو، یہاں محنتی، ایماندار اور پڑھے لکھے بندوں کی نہیں بلکہ بے ایمان، نااہل اور کام چوروں کی قدر ہوا کرتی ہے۔ اس لیئے تم فوری طور پر چند اچھی کمپنیوں میں اپلائی کردو انشاء اللہ تمہیں اچھی نوکری مل جائے گی۔

ابا جان کے حکم پر اگلے ہی دن جاب مارکیٹ پر حملہ کیا تو میرے چودہ طبق روشن ہوگئے، ایک بہت بڑے مینوفیکچرنگ ادارے کے مالک نے مجھے دس ہزار روپے تنخواہ کی آفر کی تو میرا خون کھول اٹھا،
ارے جناب میں نے اے سی سی اے فرسٹ کلاس میں کیا ہے اور میری گریڈنگ بھی انتہائی اعلیٰ ہے، میں نے ادارے کے مالک سے کہا،
مالک نے جواب دیا اگر اے سی سی اے کیا ہے تو ہم پر کون سا احسان کردیا؟
تم جیسے کئی پڑھے لکھے بےروزگار پھر رہے ہیں،،،
جائو چند دن تک نوکری کی تلاش میں سڑکیں ناپو پھر مجھ سے بات کرنا۔
میں بھی تم جیسا نوجوان تھا جس وقت میری جیب میں صرف 30 روپے باقی بچے تھے تب میں تم جیسا پڑھا لکھا بھی نہیں تھا مگر میں نے ان پیسوں کو انتہائی عقلمندی سے انویسٹ کیا اور اسکے نتیچے میں آج میری فرم اربوں روپے کا بزنس کرتی ہے،

میں غصے میں بھرا ہوا وہاں سے باہر نکلا مگر اس کمبخت کی بات درست نکلی،،، جہاں بھی گیا میری ڈگریوں کا تمسخر اڑایا گیا اور میرے ساتھ کچھ اس قسم کا سلوک ہوا کہ جیسے مجھ سا نالائق اور گدھا ساری دنیا میں کہیں نہیں پایا جاتا۔
اب میں ہمت ہار چکا تھا اور مجھے یقین ہوچکا تھا کہ اب اس ملک سے جاب نام کا پرندہ پرواز کرچکا ہے اس لیئے مجھے اپنا کوئی زاتی کام کرنا ہوگا۔

اپنے بزنس کے لیئے سب سے پہلے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جو میرے پاس تھا نہیں، دوست احباب سے قرض مانگا تو انہوں نے اپنے حالات کا رونا رو کر دکھا دیا، ایک دن مایوسی اور بے زاری کے عالم میں بیٹھا تھا کہ اچانک مجھے یاد آیا کہ الیکٹرونکس کمپنی کے مالک سے کیوں نہ ٹپس لیئے جائیں تاکہ میں بھی سرمائے کے بغیر کوئی بزنس شروع کرسکوں۔

اگلے ہی دن میں الیکٹرونکس مینو فیکچرنگ کمپنی کے دفتر میں پہنچ گیا اور اسکے مالک سے ملنے کی درخواست کی۔
ہاں بھئی کیسے آنا ہوا؟

وہ سر آپ نے بتایا تھا کہ آپ نے صرف 30 روپے سے کروڑوں کا بزنس اسٹارٹ کیا تھا،،،
براہ کرم مجھے بھی وہ راز بتائیں تاکہ میں بھی کوئی اسی قسم کا کاروبار شروع کرسکوں۔

مالک مسکرایا اور بولا، میرے ابا اربوں پتی تھے اور انہیں اپنی دولت کا گھمنڈ بھی بہت زیادہ تھا اسی لیئے میں ان سے ناراض ہو کر چلا گیا کہ اب میں خود ہی اپنی محنت سے کوئی کام کرکے دکھاؤں گا۔

واہ سر کیا سوچ تھی جناب،،،، میں نے بھی مکھن لگانے میں دیر نہیں کی۔
ہاں تو ،،، ایک سال تک مجھے کوئی کامیابی نہیں ہوئی اور پھر ایک دن میرے پاس صرف 30 روپے باقی رہ گئے،، یہ کہہ کر اس نے گفتگو میں ڈرامائی وقفہ دیا،
میرے تجسس میں اضافہ ہو رہا تھا اور وہ کمبخت سگریٹ کا دھواں فضا میں بکھیرتے ہوئے گویا دور کہیں خلا میں گھور رہا تھا۔

میں ہلکا سا کھانس کر اسے اپنی موجودگی کا احساس دلایا، تو اس نے چونکتے ہوئے کہا کہ میں زرا پرانی یادوں میں کھو گیا تھا،،
ہاں تو ،،، میں نے ان باقی ماندہ 30 روپے سے فون میں ایزی لوڈ ڈلوایا اور
،
،
،
،
؟؟؟ابا مرحوم کو فون کرکے 50 کروڑ روپے منگوا لیئے،۔

جانے کب ہوں گے کم ؟؟؟

جمعہ، 13 دسمبر، 2013


مشرف کی فوجی حکومت کے دوران ملک کے ایک بڑے حصے پر ق لیگ نے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ گروپ کے ساتھ مل کر حکومت بنائی اور کچھ حساس قسم کا ایریا جہاں جنرل صاحب کو کسی حد تک دینی سپورٹ کی ضرورت تھی وہاں ملاؤں کو حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا گیا۔

ق لیگ میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کے وہ لوگ تھے جنہوں نے سیاست کو خدمت کی بجائے اپنے زاتی مفادات کی آبیاری کا ذریعہ سمجھا اور اس نظرئیے پر خوب خوب عمل کرکے دکھایا،

دوسری جانب دیکھا جائے تو ملاؤں نے بھی بظاہر اپورزیشن کا کردار ادا کیا مگر در پردہ مشرف کو سپورٹ کرتے رہے، یہاں تک کہ اسے باوردی صدر بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا، اس وقت کے صوبہ سرحد میں ملاؤں کی حکومت ہونے کے باوجود پاکستان نہ صرف دہشت گردی کی جنگ میں امریکیوں کا اتحادی بنا بلکہ نیٹو سپلائی کا بھی اجراء ہوا۔

2008 کے انتخابات میں پاکستانی عوام نے مشرف اور اسکے حمائتیوں کا حقہ پانی بند کرکے انہیں اسمبلیوں سے باہر پھینک دیا اور اس طرح اپنے لیئے ایک تبدیلی کی بنیاد رکھ دی جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آگئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت جو کہ بار بار عوام اور روٹی کپڑا، مکان کے نعرے لگاتی ہے وہ عوامی مسئل کا حل نکالنے میں نہ صرف ناکام ہوئی بلکہ ان میں گوں نا گوں اضافے کا باعث بنی۔

مئی 2013 میں پیپلز پارٹی سے مایوس عوام نے نواز شریف پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا مگر آخری خبریں آنے تک وہ بھی عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ یہ پاکستانی عوام کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ بار بار حکومتوں کو تبدیل کرنے کا مینڈیٹ دینے کے باوجود ان عوام کی شنوائی نہیں ہورہی اور انکے مقدر میں لکھی ذلتوں میں انتہائی تیز رفتاری سے اضافہ ہورہا ہے۔ روزمرہ ضرورت کی اشیاء نہ صرف ناپید ہیں بلکہ مہنگی اور سب سٹینڈرڈ بھی ہیں، تمام کاروباری گروپوں نے اتحاد کرکے مافیاز بنا لیئے ہیں جو آئے دن حکومتوں کو بلیک میل کرکے من مرضی کے ریٹ وصول کرتے ہیں۔ تعلیمی اور علاج معالجہ کی سہولتیں تو چراغ لیکر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں، اکر کسی غریب کا بچہ ڈگری حاصل کربھی لے تو ہر دفتر کے بار لگا نو ویکیسنی کا بورڈ اس کا منہ چڑا رہا ہوتا ہے۔ امن و امان کی صورتحال اس قدر دگرگوں ہے کہ خود پولیس اور فوج بھی محفوظ نہیں ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ شائد یہ ایسے مسائل ہیں جنہیں حل کرنا ممکن ہی نہیں لیکن آئیے آپکو ایک افریقی ملک کے بارے میں مختصر سی معلومات دیں تاکہ آپکو پتہ چل سکے کہ ہمارے سیاستدان اور جرنیل کس قسم کے لوگ ہیں۔

کینی
ا ایک ایسا افریقی ملک ہے جس کی آمدنی کا زیادہ تر دارو مدار سفاری پارک اور چائے کے باغات ہیں، وہاں کی آبادی 4 کروڑ ہے۔ یہاں کوئی 6 ماہ پہلے صدارتی الیکشن ہوئے جس میں حکمران پارٹی کو شکست ہوگئی اور وہاں نئی حکومت بن گئی، اس سے قبل وہاں کے حالات اور وطن عزیز کے مسائل میں چنداں فرق نہیں تھا، بلکہ وہاں تو لوگ ٹین ڈبوں سے بنے ہوئے جھونپڑوں مین رہتے ہیں،
انکے ہاں کسی قسم کی کوئی انڈسٹری نہیں ہے اور اسے مکمل طور پر ایک کنزیومرز اسٹیٹ کا درجہ حاصل ہے۔

نئی آنے والی حکومت نے ایک کام تو یہ کیا ہے کہ انہوں نے اپنے وزراء کی تعداد 44 سے کم کرکے 18 کردی ہے، اسکے علاوہ وہاں اشرافیہ کی بجائے عوام دوست پالیسیاں اپنائی ہیں جس کے نتیجے میں 6 ماہ کے مختصر ترین عرصے میں وہاں کا نقشہ ہی تبدیل ہوگیا ہے اور سرمائے کا رخ بالائی طبقے کی بجائے عام آدمی کی طرف ہوجانے سے وہاں خوشحالی کا ایک سنہرا دور شروع ہو چکا ہے، انکی ترقی کی رفتار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج سے کوئی سال بھر پہلے امریکی ڈالر وہاں کی کرنسی کے حساب سے 150 کا ملتا تھا جبکہ اس وقت 85 پر آچکا ہے۔

وہاں کی حکومت نے کینیا سے غیر ملکی ورکروں کو نکالنا شروع کردیا ہے اور غیر ملکی کمپنیوں کو بھی اس بات کا پابند کردیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مقامی لوگوں کو ہی جاب دیں۔ پچھلے دنوں کینیا کے ایک سپر سٹور میں ہونے والی دہشت گردی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہوسکتی ہے جس میں کینیا کی حکومت کو دھمکایا گیا ہو، لیکن انہوں نے اسے زرہ برابر اہمیت نہیں دی اور امیگریشن کے قوانین کو مزید سخت بنا دیا ہے۔ دہشت گردی کے اس واقعہ میں 35 افراد ہلاک ہوئے اور وہاں کی حکومت نے اس قدر سختی کردی کے اب وہاں پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا، ایک پاکستان ہے جہاں انسانی جان کی کوئی وقعت ہی نہیں ایک ایک دھماکے میں 200 لوگ مارے جاتے ہیں اور ہمارے حکمران دہشت گردوں کی مذمت اور مرنے والوں کے لواحقین کے ساتھ ہمدردیاں کرنے کے بعد پھر اپنی لوٹ مار میں مشغول ہوجاتے ہیں۔
اس وقت تک پاکستان میں 75 ہزار سے زیادہ لوگ دہشت گردانہ کاروائیوں کا نشانہ بن چکے ہیں، کتنی سہاگنیں بیوہ اور کتنے ہی بچے یتیم ہوچکے؟
کتنی ہی مائیں آج بھی اپنے بیٹوں کی واپسی کی امید میں گھروں کے دروازوں پر نطریں جمائے آنسو بہا رہی ہیں مگر حکمران ابھی تک اپنے عوام کی حفاظت کے لیئے کوئی بھی ٹھوس پالیسی بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

کینیا حکومت کی پالیسیاں دیگر ممالک کے لیئے قابلِ قبول ہوں یا نہ ہوں مگر انکے اپنے عوام کے مفاد میں ہیں، اسی طرح اور بھی بہت کچھ ایسا ہے کہ جسے یکسر بدل کر رکھ دیا گیا ہے اور وہاں کے عوام کو پتہ چل رہا ہے کہ کوئی تبدیلی آئی ہے، اسکے برعکس پاکستانی عوام نے مختلف پارٹیوں کو دو تہائی اکثریت دے کر بھی دیکھ لیا لیکن انکی زندگیوں میں بہار کا ایک جھونکا تک نہیں آسکا۔ یہ صورتحال خود حکمران طبقے کے لیئے الارمنگ ہے اور شائد عوامی ابال خطرے کے نشان کے قریب تر آتا جارہا ہے،،، وہ دن دور نہیں جب پریشر ککر ایک دھماکے کے ساتھ پھٹ جائے گا۔

المیہء مشرقی پاکستان کا ایک اور پہلو


یحیٰ خان نے جب الیکشن کروائے تو اسکا خیال تھا کہ منقسم مینڈیٹ آئے گا اس لیئے وہ سیاستدانوں نے ساتھ مول تول کرکے صدارت کا عہدہ حاصل کرلے گا، مگر شیخ مجیب کی عوامی لیگ کی لینڈ سلائیڈ وکٹری نے یحیٰ خان سمیت بہت سے لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور انکے ہاتھوں کے توتے اڑ گئے۔

بہت سے فیلسوف حضرات ان انتخابات کو فری ایڈ فیئر قرار دیتے ہیں، خود میرا بھی یہی خیال ہے مگر ایسے فری اینڈ فیئر الیکشن کس کام کے جب انکے نتائج پر عملدرآمد ہی نہیں کرنا؟

بعد ازاں شیخ مجیب کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کردیا گیا، کیونکہ اس سے الیکشن جیتنے کا جرم سرزد ہوچکا تھا اور اس سے بھی بڑھ کر وہ جرنیلوں کے دباؤ میں آنے کو تیار نہیں تھا، مشرقی پاکستان کی ایک نشست چھوڑ کر باقی تمام کی تمام شیخ مجیب نے جیت لی تھیں اس لیئے وزارت بنانا اور صدر پاکستان منتخب کرنے کا اختیار بھی اسی کے پاس تھا جسے اسٹیبلسمنٹ نے تسلیم نہیں کیا بلکہ ایک بے جا ضد کا سہارا لیا جس کی بدولت بنگالیوں میں مزاحمت کا رجحان پیدا ہوا۔

ہم ذوالفقار علی بھٹو کو المیہ مشرقی پاکستان کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ مغربی پاکستان کے تمام سیاسی لیڈر بنگالیوں سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے تھے، کیونکہ مشرقی پاکستان کے ہوتے ہوئے یہاں کے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی دال گلنے والی نہیں تھی، عوامی لیگ بلاشبہ ایک عوامی پارٹی تھی اور آپکو اس پارٹی میں مڈل کلاسیوں کی بالادستی دکھائی دے گی جسکی وجہ سے انہیں زبردستی پاکستان سے جدا کردیا گیا،،، مگر اس قدر صفائی کے ساتھ کہ سارا الزام فوج نے اپنے اورپر لے لیا۔

مشرقی پاکستان کے الگ ہوتے ہی یہاں کے جاگیرداروں، گدی نشینوں، سرداروں اور نوابوں کی لاٹری نکل آئی اور وہ آکٹوپس اور مردار خور گِدھوں کی طرح بچے کھچے پاکستان پر اپنا شکنجہ کس کے بیٹھ گئے۔

جب مجیب کو جیل میں ڈالا گیا تو اسٹیبلشمنٹ نے اپنے پرانے طریقہء واردات پر عمل کرتے ہوئے (آج انتے سال اور ایک عظیم سانحہ گزرنے کے بعد بھی اسٹیبلشمنٹ کا یہی وطیرہ ہے) عوامی لیگ کے کارکنوں پر بھی عرصہء حیات تنگ کردیا۔ ایسے وقت میں اندرا گاندھی کو موقع غنیمت لگا اور اس نے عوامی لیگ کے ہاکس کے ساتھ معاملات طے کرکے انہیں مکتی باہنی کے نام سے نہ صرف منظم کیا بلکہ انکی تربیت بھی کی اور ان میں اپنے تربیت یافتہ ایجنٹ بھی داخل کردئیے جو کہ انڈین آرمی کے ریٹائرڈ اور حاضر سروس ملازمین تھے۔

جب مشرقی پاکستان میں گوریلا وار شروع ہوئی تب فوج کو اندازہ ہوا کہ اس قسم کی جنگ لڑنا انکے بس سے باہر ہے کیونکہ ایک طرف تو مقامی آبادی کی اکچریت انکے خلاف ہوچکی ہے تو دوسری طرف ریگولر آرمی اور چھاپہ مار فوج کی تربیت میں بہت فرق ہوا کرتا ہے اور یقینی طور پر اس قسم کی جنگ میں گوریلا وار کے تربیت یافتہ لوگ ہی کامیاب ہوتے ہیں، ایسے میں فوجی جرنیلوں نے ہٹ دھرمی چھوڑ کے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے جماعت اسلامی کے ''الشمس'' اور ''البدر'' کے نوجوانوں کو استعمال کیا،

جماعت اسلامی کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو اس نے ہمیشہ جرنیلوں کی ''خدمات'' سرانجام دی ہیں، اس دور میں بھی جماعت اسلامی نے رائے عامہ سے صرف نظر کرتے ہوئے اقتدار کے بھوکے جرنیل کا ساتھ دیا، کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ ایسے وقت میں جمہوری قوتوں کے ساتھ کھڑی ہوتی اور یحیٰ خان پر سیاسی دباؤ ڈالا جاتا کہ عوام کے فیصلے کے سامنے گردن جھکا دے مگر افسوس کہ اس نے اقتدار کے پجاریوں کا ساتھ دیکر متحدہ پاکستان کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی،

اس دور میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دینے والوں کو آج وہاں ایک غدار کی حیثیت سے جانا اور پہچانا جاتا ہے، ملا عبدالقادر کی سزائے موت اور دیگر لوگوں پر چلائے جانے والے مقدمات اسی چپقلش کا شاخسانہ ہیں،، مجھے ملا عبدالقادر اور انکے ورثاء سے ہمدردی ہے اور اب اتنے سال گزر جانے کے بعد اس قسم کی چیزیں محض انتقامی کاروائی ہی کہلا سکتی ہیں،، مگر یہ کہنا کہ جماعت اسلامی نے مشرقی پاکستان میں پاکستان کی جنگ لڑی تو میں معذرت چاہتا ہوں کہ ایسا ہرگز نہیں تھا بلکہ اس جماعت نے جرنیلوں کا ساتھ دیکر پاکستان توڑنے کی جنگ لڑی اور اس میں کامیاب رہی۔

کسان اور گدھا

جمعرات، 5 دسمبر، 2013


ایک کسان نے گھر میں داخل ہوتے ہی اپنی بیوی کو بتایا کہ آج جب وہ اپنے گدھے پر چارہ لاد کر گھر آرہا تو راستے میں گدھے،،،

اتنے میں چنو نے زور سے ہانک لگائی،،،،،
امی منو نے میرا جوتا پہن لیا ہے،

بیوی نے اپنے خاوند سے معذرت کی اور ان بچوں کا معاملہ سیٹل کروانے کے بعد دوبارہ اپنے شوہر کے پاس آبیٹھی اور بولی،

اب سناؤ کیا ہوا تھا،

کسان بولا کہ جب میں گدھے کو لیکر واپس گاؤں کی چلا تو،،،، ا
اتنے میں سب سے چھوٹی بیٹی چلانے لگی جو واکر سے گر کے ماتھے پر چوٹ کھا بیٹھی تھی اور اسکے ماتھے پر ایک گومڑ سا ابھر آیا جس طرح گوادر میں جزیرہ ابھرا ہے۔

اسی طرح بے چارے کسان نے کئی مرتبہ اپنی بات مکمل کرنے کی کوشش کی مگر اسکی اپنی ہی ''مکتی باہنی'' نے اسے ناکام بنادیا۔

آخر کار کسان کی بیوی اپنے بچوں پر برس پڑی اور انہیں سختی سے ڈانٹتے ہوئے بولی،

کم بختو!

سکون کے ساتھ ''گدھے'' کی بات تو سن لینے دو،،،،!

سگ گزیدہ


ایک صاحب کو ہلکے (باؤلے) کتے نے کاٹ لیا۔ ڈاکتر نے انکے متعدد ٹیسٹ کروانے کے بعد افسوس سے سر ہلایا اور کہا,
قریشی صاحب ! آپ کا آخری وقت آگیا ہے اس لیئے اللہ سے اپنے گناہوں پر توبہ استغفار کرلیں کیونکہ آپ پر کسی بھی وقت پاگل پن کا دورہ پڑ سکتا ہے اور اسکے بعد آپ لوگوں کو کتے کی طرح کاٹنے کی کوشش کریں گے، اگر آپ اپنی کوشش میں کامیاب ہوگئے تو وہ شخص بھی باؤلا ہوجائے گا جسے آپ نے کاٹا ہوگا، اور وہ بھی تڑپ تڑپ کر مر جائے گا، بس آپ گھر جائیں اور اللہ اللہ کریں۔

یہ سن کر قریشی صاحب نے ڈاکٹر سے پینسل اور کاغذ مانگا،
ڈاکٹر نے پوچھا کہ کیا آپ وصیت لکھنا چاہتے ہیں؟

قریشی صاحب نے جواب دیا
نہیں،
،
میں ان لوگوں کی فہرست تیار کروں گا ،
،
،
،
،
،
،
،
،
،
جنہیں کاٹنے کا ارادہ ہے۔

سمجھوتہ

بدھ، 4 دسمبر، 2013


کرمو چاچا آج مرغی کا بھاؤ کیا ہے؟
کیس
ا بھاؤ بابو جی؟
جب سے اپنا نواج شریپھ ا(نواز شریف) اس دھندے میں پڑا ہے مرغی کی قیمتیں بھی سونے کے ریٹ کی طریوں آسمان پر ہی چرھتی جاویں،
ابھی کل ہی 190 روپے بیچا تھا اور آج ہمیں 225 روپے میں ملا ہے، آپ تو پڑھے لکھے ہو بابو جی اور اکھبار میں بھی لکھت ہو،، آپ تو جانو ہو کہ لوگ اِتا پیسہ کیا کرت ہیں؟

ابھی کومو چاچا کی تقریر جاری تھی کہ ہمارے ارد گرد یکدم سناٹا سا چھا گیا،،
میں نے مڑ کے پیچھے کی طرف دیکھا تو بھرے بازار میں 2 ڈاکووں نے پسٹل کے زور پر ایک نوجوان کو گھیر رکھا ہے اور اس سے رقم اور موبائل فون کا مطالبہ کر رہے تھے۔
اس نوجوان نے کمال جرآت سے کام لیتے ہوئے ایک ڈاکو کے ہاتھ پر زور دار کک ماری اور اسکا پسٹل ہوا میں قلابازیاں کھاتا ہوا عین میرے قدموں میں آگرا۔ دوسرے پر جست لگا کر اسکا پسٹل والا ہاتھ قابو کرکے اسے زمین پر گرا دیا اور لوگوں سے کہا کہ اسکی مدد کریں تاکہ ڈاکووں کو پکڑ کے قانون کے حوالے کیا جاسکے، مگر سارے مجمعے کو گویا سانپ سونگھ گیا تھا، مجھ سمیت کسی میں انتی ہمت نہ تھی کہ اس نوجوان کی مدد کرتے چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں ڈاکووں نے مل کر اس نوجوان کو قابو کرلیا، بڑے سکون کے ساتھ اسے گولی ماری اور آرام سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

دکانداروں نے اسی وقت دکانوں کے شٹر گرا دیئے اور دیگر لوگ بھی جائے واردات سے ادھر ادھر ہوگئے،
اتنے میں پولیس آگئی اور ایک انسپکتر نے جائے واردات پر موجود لوگوں سے اس واردات کے بارے میں پوچھا،،،، 90 فیصد لوگوں کی آنکھوں کے سامنے یہ واردات ہوئی لیکن کسی نے بھی اس بات کو تسلیم نہیں کیا اور یہ واردات بھی ٹارگٹ کلنک کے کھاتے میں لکھی گئی،

لاش کو ایمبولینس میں منتقل کر دیا گیا اور بازار کی رونق پھر اسی طرح بحال ہوگئی، گولیوں کی آوز سے خوف زدہ لوگ دوبارہ روزمرہ کاموں کی طرف لوٹ آئے اور دکانداروں نے حالات پر کڑھتے ہوئے چار چھ گالیاں حکومت وقت کی شان میں پیش کیں جو حالات کو سدھارنے میں قطعی طور پر ناکام ہوچکی تھی۔ صرف 30 منٹ کے اندر اندر کاروبارِ زندگی پھر رواں دواں تھا۔

میں نے کرموں چاچا کو 2 کلو مرغی کا آرڈر دیا، اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔
سنا ہے کہ یہاں کوئی ڈکیتی کی واردات ہوئی ہے؟
ایک ادھیر عمر آدمی نے استفسار کیا،
ارے ڈکیتی نہیں جناب، یہ تو مجھے وہی لوگ لگتے ہیں جنہوں نے پرسوں کیبل والے فہیم کو گولی ماری تھی کیونکہ وہ مزید بھتہ دینے سے انکاری تھا۔
یہ تو اب روج کی بات ہے صاحب جی پیسہ لوگوں کی جیب میں چھورا ہی نہیں تو پھر ڈکیتیاں اور بھتہ خوری ہی ہوگی نا،،،،
ایک بوڑھی اماں بولی،،،، پتہ نہیں کب حالات بدلیں گے؟
ہم نے تو ہر کسی کو ووٹ بھی دیکر دیکھ لیا مگر پہلے سے بھی زیادہ دکھی ہوگئے ہم تو،
ارے اماں،،،! باؤلی ہوئی ہے کیا؟
یہاں کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے۔، سارے حکمران اور اپوزیشن والے کرپٹ ہیں، یہاں تو بس ایک خمینی کی ضرورت ہے جو سب کو تیر کی طرح سیدھا کردے، یہ کہہ کر اس دبلے پتلے نوجوان نے سگریٹ کے دھویں کا ایک مرغولہ ہوا میں بکھیر دیا۔

ابے فومانچو کی اولاد،،،،!
خمینی نہ ہوا کوگڑ کاں (پہاڑی کوا) ہوگیا جو اڑتا ہوا آکر تمہاری منڈیر پر بیٹھ جائے گا اور چشم زدن میں تم لوگوں کے مسائل حل کرکے چلتا بنے گا۔ ابے نالائق،،،
اس دنیا میں جہاں بھی حالات بدلتے ہیں وہاں لوگوں نے خود ہمت کی اور اپنے مستقبل کے تحفظ کی خاطر قربانیوں کی لازوال مثالیں قائم کیں، تم جیسے نوجوان تو بس آئیڈیل ازم کا شکار ہیں کہ فلاں آجائے گا تو ایسا ہوجائے گا، ویسا ہوجائے گا، سب کچھ بدل جائے گا۔
ایک صاحب نے اس نوجوان کو ڈانٹتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

ایک مولانا صاحب بھی وہاں موجود تھے اس لیئے وہ کیوں پیچھے رہتے؟
انکا فرمانا تھا کہ یہ سب یہود و نصارا کی سازشیں تھیں جو اسلام کی بالا دستی سے خوف ذدہ ہیں اسی لیئے ہمارے ہاں فرقہ پرستی اور علاقائیت کو فروغ دے رہے ہیں۔

میں سوچ میں پڑ گیا کہ جب ڈاکو کا پسٹل میرے قدموں میں پڑا تھا تو میں اسے اٹھا کر اس نوجوان کی مدد کرسکتا تھا مگر میری بزدلی اور مصلحت پسندی آڑے آئی یا یہود و نصارا نے میرا ہاتھ روک لیا؟
کرپٹ حکمرانوں نے مجھے اس نوجوان کی مدد سے روکا یا پھر میرے اندر قوت مزاحمت کا ہی خاتمہ ہوچکا جو برائی کے خلاف لڑنے کی طاقت عطا کرتی ہے؟

یکا یک میری نگاہ چاچا کرمو کے ہاتھوں پر پڑی جو میرے لیئے مرغی نکالنے کے لیئے دڑبے میں ہاتھ ڈال رہا تھا، وہ مرغیاں جو آرام سے دانہ چگ رہی تھیں ان میں ایک ہلچل سی پدا ہوئی اور چاچا کرمو کا ہاتھ دڑبے سے باہر آیا جس میں 2 کلو کی ایک مرغی اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کررہے تھی، مگر چاچا کرمو نے اسے تکبیر پھیری اور نیلے رنگ کے ایک ڈرم میں تڑپنے کے لیئے چھوڑ دیا۔

چند منٹ کے بعد جب کومو چاچا میرے لیئے مرغ کے ٹکڑے کررہا تھا اس وقت میرے نگاہ ڈربے کی طرف اٹھی تو وہی مرغیاں جو کچھ دیر پہلے اپنی جان بچانے کےلیئے قیں قیں کررہی تھیں، بڑے آرام کے ساتھ سر جھکائے دانہ چگنے میں مصروف تھیں۔
تب مجھ پر یہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ ہم سب نے ان مرغیوں کی طرح اپنے اپنے حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا ہے اور اس بات پر خوش ہیں کہ ڈکیتی میں مارا جانے والا ہمارا کوئی پیارا یا پھر ہم خود نہیں تھے۔

یہ سوچتے سوچتے گھر کی جانب چلا ہی تھا کہ بازار کی فضا ایک مرتبہ پھر گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھی اور دکانداروں نے فوری طور پر دکانوں کے شٹر گرانے شروع کردئیے، بازار میں آئے ہوئے لوگ ساتھ کی گلیوں کی طرف بھاگ نکلے۔








مرزا جی کا کرایہ دار

بدھ، 27 نومبر، 2013


کل ہمارے دوست مرزا صاحب تشریف لائے تو انکی آنکھیں لال سرخ ہورہی تھیں اور چہرے پر غصے کے تاثرات یوں ثبت تھے جیسے کئی دہائیوں کا غصہ آج ہی نکالنے کے موڈ میں ہیں،

مراز ساحب کو دیکھتے ہی میں سمجھ جاتا ہوں کہ انکے ساتھ خیریت نہیں ہے اس لیئے انہیں ادھر ادھر کی باتوں میں لگا کر انہیں بہلانے کی کوشش کرتا ہوں، مگر آج تو مرزا ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے اور میری کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھے،

میں انہیں گھیر گھار کے سیاست کی طرف لایا تو وہ فوجی حکمرانوں پر برس پڑے، ایوب خان سے لیکر یحیٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے وہ لتے لیئے کہ میں تو ہکا بکا رہ گیا۔

باقی آمروں کے لیئے تو مرزا نرم گوشہ رکھتے ہی ہیں لیکن خاص طور پر ضیاء الحق کو تو ولی مانتے ہیں، اسی لیئے مجھے انکی اس کایا کلپ پر بڑی حیرت ہوئی۔ پہر حال چائے کا دور چلا اور اسکے بعد میں نے مرزا سے انکا مسئلہ دریافت کیا۔

جس پر انہوں نے فرمایا کہ تمہیں تو معلوم ہے کہ میں نے اوپر والی منزل کرائے پر دے رکھی ہے، شیخ صاحب نے پچھلے مہینے پورشن خالی کردیا تھا اب اسکی جگہ آنے والے نئے کرائے دار کے ہاتھوں مرزا بہت پریشان ہیں، نیا نیا لفٹین بنا ہے لیکن تمیز تو اسے چھو کے بھی نہیں گزری، ہر روز رات کو دیر سے گھر آتا ہے۔

گھر واپس آکر اپنے 30 کلو وزنی بوٹ اتارنے کے بعد باری باری دور کونے میں پھینک دیتا ہے جسکی وجہ سے چھت پر زوردار آواز پیدا ہوتی ہے اور میری آنکھ کھل
جاتی ہے، کوئی 2 گھنٹے کروٹیں بدلنے کے بعد دوبارہ نیند نصیب ہوتی ہے۔

کل میں نے ڈرتے ڈرے اس سے شکائت کی کہ بیٹا جب تم بوٹ پھینکتے ہو تو ہمارے آرام میں خلل پڑتا ہے اس لیئے اپنے بوٹ اتارنے کے بعد آرام سے کونے میں رکھ دیا کرو، جس پر اس نے بڑی معذرت کی لیکن رات کو دوبارہ اس نے یہی حرکت کرڈالی اور ایک بوٹ کو زوردار آواز سے پھینکا جس سے ہم جاگ گئے اور ساری رات اسی انتطار میں جاگتے رہے کہ کب یہ بد بخت دوسرا جوتا پھینکے اور ہم دوبارہ سونے کی کوشش کریں۔

آج صبح جاتے جاتے اس نے ہمارا دروازہ کھٹکٹایا اور مجھ سے دوبارہ معذرت کی کہ انکل رات میں نے ایک جوتا پھینکا تو مجھے یاد آیا کہ آپ میرے اس اقدام سے بے آرام ہوتے ہیں اس لیئے میں نے دوسرا جوتا بڑی احتیاط سے ایک کونے میں رکھ دیا تھا، امید ہے کہ اب تو آپ کو مجھ سے کوئی شکائت نہیں ہوگی۔

بلدیاتی انتخابات اور خدمتِ عوام

منگل، 12 نومبر، 2013


آج ایک صاحب کے ساتھ کاغذاتِ نامزدگی داخل کروانے کے لیئے سیشن کورٹ گوجرانوالہ گئے جہاں مجھے انکا تائید کنندہ بننا تھا،

سیشن کورٹ میں ''عوامی خدمت'' کا جذبہ رکھنے والوں کا ایک ہجوم تھا جو کاغذاتِ نامزدگی داخل کروانے کو بیتاب تھا، تب میں نے سوچا کہ ہزاروں کی تعداد میں آئے ہوئے یہ ''عوامی خدمت گار'' اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ پاکستان کے لوگ ابھی تک خدمت خلق کے جذبے سے عاری نہیں ہوئے، اور ہم جیسے لوگ فیس بک پر بیٹھ کر بلا وجہ ہی اس قوم کو بے حسی اور بے ضمیری کے طعنے دیتے رہتے ہیں۔ جب کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ''عملی'' طور پر عوام کی حجامت،،،،،
معاف کیجئیے، عوام کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر انتخابی دنگل میں کودنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔

سیشن کورٹ جا کر معلوم ہوا کہ ہمارے امیدوار کے تجویز کنندہ کا شناختی کارڈ گم ہوگیا،
خیر ،،،،! کسی اور صاحب سے انکا نام تجویز کروایا، اسکے بعد اگلا مرحلہ بیان حلفی کا تھا جو 20 روپے کے اسٹامپ پیپر پر لیا جانا تھا مگر وہ بلیک میں 100 روپے تک فروخت ہوتا رہا۔

ایک دن پہلے جمع کروائے جانے والے کاغذاتِ نامزدگی کو کینسل کرکے نئے کاغذات مہیا کیئے اور ایک دن پہلے بینک میں جمع کروائی جانے رقوم بھی ضائع قرار دے دی گئیں۔ اور امیدواروں سے نئے سرے سے الیکشن فیس وصول کی گئی۔

ریٹرننگ آفیسر کے دفتر میں پہلے لائن میں لگ کر خوب ذلیل و خوار ہونے کے بعد پیسے جمع کروائے اور پھر اسکے بعد ایک نئی قطار میں لگنے کے بعد کاغذاتِ نامزدگی داخل کروایے گئے۔

اتنا کشٹ اٹھانے کے بعد بھی مجھے تو یقین نہیں کہ الیکشن ہو جائیں گے،
بہر حال،

''ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق''

