سمجھوتہ

بدھ، 4 دسمبر، 2013


کرمو چاچا آج مرغی کا بھاؤ کیا ہے؟
کیس
ا بھاؤ بابو جی؟
جب سے اپنا نواج شریپھ ا(نواز شریف) اس دھندے میں پڑا ہے مرغی کی قیمتیں بھی سونے کے ریٹ کی طریوں آسمان پر ہی چرھتی جاویں،
ابھی کل ہی 190 روپے بیچا تھا اور آج ہمیں 225 روپے میں ملا ہے، آپ تو پڑھے لکھے ہو بابو جی اور اکھبار میں بھی لکھت ہو،، آپ تو جانو ہو کہ لوگ اِتا پیسہ کیا کرت ہیں؟

ابھی کومو چاچا کی تقریر جاری تھی کہ ہمارے ارد گرد یکدم سناٹا سا چھا گیا،،
میں نے مڑ کے پیچھے کی طرف دیکھا تو بھرے بازار میں 2 ڈاکووں نے پسٹل کے زور پر ایک نوجوان کو گھیر رکھا ہے اور اس سے رقم اور موبائل فون کا مطالبہ کر رہے تھے۔
اس نوجوان نے کمال جرآت سے کام لیتے ہوئے ایک ڈاکو کے ہاتھ پر زور دار کک ماری اور اسکا پسٹل ہوا میں قلابازیاں کھاتا ہوا عین میرے قدموں میں آگرا۔ دوسرے پر جست لگا کر اسکا پسٹل والا ہاتھ قابو کرکے اسے زمین پر گرا دیا اور لوگوں سے کہا کہ اسکی مدد کریں تاکہ ڈاکووں کو پکڑ کے قانون کے حوالے کیا جاسکے، مگر سارے مجمعے کو گویا سانپ سونگھ گیا تھا، مجھ سمیت کسی میں انتی ہمت نہ تھی کہ اس نوجوان کی مدد کرتے چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں ڈاکووں نے مل کر اس نوجوان کو قابو کرلیا، بڑے سکون کے ساتھ اسے گولی ماری اور آرام سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

دکانداروں نے اسی وقت دکانوں کے شٹر گرا دیئے اور دیگر لوگ بھی جائے واردات سے ادھر ادھر ہوگئے،
اتنے میں پولیس آگئی اور ایک انسپکتر نے جائے واردات پر موجود لوگوں سے اس واردات کے بارے میں پوچھا،،،، 90 فیصد لوگوں کی آنکھوں کے سامنے یہ واردات ہوئی لیکن کسی نے بھی اس بات کو تسلیم نہیں کیا اور یہ واردات بھی ٹارگٹ کلنک کے کھاتے میں لکھی گئی،

لاش کو ایمبولینس میں منتقل کر دیا گیا اور بازار کی رونق پھر اسی طرح بحال ہوگئی، گولیوں کی آوز سے خوف زدہ لوگ دوبارہ روزمرہ کاموں کی طرف لوٹ آئے اور دکانداروں نے حالات پر کڑھتے ہوئے چار چھ گالیاں حکومت وقت کی شان میں پیش کیں جو حالات کو سدھارنے میں قطعی طور پر ناکام ہوچکی تھی۔ صرف 30 منٹ کے اندر اندر کاروبارِ زندگی پھر رواں دواں تھا۔

میں نے کرموں چاچا کو 2 کلو مرغی کا آرڈر دیا، اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔
سنا ہے کہ یہاں کوئی ڈکیتی کی واردات ہوئی ہے؟
ایک ادھیر عمر آدمی نے استفسار کیا،
ارے ڈکیتی نہیں جناب، یہ تو مجھے وہی لوگ لگتے ہیں جنہوں نے پرسوں کیبل والے فہیم کو گولی ماری تھی کیونکہ وہ مزید بھتہ دینے سے انکاری تھا۔
یہ تو اب روج کی بات ہے صاحب جی پیسہ لوگوں کی جیب میں چھورا ہی نہیں تو پھر ڈکیتیاں اور بھتہ خوری ہی ہوگی نا،،،،
ایک بوڑھی اماں بولی،،،، پتہ نہیں کب حالات بدلیں گے؟
ہم نے تو ہر کسی کو ووٹ بھی دیکر دیکھ لیا مگر پہلے سے بھی زیادہ دکھی ہوگئے ہم تو،
ارے اماں،،،! باؤلی ہوئی ہے کیا؟
یہاں کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے۔، سارے حکمران اور اپوزیشن والے کرپٹ ہیں، یہاں تو بس ایک خمینی کی ضرورت ہے جو سب کو تیر کی طرح سیدھا کردے، یہ کہہ کر اس دبلے پتلے نوجوان نے سگریٹ کے دھویں کا ایک مرغولہ ہوا میں بکھیر دیا۔

