''خاکم بدہن''

جمعرات، 3 اکتوبر، 2013



چشم تصور بھی انسان کو کیا کیا کرشمے دکھاتی ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔
آج میرے دوست مرزا صاحب تشریف لائے تو ادھر ادھر کی باتوں کے دوران ملکی حالات پر بات چل نکلی،
مرزا صاحب کا انداز تکلم بڑا ہی شاندار اور مدلل ہوا کرتا ہے، یہ ناممکن ہے کہ انسان انکے پاس چند لمحے بیٹھ کر انکی شخصیت کے جادو سے مسحور نہ ہوجائے۔

انکا خوبصورت اور دلنشیں انداز اور پھر لہجے کا اتر چڑھاؤ مجھے مسمرائز کئیے دے رہا تھا یہاں تک کے انکے جانے کے بعد بھی میں انہی خیالات میں کھویا رہا اور پھر یوں لگا کہ میرا جسم ہلکا پھلکا سا ہو کر کسی غبارے کی طرح دھیرے دھیرے فضا میں پرواز کررہا ہے اور میں کسی ٹائم مشین میں بیٹھ کر کئی ہزار سال مستقبل میں پہنچ گیا ہوں۔

ٹی وی پر ایک نئے دریافت شدہ ملک کے بارے میں ماہرین کے تبصرے پیش کئیے جارہے تھے جن میں ان کھنڈرات میں موہنجوڈیرو کے کھنڈرات سے خاصی مماثلت پائی جاتی تھی۔ ایک ماہر کہہ رہا تھا کہ یہاں بھی بڑے بڑے محلات اور خوب چوڑی گلیاں موجود ہیں جیسا کہ کبھی موہنجوڈیرو کی سیر کی ہو تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں بھی اعلیٰ درجے کے مکانات اور کھلی کھلی سڑکوں کا وجود تھا لیکن ان پر سفر کرنے اور ان محلات میں رہنے والے نیست و نابود ہوگئے،،،

ان محلات کے بالکل قریب ہی غریب بلکہ انتہائی غریب لوگوں کی بستیاں بھی ملی ہیں جہاں تنگ گلیاں اونچی نیچی سڑکیں اور صحت و صفائی کا کوئی بندوبست نہیں تھا لیکن اسکے مقابلے میں پوش ایراز میں صفائی ستھرائی اور دیگر سہولیات وافر مقدار میں موجود تھیں۔

آج 5 ہزار سال کے بعد جو کچھ کھدائی میں برآمد ہوا ہے وہ انتہائی حیرت انگیز ہے،،، پٹرول تو ان لوگوں کے پاس تھا نہیں لیکن پتہ نہیں کیوں چند سو گاڑیوں کے لیئے اس دور میں اربوں روپے خرچ کرکے سڑکیں اور انڈر پاس بنائے گئے، انکے دفاتر سے ملنے والے کاغذات کو ماہرین لسانیات سے ترجمہ کروایا گیا تو یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ یہ لوگ بڑے بڑے پلازے اور مکانات، جہازی سائز کی کاریں، سڑکیں اور فلائی اوور وغیرہ اپنے
ہی دشمن ملکوں سے سود پر قرض لیکر بنایا کرتے تھے۔

،سکول اور شفا خانے نہیں تھے مگر ایٹم بم اور بلیسٹک میزائل موجود تھے،،

دنیا کی چھٹی بڑی فوج موجود تھی لیکن اپنے لیئے بجلی پیدا نہیں کرسکے،،،،

ایک اور حیرت انگیز بات دیکھنے میں آئی ہے کہ اس تباہی و بربادی کے باوجود ان لوگوں کے گھر تو محفوظ ہیں لیکن انکی عبادت گاہیں اور مقبرے وغیرہ کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں،، یوں لگتا ہے کہ انکے دشمن نے ان پر اس وقت حملہ کیا، جب وہ عبادات میں مصروف تھے۔

ہمارے ماہرین ایک بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کررہے ہیں کہ انکی عبادت گاہیں تو آپس میں گہری مماثلت رکھتی ہیں لیکن وہاں ایک وقت میں کئی درجن مذاہب کے لوگ ان ایک جیسی عبادت گاہوں میں عبادت کیا کرتے تھے۔ اس بات کا پتہ اس وقت چلا جب ہمارے ماہرین لسانیات نے ان عبادت گاہوں کے باہر انکے ''سائن بورڈ'' دیکھے، لیکن یہ بات تاحال ہماری سمجھ سے بالا تر ہے کہ ہر مذہب کے عبادت خانے سے ایک ہی مذہبی کتاب ملتی ہے جس پر شائد تمام مذاہب متفق تھے۔ پھر بھی مذاہب کے نام الگ کیوں تھے؟

اس بات کی تحقیق کی جارہی ہے کہ سنی، وہابی، بریلوی، شیعہ اور دیوبندی مذاہب کے پیروکار ایک ہی الہامی کتاب، ایک ہی پیغمبر اور ایک ہی خدا کو ماننے کے باوجود نہ جانے کیوں ایک دوسرے کو کافر قرار کر موت کے گھاٹ اتار دیا کرتے تھے۔

کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کس قسم کے بد اعمال لوگ تھے جنہیں دنیا میں زندہ رہنے کا سلیقہ تک نہیں آیا،،،، شائد اسی وجہ سے یہاں تباہی آئی اور یہ ملک زمین کے اندر غائب ہوگیا،،،،

ارے آپ کی چائے تو ٹھنڈی ہوگئی،
میری بیوی کی آواز نے مجھے خیالات کی دنیا سے لاکر باہر پھینک دیا اور میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ یہ محض میرا تصور تھا یا پھر میرے بد ترین اندیشے جنہیں ہم کبھی پورا نہیں ہونے دیں گے۔ انشاء اللہ