جمعہ، 18 اکتوبر، 2013
کچھ دیر تک علاقائی اور ملکی سیاست پر بات چیت ہوئی اور پھر مہنگائی سے ہوتے ہوئے امریکی شٹ ڈاؤن تک پہنچ گئی۔ میں نے کچھ دیر تو انتظار کیا کہ مرزا صاحب اپنی پریشانی کے بارے میں کچھ بتائیں مگر جب انہوں نے تین کپ چائے پینے اور ایک عدد میڈیم پیزا پھڑکانے کے باوجود زبان نہیں کھولی تو بالآخر میں نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ مرزا صاحب خیر تو ہے نا؟
ہاں یار،
خیریت ہے بھی اور نہیں بھی، درحقیقت تمہاری بھابی کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگتی اور میں اسی لیئے پریشان ہوں۔
کسی ڈاکٹر کو چیک کروانا تھا بھابی کو،
نہیں یار،،،!
وہ بظاہر تو بالکل ٹھیک ٹھاک لگتی ہے اس لیئے ڈاکٹر کا نام سنتے ہی بدک جائے گی، تم کوئی اور نسخہ بتاؤ، دراصل اسے کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے۔
نفسیاتی مسئلہ؟
تمہارا مطلب ہے کہ بھابی کا دماغ چل گیا ہے؟
ارے مرزا،،،!
تمہیں تو خوش ہونا چاہئیے، میرے یار تم کتنے خوش نصیب انسان ہو، مجھے تو تمہاری خوش نصیبی پر رشک آنے لگا ہے۔
مرزا غصے سے بولا،
ایک تو تم پوری بات نہیں سنتے اور اوپر سے انٹ شنٹ بولنے لگتے ہو، وہ پاگل نہیں ہوئی بلکہ اسکی حرکتیں مجھے پاگل کردیں گی اسی لیئے میں تمہارے پاس آیا ہوں کی اسکا کیا حل نکالیں۔
تمہیں تو معلوم ہے کہ اگر میں نے کہیں جانا ہوتا تھا تو پوری انوسٹیگیشن ہوا کرتی تھی کہ،
کہاں جارہے ہو؟
کیوں جارہے ہو؟
ساتھ کون کون جارہا ہے؟
واپس کب تک ہوگی؟
وغیرہ وغیرہ۔
مگر آج کل سب کچھ الٹ ہوگیا ہے۔
اب وہ مجھ پر بال برابر شک نہیں کرتی بلکہ اندھا اعتماد کرنے لگی ہے، اسی وجہ سے میں پریشان ہوں کہ آخر ہوا کیا ہے؟
اس کایا کلپ کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟
یہ سن کر میری ہنسی چھوٹ گئی،
مرزا صاحب ناراض ہوکر چلائے، میں سخت پریشان ہوں اور تو بتیسی کی نمائش کررہا ہے؟
شرم آنی چاہئیے تمہیں، تم دوست نہیں بلکہ دوستی کے نام پر ایک دھبہ ہو،
میں نے بڑی مشکل سے اپنا ''ہاسا'' روکا اور مرزا صاحب کو بتایا کہ جب بیوی اپنے شوہر پر اندھا اعتماد کرنے لگے تو شوہر کو جان لینا چاہئیے کہ وہ بوڑھا ہوچکا ہے۔
یہ سن کر مرزا مجھے کھا جانے والی نظروں سے گھورنے لگا۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں