مشقت

ہفتہ، 12 اکتوبر، 2013


مجھے ہوش آیا تو ایک لق و دق صحرا میں لیٹا تھا اور ایک پسٹل بردار میرے سر پر مسلط تھا، دور دور تک کسی ذی روح کا نام و نشان تک نہیں تھا۔
میں اس وقت کہاں ہوں اور تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو؟
تم شائد مجھے جانتے نہیں کہ میں اس ملک کے چند دولت مند ترین افراد میں سے ایک ہوں اور جب چاہوں تم جیسوں کو کسی حقیر کیڑے کی طرح مسل دوں، اس لیئے عقل سے کام لو اور مجھے وہیں چھوڑ آؤ جہاں سے اٹھایا تھا۔

میں جانتا ہوں کہ تم مجھے کسی حقیر کیڑے کی طرح مسل سکتے تھے مگر آج تمہاری حیثیت ایک حقیر کیڑے سے بھی گئی گزری ہو چکی ہے، یہاں نہ تو تمہاری دولت کام آنے والی ہے اور نہ ہی دولت سے خریدی جانے والی پولیس اور تمہارے پالتو کتے۔ آج فیصلے کی گھڑی ہے اور چوائس تمہاری اپنی ہوگی۔

فیصلہ،،،،،، کیسا فیصلہ؟
میں نے استفسار کیا،

ڈیل یہ ہے کہ تم میرے لئے چار ضرب آٹھ فٹ کا ایک گڑھا کھودو گے جسکی گہرائی 6 فٹ ہوگی، اس کام کے لیئے تمہارے پاس 8 گھنٹے ہیں اگر تم نے مقررہ وقت پر کام مکمل کرلیا تو میں تمہیں کنپٹی پر گولی مار کر ایک آسان سی موت دوں گا دوسری صورت میں تمہارے دونوں گھٹنوں اور ہاتھوں پر گولیاں مار کر تمہیں اسی صحرا میں بھوکا پیاسا مرنے کے لیئے چھوڑ جاؤں گا۔

یہ ایک انتہائی بے ہودہ ڈیل ہے، اور پھر تم نے یہ سوچا بھی کیسے کہ میں تمہاری بات مان لوں گا؟
دیکھو مسٹر تم جو کوئی بھی ہو ایک بات جان لو کہ اس معاملے کا ایک تیسرا پہلو بھی ہے، تم جانتے ہو کہ میں بے انتہا دولتمند ہوں اس لیئے تم چاہو تو میں تمہیں اپنی جان بخشی کے عوض ایک کروڑ روپیہ دینے کو تیار ہوں۔

واہ رے سیٹھ باٹلی والا تمہاری زندگی کی قیمت محض ایک کروڑ ہے؟
تمہارے بینکوں میں مالِ حرام کے اربوں روپے رکھے ہیں وہ کس دن کام آئیں گے؟
تمہارے مرنے کے بعد تمہاری بیوی اس رقم پر عیش کرے گی جو ابھی جوان اور حسین ہے،

چلو ٹھیک ہے 2 کروڑ کے بارے میں کیا خیال ہے؟
پستول بردار نے اچانک پسٹل میرے گھٹنے پر رکھ دیا اور کہا کہ اگر 2 منٹ کے اندر میں نے گڑھا کھودنا شروع نہیں کیا تو وہ اس ڈیل کے دوسرے حصے پر عمل کردے گا۔
اب مجھے حالات کی سنگینی کا احساس ہوا، موت کے خوف سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور میں نے فیصلہ کرلیا کہ گڑھا کھودوں گا تو ممکن ہے کچھ وقت مل جائے اور میرے گھر والے مجھے تلاش کرلیں، چنانچہ بیلچہ پکڑا اور کھدائی شروع کردی۔

دس منٹ تک بیلچہ چلانے کے بعد میری سانس پھول گئی اور مجھے شدید پیاس نے آلیا میں نے پانی مانگا تو میرے ممکنہ قاتل نے ایک لیٹر کی بوتل میرے ہاتھ میں پکڑا دی اور کہا کہ اگلے 8 گھنٹے تک اور پانی نہیں ملے گا،
ایک تو صحرا اور دوسرے میں اس قدر مشقت کا عادی بھی نہیں تھا اس لیئے پیاس کی شدت سے حلق میں کانٹے سے چبھ رہے تھے مگر مجھے پانی کو کفائت شعاری سے استعمال کرنا تھا،

نصف گھنٹے کے بعد میں اس قدر تھک گیا کہ ایک طرف بیٹھ کر سستانے لگا،
کام چور، چلو اٹھو اور گڑھا کھودو، 4 گھنٹے کے بعد 30 منٹ کا وقفہ ہوگا جس میں تمہیں کھانا بھی دیا جائے گا اور اسی عرصہ میں تم آرام بھی کرو گے۔ چلو اب اچھے بچوں کی طرح کام شروع کردو۔