بھرم کی چوری

بدھ، 6 نومبر، 2013


پاکستان کے معروف کامیڈی اداکار منور ظریف کے بڑے بھائی ظریف مرحوم بھی ایک ورسٹائل فنکار تھے، اگرچہ انہوں نے بھی مزاحیہ اداکاری میں خوب نام کمایا لیکن وہ ہر قسم کے سنجیدہ اور حزنیہ کردار بھی اسی مہارت کے ساتھ ادا کرتے تھے۔

انہوں نے ایک پنجابی فلم (غالباً یکے والی) میں ایک لازوال کردار ادا کیا تھا جسے آج بھی لوگ ماما جی کی عدالت کے نام سے یاد کرتے ہیں، انکا یہ کردار فلموں سے نکل ہماری روزمرہ زندگیوں میں ایک محاورے کے طور پر آج بھی استعمال ہوتا اور ہمارے ارد گرد آج بھی ہمیں اکثر بیشتر ماما جی کی عدالتیں لگتی دکھائی دیتی ہیں۔

یہ کردار ایک ایسے شخص کا ہے جو ہر وقت سر پر چارپائی اٹھائے سارے گائوں میں گھومتا رہتا ہے اور جہاں کہیں کوئی تنازعہ یا پھڈا ہوتا، وہیں چارپائی بچھا کر اپنی عدالت لگا کر بیٹھ جاتاہے،

ایک روز اسی قسم کی ایک عدالت میں مقدمہ پیش ہوا جس میں ایک خاتون زاروقطار روتی ہوئی پیش ہوئی اور ماما جی کی عدالت سے انصاف کی طلبگار ہوئی،

یہ خاتون محلے میں بڑے طمطراق اور ٹھسے سے رہا کرتی تھی اور اسکے رکھ رکھائو سے اسکے مالی حالات بہت اچھے نہ سہی لیکن کافی بہتر دکھائی دیتے تھے، ماما جی نے اس خاتون سے ماجرا پوچھا تو وہ کہنے لگی کہ کل رات اسکے ہاں چوری ہوگئی ہے اور چور اسکے گھر کا صفایا کرکے چلے گئے ہیں،،

ماما جی نے چوری ہونے والے سامان کی تفصیل پوچھی تو اس خاتون اور زیادہ آہ و زاری شروع کردی اور سامان کی تفصیل کچھ یوں بتلائی۔
1: ٹوٹی ہوئی ایک چارپائی کا پایہ۔
2: مٹی کے تیل کی خالی بوتل
3: ایک عدد سرسوں کے تیل سے جلنے والا دیا،
اور مزید 2 تین اسی قسم کی اشیاء بتائیں کہ جو بالکل غیر اہم اور بے قیمت تھیں،، اس پر ماما جی نے کیا کہ بی بی یہ تو کچھ بھی چوری نہ ہوا پھر تم اتنا واویلا کیوں کررہی ہو؟

اس پر وہ خاتون اپنے آنسو پوچھتے ہوئے بولی،،
ماما جی! مجھے اپنی چوری کا کوئی غم نہیں لیکن آج میرا بنا بنایا بھرم چوری ہوگیا اور لوگوں کو پتہ چل گیا کہ میں تو انتہائی غریب ہوں جو محض جھوٹی شان کے سہارے زندہ تھی،،

ایسا ہی کچھ معاملہ ان سیاسی پارٹیوں کا لگتا ہے جنکے امیدواروں کو تقریباً ہر قومی حلقے میں بیس سے 25 ہزار کے قریب ووٹ ملے اور یہ ووٹ قومی اسمبلیوں کی نشست جیتنے کے لیئے قطعی طور پر ناکافی تھے، جبکہ جیتنے والے امیدواروں نے ہر حلقے میں کم از کم چالیس یا پچاس ہزار ووٹوں سے لیڈ حاصل کی، اس واضع شکست کے بعد ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ عوام کے فیصلے کے سامنے سر جھکا ریا جاتا لیکن اسکے باوجود انکے دھاندلی کا شور مچا دیا گیا، اس سے ایک ہی بات واضع ہوتی ہے کہ ان بیچاروں کا بھی ووٹ چوری ہوا ہو یا نہ ہوا ہو مگر انکا بھی بھرم ضرور چوری ہوگیا ہے۔

تبدیلی

جمعرات، 31 اکتوبر، 2013


الیکشن کا نقارہ بج گیا تو ہمارے علاقے کے وڈے زمیندار صاحب نے ایک مرتبہ پھر الیکشن میں کھڑے ہونے کا پروگرام بنایا۔

یہ علاقہ انکی جاگیر تھا اور یہاں کے رہنے والے زیادہ تر لوگ انکے جدی پشتی مزارعے تھے جو انکے خلاف ووٹ دینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ چناچہ انہیں یقین تھا انکے مقابلے میں اول تو کوئی کھڑا نہیں ہوگا اور اگر کسی نے اتنی ہمت کر بھی لی تو اسکی ضمانت تک ضبط ہو جائے گی کیونکہ انکے بغیر اس علاقے میں پتہ بھی نہیں کھڑکتا تھا۔

اس سے قبل بھی ہر مرتبہ جیت انہی کا مقدر بنی مگر یہ الگ بات کہ علاقے کے مکینوں کا مقدر کبھی بدل نہیں پایا، وہی بھوک اور ننگ کا عفریت، وہی علاج کے بغیر زندگی ہار دینے کا عذاب، شہروں کی طرف جانے والی پکی سڑکوں کا فقدان اور حصول علم کے کے لئے سکولوں کی عدم موجودگی ان لوگوں کی زندگی کا حصہ بنی رہی اور مستقبل میں بھی ان کے حالات بدلنے کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔

چوہدری صاحب کے گھر میں ڈش لگی ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ دنیا میں ہونے والے واقعات سے باخبر رہتے تھے، چونکہ انتخابات کا غلغلہ تھا اس لیئے تمام پارٹیاں وقت خرید کر ٹی وی چینلز پر خوب دیو مالائی قسم کے وعدے وعید کرنے میں مصروف تھیں ان میں سے ایک وعدہ سب پارٹیوں کا مشترکہ وعدہ تھا کہ اس مرتبہ تبدیلی لائی جائے گی اور نئے امید واروں کو مواقع دئیے جائیں گے،

چوہدری صاحب نے خوب غور و خوص کے بعد علاقے کے معززین کا ایک اجلاس اپنی حویلی میں طلب کرلیا۔
جب تمام مہمان اکٹھے ہو گئے تو چوہدری صاحب نے فرمایا کہ بھائیو،،،!
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ الیکشن کا زمانہ آگیا ہے اور مجھ پر علاقے کے غریب مزدوروں اور ہاریوں کا شدید دباؤ ہے کہ میں ایک مرتبہ پھر اس علاقے کے عوام کی ''خدمت'' کروں مگر میں چاہتا ہوں کہ اس مرتبہ کچھ تبدیلی لائی جائے اور میں خود الیکشن لڑنے کی بجائے آپ لوگوں کو دعوت دوں تاکہ آپ ایک متفقہ امیدوار چن کر مجھے بتا دیں تاکہ ہم سب اسکی حمائت کرکے اسے اسمبلی میں بھیج سکیں۔

تمام لوگوں نے چوہدری صاحب کے اس جذبے کو سراہا کہ اب وہ اپنی جگہ کسی اور کو موقع دینا چاہتے ہیں اور یہ انکے بڑے پن کی دلیل ہے ورنہ یہ تو انکی جیتی ہوئی سیٹ ہے۔ چنانچہ ایک نوجوان اٹھا اور کہنے لگا کہ میں اس مرتبہ الیکشن میں حصہ لینا چاہتا ہوں اور انشاء اللہ علاقے کے عوام اور چوہدری صاحب کے معیار پر پورا اترنے کی کوشش کروں گا کیونکہ میں نے معاشیات اور سوشل سٹڈیز میں ایم اے کیا ہوا ہے۔

یہ سن کر وڈے چوہدری صاحب کا ایک گن مین آگے بڑھا اور اس نوجوان کو گریبان سے پکڑ کر بولا،،، اوئے وڈے پڑھاکو،،، تمہیں اتنی تمیز بھی نہیں ہے کہ یہاں تم سے بڑے اور عمر رسیدہ لوگ بھی بیٹھے ہیں اور انکی رائے سنے بغیر اپنی ہانکے چلے جارہے ہو؟
تم تو ابھی سے بزرگوں کو نظر انداز کررہے تو کل الیکشن جیت کر تم سے کیا امید رکھی جاسکتی ہے؟
اتنی بے عزتی کے بعد یہ نوجوان شرمندہ سا ہو کر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔

اسکے بعد ایک بابا جی اٹھے اور کہنے لگے کہ یہ بالکل درست ہے کہ الیکشن لڑنا تجربہ کار اور سن رسیدہ لوگوں کو ہی زیب دیتا ہے جنہوں نے زمانے کا سرد و گرم دیکھ رکھا ہو،
اس مرتبہ وڈے چوہدری صاحب کا دوسرے گن مین نے اپنا نمک حلال کیا اور بزرگ کا مخاطب کرکے بولا،
او بابا جی،،،، تم سے اپنی ٹانگوں پر تو کھڑا ہوا نہیں جارہا اور چلے ہو الیکشن لڑنے؟
یہ کام تمہارے بس کا نہیں ہے بلکہ کوئی ایسا بندہ تلاش کرو جس نے دنیا دیکھ رکھی ہو تاکہ لوگوں کے مسائل چٹکی بجاتے حل ہو جائیں۔

اب ایک ادھیڑ عمر کا چھوٹا زمیندار کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میں نے دنیا کے بہت سے ملکوں کا دورہ کیا ہے آپ نے دیکھا بھی ہوگا کہ میں کس طرح کھیتی باڑی میں جدید مشینیں اور ادویات کے علاوہ ولائتی طریقے استعمال کرکے آپ لوگوں سے فی ایکڑ دو گنا زیادہ پیداوار حاصل کرتا ہوں۔ اگر مجھے اسمبلی میں جانے کا موقع مل جائے تو میں اپنے تجربے سے عوام الناس کو بھی فائدہ پہنچاؤں گا۔

اس مرتبہ وڈے چوہدری کا تیسرا گن مین حرکت میں آیا اور بولا،
رہنے دے چاچا حمید، ہم نے دیکھا ہے تمہارا باہر کا تجربہ، جب سے تم پاکستان واپس آئے ہو ہمارے علاقے میں بغاوت پھیل رہی ہے نوجوان بڑی بڑی باتیں کرنے لگے ہیں، حقوق و فرائض کے قصے سنانے شروع کردئیے ہیں، نہ بڑوں کا لحاظ اور نہ چھوٹوں کی پرواہ،،،
تمہاری وجہ سے ہمارے علاقے کے نوجوانوں کا اخلاق تباہ ہورہا ہے، ہر کسی کو برابری کے سبق پڑھاتے پھرتے ہو، اگر تم جیت گئے تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے اس لیئے تم تو ہمیں معاف ہی رکھو۔ ہم نے اپنی نسل کا مسستقبل تباہ نہیں کروانا۔

اس عزت افزائی کے بعد اگر کسی کا الیکشن لڑنے کا ارادہ تھا بھی تو اس نے توبہ کرلی اور سب لوگ خاموش ہو کر بیٹھ گئے، وڈے چوہدری صاحب نے کھڑے ہوکر کہا کہ بھائیو ایک مرتبہ پھر سوچ سمجھ کر کوئی متفقہ امیدوار چن لو مگر کسی کو جرآت نہیں ہوئی۔

چنانچہ چوہدری صاحب نے فرمایا کہ اگر آپ لوگ الیکشن لڑنا نہیں چاہتے تو پھر مجبوراً مجھے تو میدان میں اترنا ہی ہوگا کیونکہ شمالی پنڈ کے ملکوں کے لیئے میدان تو کھلا نہیں چھوڑ سکتے،
اور پھر تبدیلی نہ سہی، جمہوریت بھی تو کسی چیز کا نام ہے نا،،،،!


دو ٹکے کے لوگ؟؟؟

منگل، 29 اکتوبر، 2013



لوگوں نے ایک امیدوار کو بتایا کہ فلاں گائوں میں آپکے مخالف امیدوار نے غریب کمیوں سے خطاب کرتے ہوئے آپ پر الزام لگایا ہے کہ آپ انتہائی مغرور انسان ہیں اس لیئے ان کمیوں سے ووٹ تک مانکنے نہیں آتے،

یہ سن کر وہ امیدوار غصے میں آگیا اور اپنے سپورٹرز سے کہا اسی گائوں میں ایک جلسہ ارینج کیا جائے تاکہ وہ ان غریبوں سے خطاب فرما سکیں،

انکے حکم کی تعمیل ہوئی اور جسلہ شروع ہوگیا،، مختلف لوگ اپنی اپنی تقریریں کرکے سٹیج سے اتر گئے تو آخر میں اس امیدوار نے اپنی تقریر شروع کرتے ہوئے فرمایا؛

میری بہنو،،،! بھائیو،،،! اور بزرگو،،،،!

کل یہاں ہمارا مخالف امیدوار میری کردار کشی کرکے گیا ہے، بھلا آپ خود ہی بتائیے کہ اگر میں مغرور ہوتا تو آپ جیسے 2 ٹکے کے لوگوں سے ووٹ مانگنے آتا؟؟؟؟؟؟

لو جی کرلو گل،،،،،،،،،،،

مراثی اور پارٹی ٹکٹ


گائوں کے مراثیوں کا لڑکا ایم آئی ٹی کرکے ایک ادارے میں بہت ہی اچھی جاب پر لگ گیا تو انہیں بیٹے کی شادی کی فکر ہوئی
گھر والوں نے اپنی برادری میں رشتوں کی تلاش شروع کی تو دن میں تارے نظر آگئے، کیونکہ انکے لڑکے کے مقابلے میں نہ تو کوئی پڑھی لکھی لڑکی دستیاب تھی اور نہ ہی انکے ؛سٹیٹس؛ کے مطابق کوئی خاندان۔

لڑکے سے پوچھا گیا تو اس نے والدین کو مشورہ دیا کہ گائوں کے چوہدری صاحب کی بیٹی رضیہ کےلیئے اسکا رشتہ ڈالا جائے۔ گھر والوں نے سمجھایا کہ بیٹا وہ چوہدری لوگ ہیں اور ہم انکے کمی کمین ہیں، وہ ہمیں رشتہ دینے کی بجائے الٹا ذلیل کرکے واپس کردیں گے، مگر لڑکے کی ایک ہی ضد تھی کہ ہمارے پاس کس چیز کی کمی ہے؟،،، گھر بھی پکا بنوالیا ہے اور اب تو ہمارے پاس گاڑی بھی ہے، میں پڑھا لکھا بھی ہوں اس لیئے چوہدری صاحب کے لیئے تو یہ اعزاز کی بات ہوگی۔۔

قصہ مختصر لڑکے کے والدین رشتہ لیکر چوہدری صاحب کے گھر چلے گئے، بات سنتے ہی چوہدری صاحب آگ بگولا ہوگئے کہ تمہیں جرآت کیسے ہوئی ہماری بیٹی کا رشتہ لانے کی،

چوہدری صاحب نے اپنے کاموں کو آواز دی اور مراثی کو مرغا بنا کر اسکی خاطر خواہ چھترول کی گئی،،، خوب مار کھانے کے بعد جب انہیں گھر جانے کی اجازت ملی تو مراثی کھڑا ہو کر چوہدری صاحب سے کہنے لگا،،،،

چوہدری صاحب پھر رشتے سے انکار ہی سمجھیں؟؟؟

دراصل آجکل ہمارے امیدواروں کا بھی یہی حال ہے،، خاص طور پر پی ٹی آئی میں شامل ہونے والوں کا خیال تھا کہ اب ٹکٹ عام لوگوں کو ملیں گے مگر انکی ایسی ہی چھترول ہوئی جیسی چوہدری صاحب نے مراثی کے ساتھ فرمائی،،،

موت کا نوٹیفکیشن

اتوار، 27 اکتوبر، 2013


میں نے کہا سنتے ہیں،،،،!
شکیل کی بیوی نے اسے موٹر سائیکل باہر نکالتے ہوئے دیکھ کر کہا، آج یاد سے لون اپلائی کر دیجئیے گا کیونکہ کل رضیہ کے سسرال والے آئے تھے اور جلد از جلد شادی پر زور دے رہے تھے، ہمارے وسائل اتنے نہیں اس لیئے بینک سے لون لے کر ہم رضیہ کی شادی کردیں گے اور لون کی رقم تنخواہ میں سے آہستہ آہستہ کٹوا کر اس قرضے سے نجات حاصل کرلیں گے۔

شکیل یو بی ایل کی برانچ میں گریڈ تھری کا آفیسر تھا جس کی تنخواہ اتنی ضرور تھی کہ اس نے اپنے بچوں کو معیاری تعلیم بھی دلوائی اور اسکا رہن سہن بھی عام مڈل کلاس فیملیوں کی نسبت بہتر تھا۔

یہ 13 اکتوبر 1997 کا ایک منحوس دن تھا جب شکیل اپنی بیٹی کی شادی کے لون اپلائی کرنے کا فیصلہ کرکے بینک میں پہنچا مگر وہاں کا تو منظر ہی کچھ اور تھا، مینجر نے اسے اپنے کمرے میں بلا کر جبری گولڈن شیک ہینڈ کا نوٹس تھمایا اور اسی وقت ملازمت سے فراغت کی نوید بھی سنا دی،

نہ کوئی وکیل اور نہ ہی دلیل، بس ایک نادر شاہی حکمنامہ جاری ہوا اور 5416 سے زیادہ ملازمین کو 4 گھنٹے کی قلیل مدت میں نوکریوں سے فارغ کردیا گیا۔ ایسا ظلم اور ناانصافی صرف پاکستان جیسے ملک میں ہی ممکن تھی جہاں پر خدا کا نام تو لیا جاتا ہے لیکن تمام اقدامات شیطان کی پیروی میں کیئے جاتے ہیں۔