ابے فومانچو کی اولاد،،،،!
خمینی نہ ہوا کوگڑ کاں (پہاڑی کوا) ہوگیا جو اڑتا ہوا آکر تمہاری منڈیر پر بیٹھ جائے گا اور چشم زدن میں تم لوگوں کے مسائل حل کرکے چلتا بنے گا۔ ابے نالائق،،،
اس دنیا میں جہاں بھی حالات بدلتے ہیں وہاں لوگوں نے خود ہمت کی اور اپنے مستقبل کے تحفظ کی خاطر قربانیوں کی لازوال مثالیں قائم کیں، تم جیسے نوجوان تو بس آئیڈیل ازم کا شکار ہیں کہ فلاں آجائے گا تو ایسا ہوجائے گا، ویسا ہوجائے گا، سب کچھ بدل جائے گا۔
ایک صاحب نے اس نوجوان کو ڈانٹتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

ایک مولانا صاحب بھی وہاں موجود تھے اس لیئے وہ کیوں پیچھے رہتے؟
انکا فرمانا تھا کہ یہ سب یہود و نصارا کی سازشیں تھیں جو اسلام کی بالا دستی سے خوف ذدہ ہیں اسی لیئے ہمارے ہاں فرقہ پرستی اور علاقائیت کو فروغ دے رہے ہیں۔

میں سوچ میں پڑ گیا کہ جب ڈاکو کا پسٹل میرے قدموں میں پڑا تھا تو میں اسے اٹھا کر اس نوجوان کی مدد کرسکتا تھا مگر میری بزدلی اور مصلحت پسندی آڑے آئی یا یہود و نصارا نے میرا ہاتھ روک لیا؟
کرپٹ حکمرانوں نے مجھے اس نوجوان کی مدد سے روکا یا پھر میرے اندر قوت مزاحمت کا ہی خاتمہ ہوچکا جو برائی کے خلاف لڑنے کی طاقت عطا کرتی ہے؟

یکا یک میری نگاہ چاچا کرمو کے ہاتھوں پر پڑی جو میرے لیئے مرغی نکالنے کے لیئے دڑبے میں ہاتھ ڈال رہا تھا، وہ مرغیاں جو آرام سے دانہ چگ رہی تھیں ان میں ایک ہلچل سی پدا ہوئی اور چاچا کرمو کا ہاتھ دڑبے سے باہر آیا جس میں 2 کلو کی ایک مرغی اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کررہے تھی، مگر چاچا کرمو نے اسے تکبیر پھیری اور نیلے رنگ کے ایک ڈرم میں تڑپنے کے لیئے چھوڑ دیا۔

چند منٹ کے بعد جب کومو چاچا میرے لیئے مرغ کے ٹکڑے کررہا تھا اس وقت میرے نگاہ ڈربے کی طرف اٹھی تو وہی مرغیاں جو کچھ دیر پہلے اپنی جان بچانے کےلیئے قیں قیں کررہی تھیں، بڑے آرام کے ساتھ سر جھکائے دانہ چگنے میں مصروف تھیں۔
تب مجھ پر یہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ ہم سب نے ان مرغیوں کی طرح اپنے اپنے حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا ہے اور اس بات پر خوش ہیں کہ ڈکیتی میں مارا جانے والا ہمارا کوئی پیارا یا پھر ہم خود نہیں تھے۔

یہ سوچتے سوچتے گھر کی جانب چلا ہی تھا کہ بازار کی فضا ایک مرتبہ پھر گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھی اور دکانداروں نے فوری طور پر دکانوں کے شٹر گرانے شروع کردئیے، بازار میں آئے ہوئے لوگ ساتھ کی گلیوں کی طرف بھاگ نکلے۔








2 comments:

میں بھی پاکستان ہوں کہا...

بہت زبردست۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑی دکھی اور حقیقی دکھی تحریر ہے۔

Unknown کہا...

حقیقت بالکل یہی ہے جو بیان کی گئی