کاروباری سوجھ بوجھ

منگل، 17 دسمبر، 2013


جب کالج سے تعلیم حاصل کرکے جب میں نے اپنا آخری امتحان بھی زبردست نمبروں سے پاس کرلیا تو میرا خیال تھا میں نے اے سی سی اے کیا ہے اس لیئے پاکستان کے تمام صنعتکار مجھ جیسے ہونہار اور عالم فاضل شخص کو نوکری دینے کے لیئے لائن میں کھڑے ہوں گے۔

غیر ملکی کمپنیاں ہاتھوں میں ہار لیئے میری منتظر ہوں گی مگر مجھے سخت حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب ایک ماہ تک میں گھر میں پڑا انتظار کرتا رہا مگر کسی نے مجھے فٹے منہہ بھی نہیں پوچھا۔

ایک دن ابا جان نے یونہی ناشتے پر پوچھ لیا کہ تم نے کہاں کہاں سی وی ڈراپ کی ہے؟
جس پر میں نے کہا کہ ابو جان مجھ جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ بندے کو بھی سی وی دینے کی ضرورت ہے؟
اس پر ابا حضور نے کچھ برا سا منہ بنایا اور پھر کہنے لگے کہ بیٹا تم ہمارے ملک کے حالات سے شائد واقف نہیں ہو، یہاں محنتی، ایماندار اور پڑھے لکھے بندوں کی نہیں بلکہ بے ایمان، نااہل اور کام چوروں کی قدر ہوا کرتی ہے۔ اس لیئے تم فوری طور پر چند اچھی کمپنیوں میں اپلائی کردو انشاء اللہ تمہیں اچھی نوکری مل جائے گی۔

ابا جان کے حکم پر اگلے ہی دن جاب مارکیٹ پر حملہ کیا تو میرے چودہ طبق روشن ہوگئے، ایک بہت بڑے مینوفیکچرنگ ادارے کے مالک نے مجھے دس ہزار روپے تنخواہ کی آفر کی تو میرا خون کھول اٹھا،
ارے جناب میں نے اے سی سی اے فرسٹ کلاس میں کیا ہے اور میری گریڈنگ بھی انتہائی اعلیٰ ہے، میں نے ادارے کے مالک سے کہا،
مالک نے جواب دیا اگر اے سی سی اے کیا ہے تو ہم پر کون سا احسان کردیا؟
تم جیسے کئی پڑھے لکھے بےروزگار پھر رہے ہیں،،،
جائو چند دن تک نوکری کی تلاش میں سڑکیں ناپو پھر مجھ سے بات کرنا۔
میں بھی تم جیسا نوجوان تھا جس وقت میری جیب میں صرف 30 روپے باقی بچے تھے تب میں تم جیسا پڑھا لکھا بھی نہیں تھا مگر میں نے ان پیسوں کو انتہائی عقلمندی سے انویسٹ کیا اور اسکے نتیچے میں آج میری فرم اربوں روپے کا بزنس کرتی ہے،

میں غصے میں بھرا ہوا وہاں سے باہر نکلا مگر اس کمبخت کی بات درست نکلی،،، جہاں بھی گیا میری ڈگریوں کا تمسخر اڑایا گیا اور میرے ساتھ کچھ اس قسم کا سلوک ہوا کہ جیسے مجھ سا نالائق اور گدھا ساری دنیا میں کہیں نہیں پایا جاتا۔
اب میں ہمت ہار چکا تھا اور مجھے یقین ہوچکا تھا کہ اب اس ملک سے جاب نام کا پرندہ پرواز کرچکا ہے اس لیئے مجھے اپنا کوئی زاتی کام کرنا ہوگا۔

اپنے بزنس کے لیئے سب سے پہلے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جو میرے پاس تھا نہیں، دوست احباب سے قرض مانگا تو انہوں نے اپنے حالات کا رونا رو کر دکھا دیا، ایک دن مایوسی اور بے زاری کے عالم میں بیٹھا تھا کہ اچانک مجھے یاد آیا کہ الیکٹرونکس کمپنی کے مالک سے کیوں نہ ٹپس لیئے جائیں تاکہ میں بھی سرمائے کے بغیر کوئی بزنس شروع کرسکوں۔

اگلے ہی دن میں الیکٹرونکس مینو فیکچرنگ کمپنی کے دفتر میں پہنچ گیا اور اسکے مالک سے ملنے کی درخواست کی۔
ہاں بھئی کیسے آنا ہوا؟

وہ سر آپ نے بتایا تھا کہ آپ نے صرف 30 روپے سے کروڑوں کا بزنس اسٹارٹ کیا تھا،،،
براہ کرم مجھے بھی وہ راز بتائیں تاکہ میں بھی کوئی اسی قسم کا کاروبار شروع کرسکوں۔

مالک مسکرایا اور بولا، میرے ابا اربوں پتی تھے اور انہیں اپنی دولت کا گھمنڈ بھی بہت زیادہ تھا اسی لیئے میں ان سے ناراض ہو کر چلا گیا کہ اب میں خود ہی اپنی محنت سے کوئی کام کرکے دکھاؤں گا۔

واہ سر کیا سوچ تھی جناب،،،، میں نے بھی مکھن لگانے میں دیر نہیں کی۔
ہاں تو ،،، ایک سال تک مجھے کوئی کامیابی نہیں ہوئی اور پھر ایک دن میرے پاس صرف 30 روپے باقی رہ گئے،، یہ کہہ کر اس نے گفتگو میں ڈرامائی وقفہ دیا،
میرے تجسس میں اضافہ ہو رہا تھا اور وہ کمبخت سگریٹ کا دھواں فضا میں بکھیرتے ہوئے گویا دور کہیں خلا میں گھور رہا تھا۔

میں ہلکا سا کھانس کر اسے اپنی موجودگی کا احساس دلایا، تو اس نے چونکتے ہوئے کہا کہ میں زرا پرانی یادوں میں کھو گیا تھا،،
ہاں تو ،،، میں نے ان باقی ماندہ 30 روپے سے فون میں ایزی لوڈ ڈلوایا اور
،
،
،
،
؟؟؟ابا مرحوم کو فون کرکے 50 کروڑ روپے منگوا لیئے،۔