جب شکیل کے سامنے یہ نوٹس رکھا گیا تو اسکی آنکھوں کے سامنے دنیا تاریک ہوگئی، زمین اور آسمان گھومنے لگے اور وہ بے دم ہوکر مینجر کے آفس میں ہی ڈھیر ہوگیا۔ اسے فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا مگر اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔ اسکی بیوی کو جب اسکی موت کی خبر دی گئی تو وہ بھی بے ہوش ہوگئی ، چند گھنٹوں کے بعد ہوش آیا تو اسکے جسم کا دایاں حصہ مفلوج ہوچکا تھا۔

شکیل کے دونوں بیٹے تلاش روزگار میں بیرون ملک چلے گئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ انہوں نے وہیں شادیاں رچا لیں اور پھر پلٹ کر اپنی ماں اور بہن کو پوچھا تک نہیں۔ رضیہ کے سسرال والوں نے اسی وقت رشتہ توڑ دیا تھا جب انہیں محسوس ہوا کہ اب جہیز کے نام پر ایک تنکا بھی ملنے والا نہیں۔ وہ آج بھی اپنی ماں کی دیکھ بھال کر رہی ہے اور نہ جانے کب تک کرتی رہے گی؟

یہ کسی ایک شکیل کی کہانی نہیں ہے بلکہ اس روز 4 گھنٹے کے اس قیامت خیز ظلم اور جبر کے دوران یو بی ایل کے 50 سے زیادہ ملازمین کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ اپنی جان کی بازی ہار گئے اور ایسا صرف اور صرف طمع نفسانی کی خاطر کیا گیا تاکہ ملازمین کی تعداد کم کرکے ادارے کے منافع کو کئی گنا بڑھایا جائے اور پھر اس ظالمانہ کاروائی کے بعد یو بی ایل کو پرائیویٹ کمپنی کی تحویل میں دے دیا گیا۔

5400 سے زیادہ فیملیوں کا معاشی طور پر قتلِ عام ہوا، 5400 سے زیادہ الم ناک کہانیاں تخلیق کی گئیں مگر نہ تو زمین ہلی اور نہ ہی آسمان ٹوٹا۔ ساڑھے پانچ ہزار گھرانے اس پاک سرزمین پر بے روزگار اور بے آسرا ہوگئے مگر عدل و انصاف کے ایوانوں میں کوئی زلزلہ نہیں آیا، اب مزید 31 ادارے پرائیویٹائز کرنے کی ''خوشخبری'' سنائی جارہی ہے ، پاکستانی عوام سے اپیل ہے کہ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور قومی اثاثوں کی تجارت کرنے والوں کا محاسبہ کریں۔

آج جبکہ اس بات کو 16 سال گز چکے ہیں، اس بینک کے متاثرہ ملازمین ہر دروازہ کھٹکھٹانے کے باوجود انصاف سے محروم چلے آرہے ہیں۔ کیا جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب ان پر خصوصی شفقت فرمائیں گے؟

آڈٹ

جمعرات، 24 اکتوبر، 2013


پچھلے تین ماہ میں فواد کا چوتھا اسپیشل آڈٹ ہورہا تھا جسکی وجہ سے وہ نہ صرف ڈسٹرب تھا بلکہ اچھا خاصہ غصے میں بھی دکھائی دے رہا تھا۔ روٹین کے آڈٹ سے تو تمام ملازمین واقف ہیں اور اسے کوئی خاص اہمیت بھی نہیں دی جاتی مگر جب اسپیشل آڈٹ ہو رہا ہو تو پھر جس سیٹ کا آڈٹ ہورہا ہو اسکی پوزیشن اپنے ساتھی کارکنوں میں اچھی خاصی نازک ہو جاتی ہے اور یہی وجہ تھی کہ شرمندگی کے شدید ترین احساس سے اسکی نظریں جھکی جا رہی تھیں۔


فواد ایک بہت بڑے سپر سٹور میں بطور کیشئیر ملازم تھا جہاں اچھی خاصی سیل ہوا کرتی تھی مگر ملازمین کی تنخواہیں بس ایسی ہی تھیں کہ جسم و جان کا ناطہ ٹوٹنے نہ پائے۔ ایک حد تک آسودگی تھی کہ چلو بے روزگاری کا عذاب تو ان پر مسلط نہیں تھا جو آج کے 95٪ ڈگری ہولڈرز کا مقدر بن چکا ہے۔

پچھلے کچھ عرصہ سے گمنام خطوط کے ذریعے مالکان تک متواتر اسکی شکایات پہنچ رہی تھیں جن کے مطابق فواد کافی عرصہ سے سٹور میں غبن کا مرتکب ہورہا تھا اور بڑی چالاکی کے ساتھ اپنے جرم کو چھپانے میں کامیاب تھا۔ پہلے پہل تو مالکان نے ان خطوط کو اہمیت نہیں دی مگر کب تک؟
آخر کار آڈٹ ٹیم بھجوئی گئی جس نے واپسی پر یہ رپورٹ دی کی تمام شکایات سرے سے غلط ہیں اور فواد ایک ایماندار اور محنتی انسان ہے۔

خطوط تھے کہ متواتر چلے آرہے تھے جن میں مالکان کو متنبہ کیا گیا تھا کہ اگر انہوں نے ہوش کے ناخن نہ لیئے تو ایک دن فواد سٹور کو لوٹ کر کنگال کردے گا۔ اس شخص کی تعلیمی قابلیت بھی اس سٹور میں کام کرنے والوں سے زیادہ ہے چناجہ وہ اکاؤنٹس میں گڑبڑ کرنے کے تمام طور طریقوں سے واقفیت رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنا دھندہ نہائت ہی کامیابی سے جاری رکھا ہوا ہے ، اپنی اسی صلاحیت کے بل بوتے پر اس نے آڈٹ ٹیم کو بھی کامیابی کے ساتھ بے وقوف بنایا ہے۔

اب تو مالکان کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے اور انہوں نے اوپر تلے مزید تین آڈٹ ٹیمیں روانہ کیں مگر تینوں نے ایک ہی جواب لکھا کہ یہ شخص انتہائی ایماندار اور اپنے کام سے کام رکھنے والا شخص ہے، اسکی تعلیمی قابلیت بھی سب سے زیادہ ہے اور اور اسکا اکیڈمک ریکارڈ بھی انتہائی شاندار ہے۔ اس پر لگائے گئے تمام الزامات بے بنیاد ہیں اور لگتا ہے کہ اسکا کوئی ساتھی ملازم اس سے جیلس ہے ورنہ فواد انتہائی کام کا بندہ ہے۔

سپر سٹور کے تینوں مالکان کانفرنس روم میں بیٹھے تھے اور فواد انکے سامنے موجود تھا،
ہاں بھئی فواد کیا بات ہے؟
سر یہ میرا استعفیٰ ہے اور میں اب میں مزید آپکی ملازمت نہیں کرسکتا۔
مگر کیوں؟
دیکھیں سر، میں نے آپکے ادارے میں 10 سال تک پوری ایمانداری اور محنت سے کام کیا، اس دوران مجھے ایک دو جگہ سے اچھی آفرز بھی ملیں مگر میں نے اس ادارے کو چھوڑ کے جانا مناسب نہیں سمجھا جس نے مجھے اس وقت ملازمت دی جب میرے گھر میں بھوک اور افلاس نے ڈیرے ڈال دئیے تھے مگر سر، اب یہ ممکن نہیں رہا، میری بیوی ہے، بچے ہیں ، اسکے علاوہ شہر میں بہت سے لوگ مجھے جانتے ہیں۔ آج میری ایمانداری پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں، میں اپنے ساتھی ورکرز کے ساتھ بیٹھ کر کام نہیں کرسکتا سر،،
امید ہے کہ آپ میرا مسئلہ سمجھ جائیں گے۔

! چند لمحے توقف کے بعد سٹور کا مینجنگ ڈائریکٹر بولا
مسٹر فواد آپکے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ محض ایک غلط فہمی کا نتیجہ تھا لیکن پھر بھی ہم اس بات پر اپنے آپ کو قصور وار سمجھتے ہیں اور آپ جیسے محنتی اور ایماندار انسان کو کھونا نہیں چاہتے۔ آپ کی ذات پر جو دھبہ لگا ہے اسے صاف کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے اس لیئے ہم آج سے آپ کو اسی سٹور کا جنرل مینجر بنا رہے ہیں، آپ کی تنخواہ 30 ہزار سے بڑھ کر ڈیڑھ لاکھ روپے ہوجائے گی اور اسکے ساتھ ہی کوٹھی اور کار کمپنی کی طرف سے ملے گی جسکا پٹرول کا خرچہ بھی کمپنی کے ذمہ ہوگا۔

میں نے گھر میں داخل ہوتے ہی زور دار نعرہ لگایا اور اپنی بیوی کو بتایا کہ میں اپنی ایمانداری اور محنت کی بدولت آج سٹور کا جنرل مینجر بن گیا ہوں۔
اب رہنے بھی دو ،،،،
ایمانداری اور محنت تو محض ایک ڈھکوسلہ ہے، اگر میں تمہاری کمپنی کے مالکان کو گمنام خطوط نہ لکھتی تو انہیں کبھی علم نہ ہوپاتا کہ انکی کمپنی میں کوئی فواد نام کا ''ایمان دار'' کیشیئر بھی کام کرتا ہے۔

میں حیران ہو کر اپنی بیوی کی طرف دیکھنے لگا،
سچ ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔







بہکاوہ

ہفتہ، 19 اکتوبر، 2013



پرانے زمانے کی بات ہے کہ دو بزرگ کہیں جا رہے تھے۔ یہ کوئی درویش قسم کے بزرگ تھے جو راہ چلتے ہوئے آپس میں بات چیت کرنے کی بجائے ذکر و اذکار کرتے ہوئے چلتے جاتے تھے۔

ایک دن کسی دریا کے کنارے پہنچے اور اسے پار کرنے کی تیاری کرنے لگے کیونکہ انکی منزل ابھی دریا کے پار خاصی دور تھی۔ ایسے میں ایک خوبصورت لڑکی نمودار ہوئی اور ان درویشوں سے کہنے لگی کہ اے اللہ کے نیک بندو،
میرا گاؤں اس دریا کے پار ہے، آج صبح میں اپنے بچے کی دوا لینے کے لیئے حکیم کے پاس آئی جو ایک قریبی گاؤں میں رہتا ہے۔

آج صبح تک تو دریا بالکل خشک تھا، مگر جب دوا لیکر واپس آئی ہوں تو دریا میں پانی چڑھ آیا ہے، مجھے تیرنا نہیں آتا اس لیئے میری مدد کیجئیے اور دریا کے اس پار اتار دیجئیے اللہ آپ کا بھلا کرے گا۔ یہ کہہ کر اس عورت کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

دونوں درویشوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب کیا کریں؟
ایک درویش نے تو صاف انکار کردیا کہ یہ ایک غیر محرم عورت ہے اور میں اسکے بدن کو ہرگز ہاتھ نہیں لگاؤں گا جبکہ دوسرے بزرگ نے اسے نیکی کا کام سمجھ کرعورت کو گود میں اٹھایا اور دریا کے اس پار اتار دیا۔

اس بات کو کئی برس بیت گئے دونوں درویش بھی اس دوران بجھڑ چکے تھے کہ بالآخر ایک دن ان دونوں درویشوں کا دوبارہ آمنا سامنا ہوگیا، ایک دوسرے کا حال احوال پوچھنے کے بعد پہلے درویش نے پوچھا کہ ایک اللہ کے نیک بندے،
جس روز تم نے اس عورت کو اپنی گود میں اٹھا کر دریا کے پار اتارا تھا تو کیا شیطان نے تمہیں بہکانے کی کوشش نہیں کی تھی؟

دوسرے بزرگ نے سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا،
میں نے تو اسی روز اس عورت کو اپنی گود سے اتار دیا تھا مگر افسوس کہ تم ابھی تک اسے اٹھائے پھرتے ہو۔

انصاف

جمعہ، 18 اکتوبر، 2013



پرانے وقتوں کی بات ہے کہ حسن نامی ایک تاجر نے ایک جوہری کے پاس ایک برتن امانت رکھوایا اور کہا کہ اس میں شہد ہے ۔ برتن میں اوپر اور نیچے کی تہہ میں تو شہد تھا لیکن درمیان میں ایک تہہ تھی جس میں اشرفیاں بھری ہوئی تھی لیکن حسن نے جوہری کو اشرفیوں کے بارے میں نہ بتایا اور شہد کا کہہ کر اپنی امانت کچھ عرصہ کے لیے رکھوائی اور دور دراز کے سفر پر چلا گیا
بہت عرصے بعد جب وہ واپس آیا تو جوہری سے اپنی امانت واپس لینے گیا جوہری نے اسکی امانت اسے واپس لٹا دی اور وہ برتن اسی طرح بند تھا جس طرح حسن نے جوہری کو دیا تھا۔ حسن نے جوہری کا شکریہ ادا کیا اور اپنی امانت لے کر گھر آگیا ۔ لیکن گھر آکر جب اس نے برتن کھولا تو اس میں سے صرف شہد نکلا اور درمیانی تہہ میں رکھی ہوئی اشرفیاں غائب تھی وہ بہت پریشان ہوا اور جوہری کے پاس گیا لیکن جوہری نے اسکی بات ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ تم نے میرے پاس صرف شہد امانت رکھوایا تھا جو میں نے تمہیں واپس کردیا اگر اس کے اندر اشرفیاں بھی تھیں تو تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں
اب تو حسن اور بھی پریشان ہوا اور اپنا مقدمہ لے کر کوتوال کے پاس گیا کوتوال نے جوہری کو بلایا لیکن جوہری نے وہاں بھی وہی بات کی کہ اس نے میرے پاس شہد ہی رکھوایا تھا جو میں نے اسے واپس کردیا ۔ کوتوال بھی یہ بات سن کر چپ کرگیا کیوں کہ جوہری کی بات ٹھیک تھی لیکن اسے محسوس ہورہا تھا کہ حسن جھوٹا نہیں ہے چنانچہ وہ ان دونوں کا مقدمہ قاضی صاحب کے پاس لے گیا لیکن قاضی صاحب بھی اس مقدمے کا کوئی فیصلہ نہ کرسکے ۔آخر کار بات خلیفہ تک پہنچ گئی ۔ خلیفہ نے بھی ساری بات سننے کے بعد جوہری کے حق میں فیصلہ دے دیا کہ جوہری ٹھیک کہہ رہا ہے اگر برتن میں اشرفیاں تھیں تو حسن کو بتانا چاہیے تھا ۔ اس نے شہد امانت رکھوایا تھا جو اسے مل گیا ، حسن افسردہ ہو کر خلیفہ کے دربار سے چلا گیا ۔ سب کو پتہ تھا کہ حسن سچا ہے لیکن وہ اس عجیب و غریب مقدمے کا فیصلہ کرنے سے قاصر تھے
کچھ دن گزرے کہ خلیفہ بھیس بدل کر اپنی عادت کے مطابق شہر کا جائزہ لینے نکل گیا۔

ایک جگہ اس نے کچھ بچے کھیلتے دیکھے جن میں سے ایک خلیفہ بنا ہوا تھا ، ایک جوہری اور ایک حسن ۔ اور وہ اسی مقدمے کے بارے میں بات کررہے تھے ۔ خلیفہ رک کر دیکھنے لگ گیا ۔ حسن نے اپنا مقدمہ پیش کیا جوہری نے ماننے سے انکار کردیا تو خلیفہ بنے بچے نے کہا کہ شاہی حکیم کو بلایا جائے ایک بچہ شاہی حکیم کے روپ میں آیا ، خلیفہ بنے بچے نے اس سے کہا کہ اس شہد کو چکھ کر بتاؤ کہ یہ کتنا پرانا ہے ۔ شاہی طبیب نے چکھنے کے بعد کہا کہ یہ شہد تازہ ہے یعنی زیادہ عرصہ پرانا نہیں ہے ۔ خلیفہ بنے بچے نے جوہری بنے بچے سے کہا کہ تم نے اس کا برتن کھولا تھا اور شہد نکالا تھا ، اب یا تو تم اس کی اشرفیاں واپس کردو یا پھر سزا کے لیے تیار ہوجاؤ ۔

خلیفہ یہ واقعہ دیکھ کر بہت خوش ہوا اور واپس اپنے دربار میں جاکر جوہری اور حسن کو طلب کیا اور اسی طرح سے شاہی طبیب کو بلا کر شہد چکھنے کا کہا تو شاہی طبیب نے بتایا کہ شہد تازہ ہے ، خلیفہ نے نے جوہری کو کہا کہ یا تو اشرفیاں واپس کردو یا پھر سزا کے لیے تیار ہو جاؤ کیوں نے تم نے اس کا برتن کھول کر شہد نکالا تھا اور اس کے ساتھ اشرفیاں بھی نکال لی تھی
جوہری نے تسلیم کرلیا اور حسن کی اشرفیاں واپس کردی ، یوں ایک بچے کی ذہانت سے ایک مشکل مقدمے کا فیصلہ ہوگیا۔
مبرم آفاق

بڑھاپا


مرزا صاحب میرے ہاں تشریف لائے تو ہمیشہ کی طرح ان کے چہرے پر بارہ بج رہے تھے، بارہ نہ بھی بج رہے ہوتے تب بھی میں جانتا ہوں کہ مرزا صاحب میرے پاس اسی وقت تشریف لاتے ہیں جب بدقسمتی سے انکا کوئی مسئلہ انکے لیئے عذاب جاں بن چکا ہو، ان کی مزید بدقسمتی کہ اپنے مسائل پر مشورہ کے لیئے مجھ سے زیادہ ''سیانا'' بندہ دستیاب نہیں۔

کچھ دیر تک علاقائی اور ملکی سیاست پر بات چیت ہوئی اور پھر مہنگائی سے ہوتے ہوئے امریکی شٹ ڈاؤن تک پہنچ گئی۔ میں نے کچھ دیر تو انتظار کیا کہ مرزا صاحب اپنی پریشانی کے بارے میں کچھ بتائیں مگر جب انہوں نے تین کپ چائے پینے اور ایک عدد میڈیم پیزا پھڑکانے کے باوجود زبان نہیں کھولی تو بالآخر میں نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ مرزا صاحب خیر تو ہے نا؟