تب مجھے یاد آیا کہ میں اپنی فیکٹری کے مزدوروں کو کام کے دوران سگریٹ تک نہیں پینے دیتا تھا ایک دوسرے سے بات کرنا منع تھی اور خلاف ورزی کرنے والے کو فوری طور پر ملازمت سے فارغ کردیا جاتا۔
میرے دفتر میں منرل واٹر کا ڈسپینسر لگا تھا لیکن مزدوروں کو ٹونٹیوں سے آنے والا پانی پینا پڑتا تھا جس میں شہر بھر کی غلاظت بھی شامل ہوا کرتی تھی، تب میں نے غور کیا کہ مجھے دی جانے والی بوتل بھی منرل واٹر کی نہیں تھی بلکہ یہ گدلا پانی تھا جسے میں عام حالات میں دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتا مگر آج اسے پینے پر مجبور تھا۔

جب کھانے کا وقفہ ہوا تو پستول بردار نے اپنے تھیلے میں سے میلا کچیلا کپڑا نکالا جس میں ایک باسی روٹی اور اس پر آم کا آچار رکھا تھا ، یہی میرا آج کا لنچ تھا،
ایک ایسی مشقت کہ جس کے بعد میرا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا اوپر سے صحرا کی شدید گرمی،،، پھر بھوک سے جان نکلی جارہی تھی اس لیئے
چار و ناچار یہی لنچ زہر مار کرنا پڑا،
جی ہاں سیٹھ باٹلی والا جو ایک لنچ پر ہزاروں روپے بخشیش دینے پر قادر تھا آج اچار کے ساتھ باسی روٹی کھانے پر مجبور تھا،

جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا زندگی کی امید ختم ہوتی جا رہی تھی، آج مجھے اپنی دولت کے بے وقعت ہونے کا شدت کے ساتھ احساس ہوا کہ وہ دولت جو میری زندگی نہیں بچا سکی وہ میرے کس کام کی؟
اب میں زندگی سے بالکل مایوس ہوچکا تھا کونکہ اگلے نصف گھنٹے میں میرا کام مکمل ہو جانا تھا اور اسکے بعد ایک گولی، جو میرے جسم و جاں کا رابطہ منقطع کر دیتی اور شائد یہی گڑھا میری آخری آرام گاہ بننے جارہا تھا۔

مقررہ وقت سے کچھ پہلے ہی میں نے اپنا کام مکمل کیا اور اپنے قاتل کو آواز دی
کہ وہ میرے کام کو اچھی طرح چیک کرلے اب میں ذہنی طور پر موت کو گلے لگانے پر تیار تھا، مگر پسٹل بردار تو گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو چکا تھا، میں نے ادھر اُدھر دیکھا تو ایک ٹیلے کے پیچھے اپنی جیپ دکھائی دی جس میں چابی لگی تھی، میں نے جیپ سٹارٹ کی اور شہر کی طرف روانہ ہوگیا۔

فساد پلس ٹی وی چینل کے نمائندہ سلیم آگہی نے کیمرہ آن کروایا اور تعارفی کلمات ادا کیئے،،
یہ ہیں ہمارے ملک کے بہت بڑے صنعتکار سیٹھ باٹلی والا جنہوں نے اپنی فیکٹری کے کارکنوں کے اوقات کار 8 سے کم کرکے 6 گھنٹے کردئیے ہیں اور اور اسکے ساتھ ہی انکی تنخواہوں کو بھی ڈبل کردیا ہے۔
یہی نہیں بلکہ کام کے دوران کارکنوں کو ہر 2 گھنٹے کے بعد چائے یا کولڈ ڈرنک دی جائے گی اور دوپہر کا کھانا بھی فیکٹری کی طرف سے دیا جائے گا، تمام مزدوروں کی سوشل سیکورٹی میں رجسٹریشن کروا دی گئی ہے، فیکٹری میں ایک بڑا واٹر فلٹرنگ پلانٹ بھی نصب کیا گیا ہے، اور فیکڑی آنے جانے کے لیئے پک اینڈ ڈراپ کی فری سہولت بھی شروع کردی گئی ہے۔

جی سیٹھ صاحب، آپ کے دل میں مزدوروں کی محبت کیسے جاگ پڑی؟ فساد پلس کے نمائندے نے سوال کیا،
اللہ جب بھی کسی کو ہدائت دینا چاہے تو اسکے لیئے کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتا ہے، میں اپنے گمنام محسن کا شکرگزار ہوں جس نے عملی تجربے کے بعد مجھے احساس دلایا کہ جسمانی مشقت کیا چیز ہوتی ہے،
میں دیگر تمام فیکٹری اونرز سے بھی درخواست کروں گا کہ لیبر کے حقوق انہیں ضرور دیں ، آپکی تشریف آوری کا بہت بہت شکریہ،
یہ کہہ کر میں نے سلیم آگہی سے الوداعی مصافحہ کیا اور پھر فیکٹری ورکرز کے ساتھ لنچ میں شریک ہوگیا۔