ہاں یار،
خیریت ہے بھی اور نہیں بھی، درحقیقت تمہاری بھابی کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگتی اور میں اسی لیئے پریشان ہوں۔
کسی ڈاکٹر کو چیک کروانا تھا بھابی کو،
نہیں یار،،،!
وہ بظاہر تو بالکل ٹھیک ٹھاک لگتی ہے اس لیئے ڈاکٹر کا نام سنتے ہی بدک جائے گی، تم کوئی اور نسخہ بتاؤ، دراصل اسے کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے۔

نفسیاتی مسئلہ؟
تمہارا مطلب ہے کہ بھابی کا دماغ چل گیا ہے؟
ارے مرزا،،،!
تمہیں تو خوش ہونا چاہئیے، میرے یار تم کتنے خوش نصیب انسان ہو، مجھے تو تمہاری خوش نصیبی پر رشک آنے لگا ہے۔

مرزا غصے سے بولا،
ایک تو تم پوری بات نہیں سنتے اور اوپر سے انٹ شنٹ بولنے لگتے ہو، وہ پاگل نہیں ہوئی بلکہ اسکی حرکتیں مجھے پاگل کردیں گی اسی لیئے میں تمہارے پاس آیا ہوں کی اسکا کیا حل نکالیں۔

تمہیں تو معلوم ہے کہ اگر میں نے کہیں جانا ہوتا تھا تو پوری انوسٹیگیشن ہوا کرتی تھی کہ،
کہاں جارہے ہو؟
کیوں جارہے ہو؟
ساتھ کون کون جارہا ہے؟
واپس کب تک ہوگی؟
وغیرہ وغیرہ۔

مگر آج کل سب کچھ الٹ ہوگیا ہے۔
اب وہ مجھ پر بال برابر شک نہیں کرتی بلکہ اندھا اعتماد کرنے لگی ہے، اسی وجہ سے میں پریشان ہوں کہ آخر ہوا کیا ہے؟
اس کایا کلپ کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟

یہ سن کر میری ہنسی چھوٹ گئی،
مرزا صاحب ناراض ہوکر چلائے، میں سخت پریشان ہوں اور تو بتیسی کی نمائش کررہا ہے؟
شرم آنی چاہئیے تمہیں، تم دوست نہیں بلکہ دوستی کے نام پر ایک دھبہ ہو،

میں نے بڑی مشکل سے اپنا ''ہاسا'' روکا اور مرزا صاحب کو بتایا کہ جب بیوی اپنے شوہر پر اندھا اعتماد کرنے لگے تو شوہر کو جان لینا چاہئیے کہ وہ بوڑھا ہوچکا ہے۔

یہ سن کر مرزا مجھے کھا جانے والی نظروں سے گھورنے لگا۔

گدھے کی قربانی ؟؟؟

منگل، 15 اکتوبر، 2013


بکرے والا بھی کسی ڈھیٹ ہڈی کا بنا ہوا دکھائی دیتا تھا، 25 ہزار روپے مانگے اور پھر اسی پر اڑ گیا، گو کہ بکرا 20 ہزار تک مل جاتا تو مناسب تھا مگر بکرے کا مالک بھی ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں تھا،

تنگ آکر میں نے اس سے پوچھا، کہ تم گھر سے قسم کھا کر آئے ہو کہ 25 سے کم پر نہیں بیچنا؟

میری بات سن کر اسکی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور پھر گلوگیر آواز میں کہنے لگا،
صاحب،،،! آپ کو کیا پتہ کہ مجبوری کس بری بلا کا نام ہے؟
یہ بکرا میں نے بڑے چاؤ سے پالا تھا کہ اس عید پر قربانی دوں گا مگر قدرت کو شائد ہم غریبوں کی قربانی کی ضرورت ہی نہیں ہے،
بہر حال چھوڑیں اس بات کو اور 25 ہزار دیتے ہو تو بکرا لے جائیں، اس سے کم پر میں اسے نہیں بیچ سکتا کیونکہ یہ میری مجبوری ہے۔

آپ تو جانتے ہیں کہ میں فیس بک پر کہانیاں اور آرٹیکلز لکھتا رہتا ہوں اس لیئے مجھے اسکی کہانی میں تھوڑا س تجسس ہوا، چنانچہ میں نے اس سے کہا کہ وہ مجھے اپنی مجبوری کے بارے میں بتائے۔

اس کا کہنا تھا کہ وہ ایک غریب آدمی ہے اور سارا دن شہر میں گدھا گاڑی پر لوگوں کا سامان ڈھوتا ہے جس سے گھر کا خرچ جلاتا ہے، لیکن چند دن پہلے اسکے گدھے کو سانپ نے کاٹ لیا اور وہ مر گیا، تب سے اسکے گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑا ہوا ہے، آج نہ چاہتے ہوئے بھی اس بکرے کو منڈی میں لے آیا ہوں تاکہ اسے بیچ کر گدھا خرید لوں تاکہ میرے بیوی بچے بھوک کے عذاب سے تو باہر نکلیں۔
وہ دیکھئیے سامنے ہی ایک بندے کے پاس گدھا ہے جو 25 ہزار روپے میں بیچ رہا ہے، مگر میرے بکرے کا مول 20 ہزار سے زیادہ نہیں مل رہا، اگر آپ اسے کم پیسے لینے پر قائل کرلیں تو میرا کام بنا جائے گا،

میں چند قدم چلنے کے بعد گدے والے کے پاس گیا اور اسے اخلاقیات پر ایک لمبا چوڑا جذباتی قسم کا لیکچر پلایا جو اس کمبخت نے پی تو لیا لیکن اسکا اثر قبول نہیں کیا،
بہر حال سودے بازی کرتے کرتے ہم نے اسے 22 ہزار میں گدھا بیچنے پر راضی کرلیا اور سوچا کہ ہمیں بکرا 22 ہزار میں پڑ گیا ہے،، چنانچہ جلدی جلدی گدھے والے کو 22 ہزار روپے ادا کئیے اور وہاں بہنچ گئے جہاں بکرے والا موجود تھا، مگر تلاش بسیار کے باوجود بکرے والا نہ ملنا تھا اور نہ ملا،

ہم نے واپس گدھے والے کو تلاش کرنا چاہا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوچکا ہے، تب ہمیں معلوم ہوا کہ یہ ایک ہی گروہ تھا جس نے بڑی کامیابی کے ساتھ 10 ہزار والا گدھا ہمارے ہاتھ 22 ہزار میں بیچ دیا ہے،

معزز قارئیں،،،!
مجھے یہ بتایا جائے کہ کیا اس گدھے کی قربانی جائز ہے؟
کیونکہ ہمارے پاس بھی اور پیسے نہیں کہ ایک عدد بکرا مزید خرید سکیں اور گدھے بیچنے کا ہمیں کوئی تجربہ نہیں۔۔

کوئی ہے جو گدھا فروخت کرنے میں ہماری مدد کرسکے؟

بکروں کا ٹی ٹونٹی میچ

اتوار، 13 اکتوبر، 2013


ہمارے ایک دوست فرما رہے تھے کہ قربانی کے بعد جانور جنت میں پہنچ کر خوب ہلا گلا کرتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ کھیل کود میں لگے رہتے ہیں اور یوں انکی قربانی رائیگاں نہیں جاتی۔

شائد انکی باتوں کا اثر تھا کہ اسی رات ہم خواب میں دیکھا کہ پچھلے سال عید پر قربان ہونے والے بکروں کا، جھتروں کے ساتھ ٹی ٹونٹی کرکٹ میچ ہو رہا ہے،

اسٹیڈیم میں خوب رنگ برنگے اسٹال لگائے گئے تھے اور میچ پر رواں تبصرہ جاری تھا، وقفے وقفے سے اسٹیڈیم بکروں کی بے بے سے گونج اٹھتا کیونکہ ایک بو بکرا لالہ آفریدی کی طرح خوب لمبے لمبے چھکے مار رہا تھا جبکہ چھتروں کی ٹیم اسے آؤٹ کرنے کی بھرپور کوششیں کررہی تھی۔

وی آئی پی انکلوژر کا چکر لگاتے ہوئے میری نظر اپنے اس بکرے پر پڑی جسے ہم نے پچھلے سال قربان کیا تھا، وہ بڑی شان بے نیازی کے ساتھ بیٹھا میچ انجوائے کرنے میں مصروف تھا،

اسکے ساتھ رسمی علیک سلیک کے بعد میں نے پوچھا کہ تم صرف میچ دیکھ رہے ہو، کھیلتے کیوں نہیں، کیا تمہیں کرکٹ کھیلنا نہیں آتی؟

کرکٹ کھیلنا تو آتی ہے مگر
میں کھیلنے سے معذور ہوں،

کیونکہ،،،
اے کھڑوس بڈھے ،،،،!

میری دونوں ٹانگیں ابھی تک تمہارے ڈیپ فریزر میں پڑی ہیں۔
یہ کہہ کر اس کمبخت نے ایک زور دار ٹکر مجھے رسید کردی،

ہڑبڑا کر نیند سے جاگا تو پلنگ سے نیچے گرا ہوا تھا۔

مشقت

ہفتہ، 12 اکتوبر، 2013


مجھے ہوش آیا تو ایک لق و دق صحرا میں لیٹا تھا اور ایک پسٹل بردار میرے سر پر مسلط تھا، دور دور تک کسی ذی روح کا نام و نشان تک نہیں تھا۔
میں اس وقت کہاں ہوں اور تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو؟
تم شائد مجھے جانتے نہیں کہ میں اس ملک کے چند دولت مند ترین افراد میں سے ایک ہوں اور جب چاہوں تم جیسوں کو کسی حقیر کیڑے کی طرح مسل دوں، اس لیئے عقل سے کام لو اور مجھے وہیں چھوڑ آؤ جہاں سے اٹھایا تھا۔

میں جانتا ہوں کہ تم مجھے کسی حقیر کیڑے کی طرح مسل سکتے تھے مگر آج تمہاری حیثیت ایک حقیر کیڑے سے بھی گئی گزری ہو چکی ہے، یہاں نہ تو تمہاری دولت کام آنے والی ہے اور نہ ہی دولت سے خریدی جانے والی پولیس اور تمہارے پالتو کتے۔ آج فیصلے کی گھڑی ہے اور چوائس تمہاری اپنی ہوگی۔

فیصلہ،،،،،، کیسا فیصلہ؟
میں نے استفسار کیا،

ڈیل یہ ہے کہ تم میرے لئے چار ضرب آٹھ فٹ کا ایک گڑھا کھودو گے جسکی گہرائی 6 فٹ ہوگی، اس کام کے لیئے تمہارے پاس 8 گھنٹے ہیں اگر تم نے مقررہ وقت پر کام مکمل کرلیا تو میں تمہیں کنپٹی پر گولی مار کر ایک آسان سی موت دوں گا دوسری صورت میں تمہارے دونوں گھٹنوں اور ہاتھوں پر گولیاں مار کر تمہیں اسی صحرا میں بھوکا پیاسا مرنے کے لیئے چھوڑ جاؤں گا۔

یہ ایک انتہائی بے ہودہ ڈیل ہے، اور پھر تم نے یہ سوچا بھی کیسے کہ میں تمہاری بات مان لوں گا؟
دیکھو مسٹر تم جو کوئی بھی ہو ایک بات جان لو کہ اس معاملے کا ایک تیسرا پہلو بھی ہے، تم جانتے ہو کہ میں بے انتہا دولتمند ہوں اس لیئے تم چاہو تو میں تمہیں اپنی جان بخشی کے عوض ایک کروڑ روپیہ دینے کو تیار ہوں۔

واہ رے سیٹھ باٹلی والا تمہاری زندگی کی قیمت محض ایک کروڑ ہے؟
تمہارے بینکوں میں مالِ حرام کے اربوں روپے رکھے ہیں وہ کس دن کام آئیں گے؟
تمہارے مرنے کے بعد تمہاری بیوی اس رقم پر عیش کرے گی جو ابھی جوان اور حسین ہے،

چلو ٹھیک ہے 2 کروڑ کے بارے میں کیا خیال ہے؟
پستول بردار نے اچانک پسٹل میرے گھٹنے پر رکھ دیا اور کہا کہ اگر 2 منٹ کے اندر میں نے گڑھا کھودنا شروع نہیں کیا تو وہ اس ڈیل کے دوسرے حصے پر عمل کردے گا۔
اب مجھے حالات کی سنگینی کا احساس ہوا، موت کے خوف سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور میں نے فیصلہ کرلیا کہ گڑھا کھودوں گا تو ممکن ہے کچھ وقت مل جائے اور میرے گھر والے مجھے تلاش کرلیں، چنانچہ بیلچہ پکڑا اور کھدائی شروع کردی۔

دس منٹ تک بیلچہ چلانے کے بعد میری سانس پھول گئی اور مجھے شدید پیاس نے آلیا میں نے پانی مانگا تو میرے ممکنہ قاتل نے ایک لیٹر کی بوتل میرے ہاتھ میں پکڑا دی اور کہا کہ اگلے 8 گھنٹے تک اور پانی نہیں ملے گا،
ایک تو صحرا اور دوسرے میں اس قدر مشقت کا عادی بھی نہیں تھا اس لیئے پیاس کی شدت سے حلق میں کانٹے سے چبھ رہے تھے مگر مجھے پانی کو کفائت شعاری سے استعمال کرنا تھا،

نصف گھنٹے کے بعد میں اس قدر تھک گیا کہ ایک طرف بیٹھ کر سستانے لگا،
کام چور، چلو اٹھو اور گڑھا کھودو، 4 گھنٹے کے بعد 30 منٹ کا وقفہ ہوگا جس میں تمہیں کھانا بھی دیا جائے گا اور اسی عرصہ میں تم آرام بھی کرو گے۔ چلو اب اچھے بچوں کی طرح کام شروع کردو۔

تب مجھے یاد آیا کہ میں اپنی فیکٹری کے مزدوروں کو کام کے دوران سگریٹ تک نہیں پینے دیتا تھا ایک دوسرے سے بات کرنا منع تھی اور خلاف ورزی کرنے والے کو فوری طور پر ملازمت سے فارغ کردیا جاتا۔
میرے دفتر میں منرل واٹر کا ڈسپینسر لگا تھا لیکن مزدوروں کو ٹونٹیوں سے آنے والا پانی پینا پڑتا تھا جس میں شہر بھر کی غلاظت بھی شامل ہوا کرتی تھی، تب میں نے غور کیا کہ مجھے دی جانے والی بوتل بھی منرل واٹر کی نہیں تھی بلکہ یہ گدلا پانی تھا جسے میں عام حالات میں دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتا مگر آج اسے پینے پر مجبور تھا۔

جب کھانے کا وقفہ ہوا تو پستول بردار نے اپنے تھیلے میں سے میلا کچیلا کپڑا نکالا جس میں ایک باسی روٹی اور اس پر آم کا آچار رکھا تھا ، یہی میرا آج کا لنچ تھا،
ایک ایسی مشقت کہ جس کے بعد میرا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا اوپر سے صحرا کی شدید گرمی،،، پھر بھوک سے جان نکلی جارہی تھی اس لیئے
چار و ناچار یہی لنچ زہر مار کرنا پڑا،
جی ہاں سیٹھ باٹلی والا جو ایک لنچ پر ہزاروں روپے بخشیش دینے پر قادر تھا آج اچار کے ساتھ باسی روٹی کھانے پر مجبور تھا،

جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا زندگی کی امید ختم ہوتی جا رہی تھی، آج مجھے اپنی دولت کے بے وقعت ہونے کا شدت کے ساتھ احساس ہوا کہ وہ دولت جو میری زندگی نہیں بچا سکی وہ میرے کس کام کی؟
اب میں زندگی سے بالکل مایوس ہوچکا تھا کونکہ اگلے نصف گھنٹے میں میرا کام مکمل ہو جانا تھا اور اسکے بعد ایک گولی، جو میرے جسم و جاں کا رابطہ منقطع کر دیتی اور شائد یہی گڑھا میری آخری آرام گاہ بننے جارہا تھا۔

مقررہ وقت سے کچھ پہلے ہی میں نے اپنا کام مکمل کیا اور اپنے قاتل کو آواز دی
کہ وہ میرے کام کو اچھی طرح چیک کرلے اب میں ذہنی طور پر موت کو گلے لگانے پر تیار تھا، مگر پسٹل بردار تو گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو چکا تھا، میں نے ادھر اُدھر دیکھا تو ایک ٹیلے کے پیچھے اپنی جیپ دکھائی دی جس میں چابی لگی تھی، میں نے جیپ سٹارٹ کی اور شہر کی طرف روانہ ہوگیا۔

فساد پلس ٹی وی چینل کے نمائندہ سلیم آگہی نے کیمرہ آن کروایا اور تعارفی کلمات ادا کیئے،،
یہ ہیں ہمارے ملک کے بہت بڑے صنعتکار سیٹھ باٹلی والا جنہوں نے اپنی فیکٹری کے کارکنوں کے اوقات کار 8 سے کم کرکے 6 گھنٹے کردئیے ہیں اور اور اسکے ساتھ ہی انکی تنخواہوں کو بھی ڈبل کردیا ہے۔
یہی نہیں بلکہ کام کے دوران کارکنوں کو ہر 2 گھنٹے کے بعد چائے یا کولڈ ڈرنک دی جائے گی اور دوپہر کا کھانا بھی فیکٹری کی طرف سے دیا جائے گا، تمام مزدوروں کی سوشل سیکورٹی میں رجسٹریشن کروا دی گئی ہے، فیکٹری میں ایک بڑا واٹر فلٹرنگ پلانٹ بھی نصب کیا گیا ہے، اور فیکڑی آنے جانے کے لیئے پک اینڈ ڈراپ کی فری سہولت بھی شروع کردی گئی ہے۔

جی سیٹھ صاحب، آپ کے دل میں مزدوروں کی محبت کیسے جاگ پڑی؟ فساد پلس کے نمائندے نے سوال کیا،
اللہ جب بھی کسی کو ہدائت دینا چاہے تو اسکے لیئے کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتا ہے، میں اپنے گمنام محسن کا شکرگزار ہوں جس نے عملی تجربے کے بعد مجھے احساس دلایا کہ جسمانی مشقت کیا چیز ہوتی ہے،
میں دیگر تمام فیکٹری اونرز سے بھی درخواست کروں گا کہ لیبر کے حقوق انہیں ضرور دیں ، آپکی تشریف آوری کا بہت بہت شکریہ،
یہ کہہ کر میں نے سلیم آگہی سے الوداعی مصافحہ کیا اور پھر فیکٹری ورکرز کے ساتھ لنچ میں شریک ہوگیا۔








قربانی یا دکھاوا ؟


میرے ایک محلے دار ، جو نئے نئے امیر ہوئے ہیں (اپنی فیکٹری میں گیس اور بجلی چوری کرکے) مجھ سے کہنے لگے کہ کتنے بکرے اور بیل خریدے ہیں؟

میں نے عرض کیا کہ بھائی ابھی تو ہمارے بجٹ میں ایک عدد اصیل مرغا بھی فٹ نہیں ہورہا تو پھر یہ بکرے اور بیل کدھر سے آگئے؟
جس پر انہوں نے کہا قربانی ضرور کرنی چاہئیے،
اب دیکھو نا میں نے 12 عدد بکرے اور 3 بیل خریدے ہیں، اب بچے ضد کررہے ہیں کہ 2 عدد اونٹ بھی لاکر دیں۔ اگر تمہیں اونٹ خریدنے کا تجربہ ہے تو میرے ساتھ چلو نا،،،
میں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ بھائی مجھے تو مرغی خریدنے کا تجربہ بھی نہیں ہے اور آپ اونٹ خریدنے کے لیئے میری ماہرانہ رائے لینا چاہتے ہیں۔

بکرا منڈی میں بڑے بڑے خوبصورت جانور بھی موجود ہیں جنکی تصاویر اخبارات کی زینت بن رہی ہیں اور شائقین انکی لاکھوں روپے قیمت بھی ہنسی خوشی ادا کرکے انہیں خرید رہے ہیں، یہ روش عام آدمی کے لیئے قربانی کو مشکل سے مشکل تر بناتی چلی جارہی ہے، اس وقت ایک عام سا لاغر بکرا بھی 35 سے 40 ہزار روپے میں مل رہا ہے، ایسے میں مڈل کلاس کے لیئے قربانی کرنا خواب و خیال بنتا جارہا ہے۔

یہ تو حال ہے کہ حرام کی کمائی سے قربانی کی جارہی ہے، بلکہ نمائش کا بازار لگا ہے،،،اب روز قیامت بکرا ان صاحب کا گریبان پکڑ کے سوال نہیں کرے گا کہ جب یہ شخص فرائض کی انجام دہی میں پہلو تہی کرتا رہا تو پھر میری باری اسکی چھری فوری طور پر
کیوں حرکت میں آتی رہی؟

انگور کھٹے ہیں


لگتا ہے کہ انگور زمانہء قدیم سے ہی کھٹے چلے آرہے ہیں اور ابھی تک کمبخت پک کر میٹھے نہیں ہو پائے۔
مجھ سمیت دنیا کے بد صورت ترین مردوں نے ہمیشہ حسن میں کیڑے ہی نکالنے کی کوشش کی ہے یقین نہیں آتا تو سقراط صاحب کا ایک اخباری بیان ملاحظہ فرمائیں،

'' حسن ایک سستی ترین سفارش ہے''
جس کی مدد سے بہت سارے کام نکلتے ہیں۔

ارسطو کا کہنا ہے کہ

'' یہ قدرت کی ''غلط بخشی'' ہے''

فن سیاست کے باوا آدم یعنی افلاطون صاحب نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ''

'' حسن ایک چند سالہ ظالمانہ دورِ حکومت ہے''

آخر میں بابائے جنسیات حضرت راسپوٹین کا فرمان ملاحظہ فرمائیں،

''حسن ہاتھی کا نمائشی دانت ہے''

مدر ٹنگ



سردار جی کا بیٹا دوسرے اسکول میں داخلے کا فارم لایا تو اسے پُر کرتے ہوئے ایک جگہ رک کے باپ سے پوچھا،

ابا جی،،، ہماری مدر ٹنگ (Mother Tongue) کیا ہے؟

سردار جی کہنے لگے اور پتر جی لکھ دے کہ تمہاری مدر کی ایک ٹنگ (ٹانگ) دوسری سے 4 انچ چھوٹی ہے ،

بچے نے جواب دیا ارے ابا جی یہ والی ٹنگ نہیں بلکہ زبان کی بات ہورہی ہے،

اوہ اچھا میں سمجھ گیا، سردار جی نے جواب دیا،

چل لکھ دے کہ مدر کی ٹنگ بہت ہی لمبی ہے،
تمہیں تو ملوم ہے نا پُتر جی؟؟؟؟؟

شادی خانہ آبادی

جمعرات، 10 اکتوبر، 2013



ارے فیروز تمہاری شادی ہوگئی؟
جب میں نے فیروز سے یہ سوال کیا تو اسکے منہ پر بارہ بج گئے اور اسکی رونی شکل تھوڑی سی مزید رونے والی ہوگئی،

میں نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا ، کوئی بات نہیں میرے یار، جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں اور دیکھ لینا ایک نہ ایک دن تمہارے سر پر بھی ضرور سہرا سجے گا، ڈھولک بجے گی اور تم بھی اچھے بھلے انسان سے ایک عدد مظلوم شوہر میں کنورٹ ہوجاؤ گے ۔

چھوڑ یار ،،،، !
یہ جھوٹی تسلیاں اپنے پاس رکھ کیونکہ یہ سب کچھ قیامت سے دو چار دن بعد ہی وقوع پذیر ہوگا،

ابے فیروز کے بچے ،،،،
تو دل چھوٹا کیوں کرتا ہے، ابھی تیرے ماں باپ زندہ ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ ایک چاند سی بہو لانے کو بیتاب ہونگے کیونکہ تم بہر حال انکی اکلوتی غلطی،،،،،،
معاف کرنا یار اکلوتی اولاد ہو اگرچہ تمہارے کرتوت اولاد کہلائے جانے کے قابل تو نہیں مگر پھر بھی والدین کو قدرت نے بہت بڑا دل عطا کیا ہے جس میں اولاد کی تمام برائیاں چھپ جاتی ہیں،

فیروز نے میری بات سن کر میری کمر زور سے دھپ لگائی اور بولا،،،!
اے میرے انتہائی کمینے دوست ،
مجھے یہ بتا کہ تو شہر کی مرکزی جامع مسجد میں خطیب لگا ہوا ہے؟
تمارے کرتوت میرے کرتوتوں سے اگر زیادہ نہیں تو کم خراب بھی نہیں ہیں۔ اگر تمہاری شادی خانہ بربادی،،،، اوہ معاف کرنا خانہ آبادی ہو گئی ہے تو میں تو شکل صورت میں بھی تم سے کہیں بہتر ہوں،

اس خبیث کی بات تو سو فیصد درست تھی مگر پھر بھی میں نے ڈھٹائی اختیار کرتے ہوئے کہا کہ تمہاری شادی کا نہ ہونا ہی تمہاے دلائل کی نفی کرتا ہے،
اس پر اس نے جواب دیا کہ تم نہیں سمجھو گے،
جن والدین کو تم میرا خیر خواہ سمجھ رہے ہو وہی میری شادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں،

وہ کیسے؟

میں نے نجمہ کو پسند کیا تو وہ اماں کو ایک آنکھ نہیں بھائی، انکا کہنا تھا کہ یہ انتہائی پھوہڑ لڑکی ہے جو چند دنوں میں ہی گھر کو چنڈو خانہ بنا کر رکھ دے گی، اس لیئے کوئی ایسی لڑکی تلاش کر میرے بیٹے کہ جس میں زیادہ نہیں تو کم از کم مجھ جیسی 50 فیصد خوبیاں تو موجود ہوں، باقی کمی میں پوری کروا دوں گی، کچھ کچن میں کوکنگ کے ریفیشر کورسز کی صورت میں اور رہی سہی کسر طعنے مار مار کے پوری کروا دوں گی۔

تب میں نے سلیمہ کو پسند کرلیا جس میں اماں بی کی تمام تر ''خوبیاں'' بدرجہء اتم موجود تھیں، جنہیں ابا حضور اماں بی کی ''تابکاریاں'' کہا کرتے ہیں۔

تو پھر اس کے ساتھ شادی کیوں نہیں ہوئی؟
اسے ابا نے پہلی نظر میں ہی ریجیکٹ کردیا۔

ملٹائی نیشنل لوٹ مار مافیا کے مددگار

منگل، 8 اکتوبر، 2013


ارے ابھی تک پلاسٹ کیوں نہیں کیا الو کے پٹھے؟
باس ،،،!
ڈان سے وائبر پر رابطہ نہیں ہو پایا شائد بیک اینڈ سے انٹرنیٹ سگنلز میں کچھ پرابلم ہے، جیسے ہی رابطہ ہوگا، بم کو بلاسٹ کردیا جائے گا۔

میں نے تو نہیں دیکھا مگر ایک دوست کا کہنا ہے کہ اس قسم کے پوسٹ لگا کر فیس بک کے یوزرز کو یقین دلانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وائبر، سکائپ اور اسی قسم کی دیگر جدید ترین ٹیکنالوجیز کو دہشت گردی کے لیئے استعمال کیا جارہا ہے اور اسکی آڑ میں خاص طور پر سکائپ اور وائبر کو بند کرنے کی سازش تیار کی جارہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی ایجاد ہو اسکا زیادہ تر فائدہ اسکا منفی استعمال کرنے والوں نے اٹھایا ہے، اس سلسلہ میں موبائل فون کی مثال دی جاسکتی ہے جسکی 75 لاکھ سے زیادہ گھوسٹ سمیں آج بھی لوگوں کے زیر استعمال ہیں اور سپریم کورٹ کے بار بار کے احکامات کے باوجود موبائل کمپنیاں ان سموں کو بند کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتی آرہی ہیں، یہی وہ بھوت سمیں ہیں جو کہ دہشت گردی کے لیئے استعمال کی جاسکتی ہیں۔

سکائپ پر تو کوئی بھی فیک آئی ڈی بنا کر اسے استعمال میں لا سکتا ہے لیکن وائبر میں تو آپکا فون نمبر استعمال ہوتا ہے اس لیئے وائبر اور موبائل سم کا سٹیٹس ایک جیسا ہے، اگر وائبر کو بند کرنا ہی مسئلے کا حل ہے تو پھر پاکستان میں چلنے والی تمام کی تمام سمیں بند کردی جائیں کیونکہ ہمارے پاس اتنے وسائل موجود نہیں کہ 7 کروڑ کے قریب سموں کو چیک کیا جائے۔

ہمارے ہاں ہر جگہ رحمان ملک فارمولا استعمال کیا جاتا ہے جو کہ ہماری حکومتوں اور اربابِ اختیار کی نااہلی اور کام چوری کی دلیل ہے۔ ہماری ہاؤسنگ سوسائٹی میں نوجوان ون ویلنگ کیا کرتے تھے، اسکا سدباب یوں کیا گیا کہ جگہ جگہ سپیڈ بریکرز بنا دئیے گئے جن سے عام لوگوں کی نکالیف میں اضافہ ہوگیا، اسی طرح دہشت گردی کے خلاف موثر کاروائی نہ کر پانے کو جواز بنا کر گھنٹوں لوگوں کے موبائل بند رکھے جاتے ہیں اور اب اسی کی آڑ لیکر سندھ حکومت مندجہ بالا اپلیکیشنز بند کرنے کی درخواست کر چکی ہے۔

اصل حقیقت کچھ یوں ہے کہ ان سہولیات کی وجہ سے عوام الناس کو بہت فائدہ ہو رہا تھا جو کہ وطن سے دور اپنے پیاروں سے نہائت آسانی سے گھنٹوں بات چیت کرسکتے ہیں، لیکن دوسری طرف موبائل کمپنیوں کے منافع جات کم ہوگئے، کیونکہ لوگ سکائپ اور وائبر پر زیادہ بہتر اور سستی سہولت حاصل کررہے ہیں۔ ان موبائل کمپنیوں نے ارباب حکومت کو رشوت دے کر مندرجہ بالا اقدامات پر مجبور کیا ہے، اگر آج سندھ میں اس کاروائی کے خلاف مزاحمت نہ کی گئی تو اگلے مرحلے میں سیکورٹی کے نام پر سارے پاکستان کو ان جدید سہولیات سے محروم کردیا جائے گا۔



راست باز

پیر، 7 اکتوبر، 2013


میں اس اہم مقدمے کا وکیل صفائی تھا اس لیئے معزز جج صاحب اور جیوری کو متاثر کرنے کے لیئے پہلا ڈائیلاگ مارا۔
میں اس معزز عدالت کے سامنے اس شہر کی سب سے باخبر، راست گو اور معزز بزرگ خاتون کو بطور گواہ پیش کرنا چاہوں گا، میری درخواست ہے کہ محترمہ ''زبیدہ آپا'' وٹنیس باکس میں تشریف لے آئیں۔

جس طرح کسی زمانے میں محلوں اور شہروں میں بی جمالو، پھپھے کٹنی اور جانو کپتی ٹائپ کی بڑھیائیں ہوا کرتی تھیں کچھ اسی قسم کا کردار ہماری زبیدہ آپا بھی تھیں جو ان مشہور زمانہ کرداروں کا لیٹیسٹ ایڈیشن قرار دی جا سکتی ہیں۔

کاروائی کا آغاز ہوا تو میں نے رسمی طور پر معزز گواہ سے پوچھا کہ کیا وہ مجھے جانتی ہیں؟

تمہیں کون نہیں جانتا لفنگے؟
تم تو اسکول کے زمانے سے ہی انتہائی بدقماش اور لوفر تھے، لوگوں کے ہاتھوں سے چیزیں چھین کر بھاگ جانا تمہارا محبوب مشغلہ تھا، جوانی میں تم قصبے کی ہر لڑکی پر مر مٹنے کو تیار رہتے تھے، اور تو اور، میں تمہاری ماں کی عمر کی ہوں مگر مجھ پر ڈورے ڈالنے سے بھی باز نہیں آئے۔

یہ سن کر میری سٹی گم ہوگئی، مقدمہ گیا بھاڑ میں، یہاں تو میری ری سہی عزت کا کچرا ہوا جارہا تھا چنانچہ میں نے بدحواسی کے عالم میں کہا،،
اچھا ٹھیک ہے،
کیا آپ اسے جانتی ہیں؟
میں نے وکیل استغاثہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،

یہ تو تم سے بھی بڑا فراڈیہ ہے، اس سے بڑا اٹھائی گیرا میں نے آج تک نہیں دیکھا۔

تمہیں یاد نہیں کہ تماری ناک اسی نے مکا مار کر ''پھینی'' کی تھی؟
تمہارے دو دانت بھی توڑ دئیے تھے؟
مگر تم نے بھی ساری زیادتیوں کا زبردست بدلہ لیا ہے،
آج کل تم اسکی بیوی کے ساتھ خوب گلچھرے اڑاتے پھر رہے ہو،

اب تو جج صاحب کی قوت برداشت بھی جواب دے گئی اور انہوں نے فوری طور پر مقدمے کی کاروائی 15 منٹ کے لیئے روک کر مجھے اپنے چیمبر میں طلب کرلیا،

چیمبر میں پہنچا تو جج صاحب نے ایک قہر آلود نگاہ مجھ پر ڈالی اور بولے، یہ کیا ہورہا ہے وکیل صاحب؟
آپکو پورے شہر میں یہی ایک ''معزز'' گواہ ملی تھی؟

وہ سر،،،،،میں منمنایا

یہ سر سر بند کرو اور میرے بندھے ہوئے ہاتھوں کی طرف دیکھو،
تمہیں اللہ کا واسطہ اس شیطان کی خالہ سے میرے بارے میں کچھ مت پوچھنا۔







فیصلے کی گھڑی

ہفتہ، 5 اکتوبر، 2013


مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا جب اس نے میرے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا۔ اتنا معصوم اور بھولا بھالا بچہ جس نے ابھی زندگی کی صرف 19 بہاریں دیکھ رکھی تھیں، اتنا سفاک قاتل کیسے ہو سکتا ہے؟
مگر یہ ایک حقیقت تھی اسکا چہرہ اسکے جرم کی چغلی کھا رہا تھا ، میں نے آصف کو کبھی اس روپ میں دیکھنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا مگر حقائق کی دنیا بڑی تلخ ہوا کرتی ہے، مجھے اور میرے شوہر کو بالآخر اس حقیقت کا سامنا کرنا ہی تھا۔

گذشتہ کچھ دنوں سے آصف کی صحت مسلسل گرتی چلی جارہی تھی خاص طور پر جب سے اس کے بچپن کے دوست انیس کا قتل ہوا تب سے اس کا کھانا پینا تقریباً چھوٹ گیا تھا، ہم نے اسے معمول کی بات سمجھتے ہوئے پہلے تو نطر انداز کیا اور پھر اسے سمجھایا کہ بیٹا جانے والے چلے جاتے ہیں لیکن ہمیں اس دنیا میں اپنا رول نبھانے کی خاطر جینا پڑتا ہے، مرنے والوں کے ساتھ کوئی نہیں مرتا میرے بچے،،،
تم اپنے آپ کو سنبھالو اور نئے سرے سے زندگی کا آغاز کرو۔

ایک رات میں اسکے کمرے میں دودھ کا گلاس لے کر گئی تو میں نے دیکھا کہ وہ خواب کے عالم میں کسی سے باتیں کررہا تھا،، انیس،،،! مجھے معاف کردو میرے یار،،
میں رقابت میں اندھا ہوگیا تھا، ایک تو تم ہر مرتبہ مجھ سے زیادہ نمبر لے جاتے تھے اور پھر میری پسند اریبہ بھی تمہاری محبت کا دم بھرنے لگی تھی،، اسے تمہارے ساتھ دیکھ کر میں خود پر قابو نہیں رکھ سکا اور ایک دن تمہیں اکیلا پاکر سر میں گولی مار دی،،

اگلے دن ناشتے کے بعد جب میرے شوہر آفس چلے گئے تو میں نے آصف کو اپنے پاس بٹھایا اور بڑے پیار سے انیس والے واقعے کے بارے میں دریافت کیا،
اسے تو شائد پھٹ پڑنے کا بہانہ درکار تھا، وہ زور زور سے رونے لگا اور روتے روتے کہا کہ اب میں اپنی روح پر مزید بوجھ برداشت نہیں کرسکتا، میں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے بھائی جیسے دوست کو ماردیا،، اب اسکی روح مجھے چین نہیں لینے دیتی۔
ماما،
کسی طرح اسکی روح کو سمجھائیں کہ جو ہونا تھا وہ ہوچکا، اب میرا پیچھا چھوڑ دے،

شام کو میرے شوہر آئے تو میں نے انہیں صورتحال سے آگاہ کیا، انہوں نے بڑے تحمل کے ساتھ میری بات سنی اور گہری سوچ میں ڈوب گئے، آخر کار وہ کہنے لگے کہ ابھی تک یہ بات کسی کو نہیں معلوم اس لیئے اگر تم چاہو تو ہم خاموش رہ کر اپنے بیٹے کی جان بچا سکتے ہیں، ایک نہ ایک دن وہ اس نفسیاتی دباؤ سے بھی نکل ہی آئے گا مگر چونکہ تم ایک ماں ہو اس لیئے یہ فیصلہ تمہیں خود کرنا ہے، آج کی رات خوب سوچ لو اور کل صبح 8 بجے مجھے بتا دینا کہ تمہارا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کہہ کر وہ بیڈ روم سے نکل کر اپنے اسٹڈی روم میں چلے گئے۔

یہ ایک عجیب رات تھی، فیصلے کی رات جس میں مجھے اپنے بیٹے کی زندگی یا پھر اس سے جدائی کا فیصلہ کرنا تھا،
قسمت نے آج ایک ماں کے ہاتھ میں انصاف کا ترازو پکڑا دیا تھا،
اس رات نے
ہم سب کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا، کبھی امید کے جگنو جگمگانے لگتے تو کبھی اتھاہ تاریکیوں میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا، امید و بیم کی ایک کیفیت طاری تھی اور میں سوچ سوچ کر نیم پاگل ہونے کو تھی۔

آبا نجمہ ہمارے پڑوس میں ہی رہتی تھیں جن کے شوہر کا انتقال 3 برس پہلے ہوچکا تھا، اب انکی زندگی کا محور صرف اور صرف انیس ہی تھا جسے دیکھ دیکھ کر جیتی تھیں۔ جی ہاں وہی انیس جو میرے آصف کا دوست تھا، انیس ایک بہت ہی پیارا بچہ تھا جو نہ صرف پڑھائی میں ذہین تھا بلکہ اپنے کالج کی کرکٹ ٹیم کا کیپٹن بھی تھا، اسکے علاوہ اتھلیٹکس کے مقابلوں میں بھی کئی انعامات اور ٹرافیاں اسکے کمرے میں سجی ہوئی تھیں۔


ادھر میرے سامنے اپنے بیٹے کا خیال بھی تھا کہ پتہ نہیں عدالت اسے سزائے موت دیتی ہے یا پھر عمر قید؟
لیکن دونوں صورتوں میں ہم اپنے اکلوتے بیٹے سے محروم ہوجاتے، ہماری زندگی کا مقصد ہی گویا ختم ہو کر رہ جاتا، آپا نجمہ تو جیسے تیسے زندگی گزار ہی رہی ہیں مگر ہم اپنے بیٹے کے بغیر کس طرح زندگی گزار پائیں گے؟

انہی سوچوں میں غلطاں تھی کہ میری نظر سامنے والے گھر پر پڑی جہاں نجمہ آپا نصف رات کو جاگ رہی تھیں اور انکی آنکھوں سے بہنے والے آنسو مجھے صاف دکھائی دے رہے تھے، کچھ دیر تو میں انکی گریہ و زاری دیکھتی رہی اور پھر گھبرا کر اپنی گھڑکی بند کردی۔

اگلےدن 8 بجے تک میں ایک فیصلے تک پہنچ چکی تھی، چنانچہ اپنے شوہر سے کہا کہ وہ
پولیس کو فون کردیں۔
جب پولیس آصف کو پکڑ کر لے گئی تو ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لپٹ کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔



عادی

جمعہ، 4 اکتوبر، 2013


یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں گریجو ایشن کرنے کے لئیے لاہور میں کرائے کے ایک پورشن میں کئی دوسرے طلباء کے ساتھ مل کر رہا کرتا تھا، وہیں مری دوستی بہاولنگر کے ایک دور دراز کے گاؤں سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان خلیق کے ساتھ ہوگئی جو اسم بامسمیٰ تھا۔

اسکی روشن روشن آنکھوں میں مستقبل کے خواب جھلملاتے رہتے تھے اور اکثر مجھے بتایا کرتا کہ وہاں گاؤں میں کسی قدر مشکل کے ساتھ اس کی تعلیم کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ گھر والے خود روکھی سوکھی کھا کر اسکی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ اسکی 3 جوان بہنوں کا بوجھ اتارا جاسکے اور انکی گروی رکھی 2 ایکڑ زمین بھی واپس لی جاسکے۔

ان خوابوں کے عین بیچوں بیچ رانو نام کی ایک معصوم سی لڑکی بھی کھڑی مسکراتی دکھائی دیتی جو خلیق کی منگیتر تھی اور اچھے دنوں کی آس میں ایک ایک کرکے دن گزار رہی تھی۔

خدا خدا کرکے گریجوایشن مکمل ہوئی تو دیگر طلباء تو اپنے گھروں کو لوٹ گئے لیکن میں اور خلیق دونوں لاہور میں ہی رہ گئے تاکہ کسی اچھی سی نوکری کو اپنی شکل دکھائیں تاکہ وہ فوری طور پر ہمیں پسند کرلے مگر جب باہر کی دنیا میں نکلے تو پتہ چلا کہ جاب مارکیٹ میں ہم سے بھی بہتر خام مال موجود ہے لیکن اسکی کھپت نہیں ہے۔

چند ہی دنوں میں حقیقت کے عفریت نے اپنا خوفناک چہرہ دکھا دیا، اول تو کوئی جاب موجود نہیں تھی اور اگر تھی تو ہمارے پاس اسے خریدنے کے لیئے رقم موجود نہیں تھی۔ میں نے تجویز پیش کی کہ کیوں نہ گھر کا ایک ایک چکر لگا کر انہیں صورت حال سے آگاہ کیا جائے تاکہ اگر وہ پیسوں کا انتظام کرسکتے ہیں تو پھر ہمارے لیئے بھی کسی سرکاری محکمے میں جاب نکل سکتی ہے مگر خلیق نے اس تجویز کو سختی کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسکے گھر والوں کے پاس کچھ بھی نہیں، میں انکی آس اور امید کو قائم رہنے دینا چاہتا ہوں۔

ہم دونوں مہینوں جوتیاں چٹخاتے رہے، لاہور کی سڑکوں کا کئی بار سروے مکمل کرنے کے بعد ہر شام بوجھل دل اور تھکے قدموں کے ساتھ واپس آکر اپنے اپنے بستر پر گر جاتے۔
ایک دن میں نے خلیق سے پوچھا کہ یار میں سوچتا ہوں کہ قدرت نے ہمیں ایک دوسرے سے ملایا ہے، اگر ہم ایک دوسرے سے نہ ملے ہوتے تو کیا رہتا؟
خلیق نے جل کر جواب دیا،،،!
تب ہم دونوں علیحدہ علیحدہ ذلیل و خوار ہورہے ہوتے،
یہ سن کر میری ہنسی نکل گئی اور یوں اس بات کو مذاق میں ٹال دیا۔

ایک دن نہ جانے ہمیں کیا سوجھی کہ ایک فٹ پاتھ پر بیٹھے نجومی کو اپنے ہاتھ دکھائے اور ان سے مستقبل کا حال پوچھا، انہوں کچھ دیر تک ہم دونوں کے ہاتھوں کا بغور معائنہ کیا اور پھر فرمانےنے لگے کہ تم دونوں کی قسمت حیرت انگیز حد تک ایک دوسرے سے ملتی ہے،
تمہارے صرف 5 سال مشکل ہیں انہیں کسی نہ کسی طرح گذار لو پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔

ہم دونوں بہت خوش ہوئے اور نجومی سے سوال کیا کہ 5 سال کے بعد ہمارے حالات بدل جائیں گے نا؟

نہیں بیٹا،،،، نجومی نے تاسف سے جواب دیا،،

اسکے بعد تم اس قسم کے حالات کے عادی ہو جاؤ گے،

آج کئی دہائیوں کے بعد اس نجومی کی بات یاد آتی ہے تو میں گہری سوچ میں ڈوب جاتا ہوں کہ 67 سال تک حکمرانوں کے ٹھڈے کھانے کے بعد یہ قوم واقعی اس بات کی عادی ہوچکی ہے اور اب حکمران طبقے کی طرف سے آنے والی ہر آفت کو بھی آسمانی آفات میں شمار کرلیتی ہے۔







''خاکم بدہن''

جمعرات، 3 اکتوبر، 2013



چشم تصور بھی انسان کو کیا کیا کرشمے دکھاتی ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔
آج میرے دوست مرزا صاحب تشریف لائے تو ادھر ادھر کی باتوں کے دوران ملکی حالات پر بات چل نکلی،
مرزا صاحب کا انداز تکلم بڑا ہی شاندار اور مدلل ہوا کرتا ہے، یہ ناممکن ہے کہ انسان انکے پاس چند لمحے بیٹھ کر انکی شخصیت کے جادو سے مسحور نہ ہوجائے۔

انکا خوبصورت اور دلنشیں انداز اور پھر لہجے کا اتر چڑھاؤ مجھے مسمرائز کئیے دے رہا تھا یہاں تک کے انکے جانے کے بعد بھی میں انہی خیالات میں کھویا رہا اور پھر یوں لگا کہ میرا جسم ہلکا پھلکا سا ہو کر کسی غبارے کی طرح دھیرے دھیرے فضا میں پرواز کررہا ہے اور میں کسی ٹائم مشین میں بیٹھ کر کئی ہزار سال مستقبل میں پہنچ گیا ہوں۔

ٹی وی پر ایک نئے دریافت شدہ ملک کے بارے میں ماہرین کے تبصرے پیش کئیے جارہے تھے جن میں ان کھنڈرات میں موہنجوڈیرو کے کھنڈرات سے خاصی مماثلت پائی جاتی تھی۔ ایک ماہر کہہ رہا تھا کہ یہاں بھی بڑے بڑے محلات اور خوب چوڑی گلیاں موجود ہیں جیسا کہ کبھی موہنجوڈیرو کی سیر کی ہو تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں بھی اعلیٰ درجے کے مکانات اور کھلی کھلی سڑکوں کا وجود تھا لیکن ان پر سفر کرنے اور ان محلات میں رہنے والے نیست و نابود ہوگئے،،،

ان محلات کے بالکل قریب ہی غریب بلکہ انتہائی غریب لوگوں کی بستیاں بھی ملی ہیں جہاں تنگ گلیاں اونچی نیچی سڑکیں اور صحت و صفائی کا کوئی بندوبست نہیں تھا لیکن اسکے مقابلے میں پوش ایراز میں صفائی ستھرائی اور دیگر سہولیات وافر مقدار میں موجود تھیں۔

آج 5 ہزار سال کے بعد جو کچھ کھدائی میں برآمد ہوا ہے وہ انتہائی حیرت انگیز ہے،،، پٹرول تو ان لوگوں کے پاس تھا نہیں لیکن پتہ نہیں کیوں چند سو گاڑیوں کے لیئے اس دور میں اربوں روپے خرچ کرکے سڑکیں اور انڈر پاس بنائے گئے، انکے دفاتر سے ملنے والے کاغذات کو ماہرین لسانیات سے ترجمہ کروایا گیا تو یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ یہ لوگ بڑے بڑے پلازے اور مکانات، جہازی سائز کی کاریں، سڑکیں اور فلائی اوور وغیرہ اپنے
ہی دشمن ملکوں سے سود پر قرض لیکر بنایا کرتے تھے۔

،سکول اور شفا خانے نہیں تھے مگر ایٹم بم اور بلیسٹک میزائل موجود تھے،،

دنیا کی چھٹی بڑی فوج موجود تھی لیکن اپنے لیئے بجلی پیدا نہیں کرسکے،،،،

ایک اور حیرت انگیز بات دیکھنے میں آئی ہے کہ اس تباہی و بربادی کے باوجود ان لوگوں کے گھر تو محفوظ ہیں لیکن انکی عبادت گاہیں اور مقبرے وغیرہ کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں،، یوں لگتا ہے کہ انکے دشمن نے ان پر اس وقت حملہ کیا، جب وہ عبادات میں مصروف تھے۔

ہمارے ماہرین ایک بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کررہے ہیں کہ انکی عبادت گاہیں تو آپس میں گہری مماثلت رکھتی ہیں لیکن وہاں ایک وقت میں کئی درجن مذاہب کے لوگ ان ایک جیسی عبادت گاہوں میں عبادت کیا کرتے تھے۔ اس بات کا پتہ اس وقت چلا جب ہمارے ماہرین لسانیات نے ان عبادت گاہوں کے باہر انکے ''سائن بورڈ'' دیکھے، لیکن یہ بات تاحال ہماری سمجھ سے بالا تر ہے کہ ہر مذہب کے عبادت خانے سے ایک ہی مذہبی کتاب ملتی ہے جس پر شائد تمام مذاہب متفق تھے۔ پھر بھی مذاہب کے نام الگ کیوں تھے؟

اس بات کی تحقیق کی جارہی ہے کہ سنی، وہابی، بریلوی، شیعہ اور دیوبندی مذاہب کے پیروکار ایک ہی الہامی کتاب، ایک ہی پیغمبر اور ایک ہی خدا کو ماننے کے باوجود نہ جانے کیوں ایک دوسرے کو کافر قرار کر موت کے گھاٹ اتار دیا کرتے تھے۔

کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کس قسم کے بد اعمال لوگ تھے جنہیں دنیا میں زندہ رہنے کا سلیقہ تک نہیں آیا،،،، شائد اسی وجہ سے یہاں تباہی آئی اور یہ ملک زمین کے اندر غائب ہوگیا،،،،

ارے آپ کی چائے تو ٹھنڈی ہوگئی،
میری بیوی کی آواز نے مجھے خیالات کی دنیا سے لاکر باہر پھینک دیا اور میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ یہ محض میرا تصور تھا یا پھر میرے بد ترین اندیشے جنہیں ہم کبھی پورا نہیں ہونے دیں گے۔ انشاء اللہ

اشرافیہ کی خونخواری

منگل، 1 اکتوبر، 2013


لاکھ چھپ چھپ کے کوئی بیٹھے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے ،،، جلادوں کے مسکن کا سراغ

ایب کے مار سالے

اتوار، 29 ستمبر، 2013


دیکھ کالئیے،،،،!
میں تنے بتا رئیا ہوں کہ میرے ساتھ پنگا مت کریو،
میرے گھر والے جانتے ہیں کہ میں کتنا غصے والا ہوں، سب مجھے ''ہتھ چھُٹ'' کہتے ہیں گھر میں۔
ارے چھوٹے بہن بھائی تو ایک طرف، اماں اور باوا کی مجال نہیں جو میری طرف میلی آنکھ سے دیکھ لیویں۔

میری عمر اس وقت صرف 6 سال کی تھی جب گلی میں کھیلنے کے لیئے نکلا تو کالئیے نے میرے بڑے بھائی کا گریبان پکڑ رکھا تھا اور بھائی اسے دھمکانے میں مصروف تھا۔

قرائن سے کچھ یوں دکھائی دیتا تھا کہ کالئیے کی شامت آگئی تھی جو اس نے بھیا کے ساتھ لفڑا کر لیا کیونکہ بھائی ہمارے گھر کا 'بدی ماش'' تھا، جسے چاہتا برا بھلا کہہ دیتا اور چھوٹے بہن بھائیوں کو روئی کی طرح دھنک دینا اسکا معمول تھا، پورے گھر میں بھائی کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی اور کسی کو بھی اسکے سامنے لب کشائی کی ہمت نہیں تھی،

اپنی اسی بدمعاشی کے بل پر گھر کے بیشتر وسائل اسی کے قبضے میں رہتے تھے اور وہ آتے جاتے اماں سے وہ بیسے بھی چھین لیا کرتا جو ابا ہنڈیا کے لیئے دیکر جایا کرتے تھے، اسکی بدمعاشی کی وجہ سے گھر میں پیسوں کی ہمیشہ تنگی ہی رہی، منی کےلیئے دودھ کے پیسے چھین لینا اور مجھ سے بڑے کی سکول فیس ہتھیا لینا بڑے بھیا کا معمول تھا،

اسکے علاوہ گھر کے امور خارجہ اور داخلہ پر بھی اسی کی گرفت تھی، کہ فلاں سے ملنا ہے اور فلاں سے بائیکاٹ کرنا ہے، ہم لوگ بھیا کی آمریت سے بڑے پریشان تھے مگر کر کچھ نہیں سکتے تھے چنانچہ پاکستانی عوام کی طرح خون کے گھونٹ پی کے رہ جاتے۔

جب بھیا کا پھڈا کالئیے کے ساتھ ہوا تو میں ایک دیوار کی آڑ سے اس لڑائی کا احوال دیکھ رہا تھا، اس وقت میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب بھائی کی دھمکی کے جواب میں دپلے پتلے کالئیے نے ایک زوردار تھپڑ بھیا کے منہ پر مارا ،

بھائی نے کہا، میں نے کہا بھی تھا کہ میرے ساتھ پنگا مت کیجئیو، مگر تم نے اپنے شامت کو آواز دے ہی ڈالی نا،،،،،
چل ایب کے مار ، پھر میں تنیں بتاتا ہوں کہ میرے ساتھ لفڑا کرنے کا کیا نتیجہ ہوتا ہے،

یہ سنتے ہی کالئیے نے ایک اور تھپڑ بھیا کے منہ پر جڑ دیا،
اب تو بھیا کی آنکھوں میں آنسو آگئے مگر بڑی بہادری کے ساتھ ہر تھپڑ پر یہی کہتے رہے کہ '' ایب کے مار سالے''
میں نے جب بھیا کی یہ درگت بنتے دیکھی تو ایک انجانی سی خوشی کا اھساس بھی ہوا اور ساتھ ہی خوفزدہ بھی ہوگیا کہ بھیا سے نپٹنے کے بعد اگر کالئیے نے مجھ پر مکے بازی شروع کردی تو کیا ہوگا؟

میں موقعہء واردات سے فرار ہو کے گھر آگیا۔ تھوڑی دیر کے بعد خیر سے بھیا بھی گھر واپس آئے تو میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ انکے چہرے پر زخم کیسے آئے؟
جس پر بھیا نے کہا،،،،،،،،،،،
ایک بدبخت کی شامت آئی تھی جو مجھ سے ٹکر لے بیٹھا،،،
میں نے بھی وہ چار چوٹ کی مار لگائی ہے کہ برسوں یاد رکھے گا۔

آج کل مذاکرات کا بڑا رولا شولا ہے مگر نہ جانے کیوں ہر بم دھماکے اور دہشت گردانہ کاروائی کے بعد مجھے اپنے بچپن کا یہ واقعہ یاد آجاتا ہے اور میں سوچنے لگتا ہوں کہ بڑے بھیا گھر والوں کےلیئے بدمعاش اور دشمن کے لیئے ملائی کیوں ثابت ہوئے؟


''کتے کی دُم''


ایک دوست کی پوسٹ دیکھی جو کچھ یوں تھی۔

مجھے وفا کی تلاش تھی
میں کتا خرید لایا

میرے یہ دوست انتہائ معقول انسان ہیں لیکن لگتا ہے کہ کسی انتہائی قریبی فرد نے انکے دل کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے جسکا انہیں رنج ہے،
اپنے اسی غصے کو انہوں نے فیس بک پر شئیر بھی کردیا جو کہ انکا ایک جذباتی اقدام کہا جا سکتا ہے۔ انکی پوسٹ نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ واقعی انسان زیادہ وفادار ہے یا کتا؟
تب غور کرنے پر جو کچھ معلوم ہوا وہ آپکے ساتھ شیئر کررہا ہوں۔

کبھی کسی انسان سے کتے والی وفاداری مت مانگو کیونکہ وہ غیر مشروط ہوتی ہے، جس میں ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہمیں ہماری ساری کی ساری کمینگیوں اور خباثتوں سمیت کسی کتے کی طرح ہمارے تلوے چاٹتے رہیں، اور ہمارے سامنے اپنی دم ہلاتے رہیں۔

مگر نہیں،،!

وفا اور وفاداری دو الگ چیزیں ہیں ہمارا با وفا دوست ہمیں ہماری خامیوں پر ڈانٹے گا، برا بھلا کہے کا، تھپڑ تک مار دے گا کیونکہ وہ ہمیں ایک اچھا انسان دیکھنا چاہتا ہے،جس کے ساتھ اٹھنے بیٹنے میں اسے فخر محسوس ہو نہ کہ کراہت آنے لگے،،،

مگر کتا؟

کتے کو اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ آپ کیا ہیں کیا کرتے ہیں اسکی سرشت میں ہی غیر مشروط وفاداری موجود ہے، بالکل اس طرح جیسے کسی روبوٹ کے دماغ میں پروگرامنگ کردی گئی ہو۔

کتے کے ساتھ رہتے ہوئے آہستہ آہستہ اسکے مالک کے اندر بھی جانوروں والی صفات پیدا ہونے لگتی ہیں۔ انسان اسکی سبھی عادات اپنا لیتا ہے جن میں اپنے ہی ہم جنسوں پر بھونکنا اور کاٹنا، وغیرہ شامل ہے مگر نہ جانے کیوں برسوں کتے کی ہم نشینی کے باوجود اسکی وہی عادت انسان آج تک نہیں اپنا سکا جسکے لیئے کتا مشہور ہے۔ یعنی غیر مشروط وفاداری۔

اس کے باوجود کتا بدنام ہے کہ اسکی دم بیس سال تک پائپ میں رکھیں مگر نکالنے پر ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہی
رہے گی۔

تیس سال بعد

ہفتہ، 28 ستمبر، 2013


17 سال پرانے اس کیس کا فیصلہ کرنے میں عدالت کو سترہ منٹ بھی نہیں لگے اور گیارہ سال پیشتر روبینہ قتل میں سزا یافتہ مجرموں جمیل چانڈیو اور قدیر ملانی کو عدالت نے باعزت بری کردیا۔ انکی زندگی کے 11 قیمتی سال جیل کی نظر ہونے پر ان کے ساتھ معذرت کرتے ہوئے کہا کہ کاش اس وقت ڈی این اے کو ایک شہادت کا درجہ دیا جاتا تو ان دو نوجوانوں کی زندگی کے سنہری سال سلاخوں کے پیچھے نہ گزرتے۔

جمیل اور قدیر کو ان کے ایک دوست کی شہادت پر سزا ہوئی جس نے انہیں روبینہ کے گھر میں جاتے دیکھا تھا، سترہ سال قبل ہونے والے اس جبری آبرو ریزی اور قتل کے واقعہ میں اور کوئی شہادت موجود نہیں تھی ورنہ شائید یہ دونوں موت کی سزا پاچکے ہوتے۔

یہ اس زمانے کی بات تھی جب وطنِ عزیز میں ڈی این اے کو بطور شہادت قبول نہیں کیا جاتا تھا مگر جب سن 2025 میں بننے والی انقلابی حکومت نے اسے اہم ترین شہادت کا درجہ دیا تو ایسے تمام کیسز کو بھی کھنگالا گیا جس میں سزائیں بھی ہوچکی تھیں۔ ایسا ہی ایک کیس روبینہ قتل کیس بھی تھا۔

جمیل چانڈیو کے والد صاحب ایک معروف عالم دین تھے جنہوں نے ڈی این اے ٹیسٹ کی خلاف بڑے زور و شور سے دلائل دئیے اور اسے پاکستانی قانون کا حصہ بننے سے روکنے میں انکا بھی بہت بڑا کردار تھا۔ بیٹے کے اس قسم کے مقدمے میں ملوث ہونے کے بعد انکی سماجی حیثیت بالکل صفر ہوکر رہ گئی اور پچھلے 11 سال کے عرصہ میں ایک زبردست قسم کی سماجی زندگی گزارنے والے مولانا کلیم اللہ چانڈیو محض گھر کی چار دیواری تک محدود ہو کر رہے گئے کیونکہ اب لوگوں کی تمسخرانہ نظروں کا سامنا کرنا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔

بیٹے کی باعزت واپسی کے باوجود کھو جانے والے 11 سال واپس کر دینا کسی کے بس کی بات نہیں تھی، اتنے عرصہ میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا، لوگ مولانا کلیم اللہ چانڈیو کو ایک بھولی بسری داستان کی طرح فراموش کرچکے تھے، انکا بیٹا جمیل چانڈیو 6 ماہ کے اندر ہی گھُل گھُل کر اس دنیا سے رخصت ہوگیا اور یوں اس بھرے پرے خاندان کو محض ایک جھوٹی گواہی کی بھینٹ چڑھ کر تباہی و بربادی کا نشانہ بننا پڑا۔

جب روبینہ کیس کے دوران ملنے والی رطوبات کے سیمپلز کو ٹیسٹ کرکے انکے حاصل شدہ رزلٹ کو نادرا کے کمپیوٹر سے لنک کیا گیا تو ایک ہی منٹ کے بعد مطلوبہ مجرم کی تصویر کمپیوٹر سکرین پر نمودار ہوگئی ۔
جی ہاں قارئین یہ وہی شخص تھا جسکی گواہی نے دو نوجوانوں کا مستقبل تاریک کردیا اور وہ خود اپنے علاقے سے ایم این اے منتخب ہوکر عوام الناس کی ''خدمت'' میں مصروف تھا۔

جمیل چانڈیو کا قصہ تو تمام ہوا لیکن قدیر ملانی کی زندگی نے ایک نیا موڑ لیا۔ آج کل اس نے ایک تنظیم بنا رکھی ہے جو بے گناہی کے جرم میں سزا پانے والوں کو انصاف دلانے کا کام کرتی ہے، اس مقصد کے لئیے اس نے وکلاء کے ایک پورے پینل کی خدمات حاصل کرکھی ہیں۔

فساد پلس چینل کے نمائندے کی حیثیت سے انٹرویو کرتے ہوئے جب میں نے قدیر ملانی سے جیل میں گزرے ہوئے لمحات کے بارے میں پوچھا تو اسکی آواز رندھ سی گئی اور وہ گلوگیر آواز میں کہنے لگا، میں ان تکلیف دہ لمحات کو وبارہ یاد نہیں کرنا چاہتا، بس اپنے عوام، حکمرانوں اور علماء کرام سے درخواست ہے کہ نئے زمانے کی روشنی اور ایجادات کسی خاص گروہ یا مذہب کی ملکیت نہیں بلکہ پوری انسانیت کی بھلائی کے لیئے ہوا کرتی ہیں،
اگر یہی ڈی این اے چند سال پہلے اہم شہادت کے طور پر قبول کرلیا جاتا تو 11 سال تک 2 بے گناہ افراد بھی سزا سے بچ جاتے اور اصلی مجرم بھی ایک لمبے عرصے تک آزاد نہ پھرتا۔ یہ کہہ کر وہ زور زور سے رونے لگا اور میرے پاس اسے تسلی دینے کے لیئے دو بول تک نہیں تھے۔

بارٹر سسٹم

بہت سے دوستوں نے ممکن ہے کہ بارٹر سسٹم کا نام نہ سنا ہو اس لئیے پہلے اسکی تشریح کرتا چلوں۔
زمانہء قدیم میں جب کرنسی یا سونے چاندی جیسی قیمتی دھاتوں کا استعمال وجود میں نہیں آیا تھا تب تجارت میں لین دین کے لیئے ایک طریقہء کار وضع کیا گیا تھا جس میں جنس کے بدلے جنس یا جانور اور غلام وغیرہ دوسرے فریق کے بطور رقم ادا کئیے جاتے تھے، اسے بارٹر سسٹم کہا جاتا ہے

آج کا دلچسپ واقعہ گو کہ بارٹر سسٹم کی مروجہ تشریح پر پورا نہیں اترتا مگر اس میں کچھ مماثلت ضرور پائی جاتی ہے۔ میں شائد پانچویں کلاس میں پڑھتا تھا جب ہمارے ایک دوست کو اس کے والد محترم نے 22 انچ کی بائیسکل لے کر دی اور اسے کہا کہ باہر گراؤنڈ میں جاکر اسے چلانے کی پریکٹس کرو میں تھوڑی دیر میں آکر تمہیں سائیکل چلانے میں بالکل طاق کردوں گا،

میرے دوست کے والد پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل تھے اور آنے جانے کے لئیے انہوں نے ایک عدد ویسپا رکھا ہوا تھا،
اس زمانے میں بائیسکل بھی کسی کسی کے ہاں ہوا کرتی تھی اس لیئے موٹر سائیکل اور ویسپا رکھنا اپر مڈل کلاس کی نشانی ہوا کرتا تھا، آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس دور میں پورے بہاولنگر شہر میں گنتی کے دو یا 4 ویسپا گھومتے دکھائی دیا کرتے تھے۔ موٹر سائیکل کا رواج تو لگتا ہے سرے سے مفقود تھا اور استطاعت رکھنے والوں کی پسندیدہ ترین سواری ویسپا ہی کہلاتی تھی۔

میرے دوست نے سائیکل پر سواری شروع کی اور ہم تمام لڑکے اسے دھکا لگا کر سائیکل چلانے کی تربیت دینے کی کوشش کرنے لگے، اتنے میں ایک اجنبی شخص وہاں آیا اور ہمیں پیچھے ہٹا کر اس لڑکے کو سائیکل سکھانے لگا۔

کچھ دیر کے بعد اس نے لڑکے کو نیچے اتارا اور کہا کہ دیکھو جس طرح میں پیڈل چلاؤں گا اسے غور سے دیکھنا تاکہ بعد میں تم بھی اسی طرح سائیکل چلانا۔ میدان کے دو تین چکر لگانے کے بعد موصوف نے اپنا رخ بدلا اور جنگل کی طرف سائیکل بھگا دی جو وہاں سے کوئی 2 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔

ہمارے شور مچانے پر وکیل صاحب اپنے ویسپے سمیت تشریف لائے اور اکیلے ہی چور کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے۔ کوئی نصف گھنٹے کے بعد انکی واپسی کچھ اس طرح ہوئی کہ وہ اپنے پسینے پسینے بھاری بھرکم وجود کو سائیکل پر لاد کر بڑی مشکل سے کھینچ کر لانے میں کامیاب ہوئے۔

جب دیگر تفصیلات کا پتہ چلا تو سب کا مارے ہنسی کے برا حال ہوگیا،
ہوا کچھ یوں کہ وکیل صاحب کو قریب پہنچتا دیکھ کر چور نے سائیکل سے چھلانگ لگائی اور پھرتی کے ساتھ ایک اونچے درخت پر چڑھ گیا اور وہاں دبک کر بیٹھ گیا،
وکیل صاحب نے اسے گرفتار کرنے کی غرض سے درخت پر چڑھنا شروع کیا اور جب چور سے تھوڑی دور رہ گئے تو چور نے اچانک ایک ٹہنی کو پکڑا، اس سے لٹک کر بندر کی طرح زمین پر چھلانگ لگائی اور وکیل صاحب کا ویسپا لے کر یہ جا وہ جا،،،،،،

''پینڈنگ''


اپنی محرومیوں، ناکامیوں اور حسرتوں کا ہار بنا کر انہیں اپنے گلے میں لٹکانے اور پھر قابلِ رحم سی شکل بنا کر خود کو دنیا کے سامنے پیش کرنے سے کیا ہوتا ہے؟

فقط چند لوگ اظہار تاسف کریں گے، کچھ ایسے بھی ہوں گے جو دل و جان سے آپکے مسائل حل کرنا چاہتے ہوں گے مگر انکے گلے میں موجود مالا میں موتیوں اور منکوں کی تعداد آپکے ہار سے بھی زیادہ ہوگی۔

چند لوگ ایسے بھی ضرور ہونگے جو آپکی کم ہمتی اور بزدلی کو آپکے مسائل کی اصل وجہ قرار دیں گے،
آپکو مظلوم سمجھنے کی بجائے ایک ملزم کی طرح کٹہرے میں کھڑا کردیں گے اور شائد یہی آپکے سچے اور کھرے دوست ہوں گے جو واقعی آپکی مدد کرنے میں سنجیدہ ہیں۔

دور حقیقت ہم نے مسائل کو روزانہ کی بنیاد پر حل کرنے کی بجائے انہیں زیر التوا رکھ کے اپنے سامنے مسائل کی فائلوں کا ایک انبار سا کھڑا کرلیا ہے جسے اگر روزانہ کی بنیاد پر مکمل کیا جاتا تو آج فائلوں کا یہ ماؤنٹ ایورسٹ وجود میں نہیں آتا۔
یہ پہاڑ گوادر میں نمودار ہونے والے جزیرے کی طرح راتوں رات کھڑا نہیں ہوگیا بلکہ خود ہماری سستی، کاہلی اور نکمے پن کی وجہ سے رفتہ رفتہ تعمیر ہوا۔

ہماری ذاتی ہی نہیں بلکہ قومی زندگی کا بھی یہی المیہ ہے،
ارباب اختیار نے کچھ کرنے کی بجائے ہر فائل پر ''پینڈنگ'' کا لفظ تحریر نہ کیا ہوتا تو آج یہ قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی۔

یہ بیویاں

جمعہ، 27 ستمبر، 2013


ایک کسان نے گھر میں داخل ہوتے ہی اپنی بیوی کو بتایا کہ آج جب وہ اپنے گدھے پر چارہ لاد کر گھر آرہا تو راستے میں گدھے،،،
اتنے میں چنو نے زور سے ہانک لگائی،،،،،
امی منو نے میرا جوتا پہن لیا ہے،

بیوی نے اپنے خاوند سے معذرت کی اور ان بچوں کا معاملہ سیٹل کروانے کے بعد دوبارہ اپنے شوہر کے پاس آبیٹھی اور بولی،
اب سناؤ کیا ہوا تھا،

کسان بولا کہ جب میں گدھے کو لیکر واپس گاؤں کی چلا تو،،،، ا
اتنے میں سب سے چھوٹی بیٹی چلانے لگی جو واکر سے گر کے ماتھے پر چوٹ کھا بیٹھی تھی اور اسکے ماتھے پر ایک گومڑ سا نمودار ہوچکا تھا جس طرح گوادر میں جزیرہ نمودار ہوا ہے۔

اسی طرح بے چارے کسان نے کئی مرتبہ اپنی بات مکمل کرنے کی کوشش کی مگر اسکی اپنی ہی ''مکتی باہنی'' نے اسے ناکام بنادیا۔

آخر کار کسان کی بیوی اپنے بچوں پر برس پڑی اور انہیں سختی سے ڈانٹتے ہوئے بولی،

کم بختو!

سکون کے ساتھ ''گدھے'' کی بات تو سن لینے دو،،،،!