مرزا جی کا کرایہ دار

بدھ، 27 نومبر، 2013


کل ہمارے دوست مرزا صاحب تشریف لائے تو انکی آنکھیں لال سرخ ہورہی تھیں اور چہرے پر غصے کے تاثرات یوں ثبت تھے جیسے کئی دہائیوں کا غصہ آج ہی نکالنے کے موڈ میں ہیں،

مراز ساحب کو دیکھتے ہی میں سمجھ جاتا ہوں کہ انکے ساتھ خیریت نہیں ہے اس لیئے انہیں ادھر ادھر کی باتوں میں لگا کر انہیں بہلانے کی کوشش کرتا ہوں، مگر آج تو مرزا ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے اور میری کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھے،

میں انہیں گھیر گھار کے سیاست کی طرف لایا تو وہ فوجی حکمرانوں پر برس پڑے، ایوب خان سے لیکر یحیٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے وہ لتے لیئے کہ میں تو ہکا بکا رہ گیا۔

باقی آمروں کے لیئے تو مرزا نرم گوشہ رکھتے ہی ہیں لیکن خاص طور پر ضیاء الحق کو تو ولی مانتے ہیں، اسی لیئے مجھے انکی اس کایا کلپ پر بڑی حیرت ہوئی۔ پہر حال چائے کا دور چلا اور اسکے بعد میں نے مرزا سے انکا مسئلہ دریافت کیا۔

جس پر انہوں نے فرمایا کہ تمہیں تو معلوم ہے کہ میں نے اوپر والی منزل کرائے پر دے رکھی ہے، شیخ صاحب نے پچھلے مہینے پورشن خالی کردیا تھا اب اسکی جگہ آنے والے نئے کرائے دار کے ہاتھوں مرزا بہت پریشان ہیں، نیا نیا لفٹین بنا ہے لیکن تمیز تو اسے چھو کے بھی نہیں گزری، ہر روز رات کو دیر سے گھر آتا ہے۔

گھر واپس آکر اپنے 30 کلو وزنی بوٹ اتارنے کے بعد باری باری دور کونے میں پھینک دیتا ہے جسکی وجہ سے چھت پر زوردار آواز پیدا ہوتی ہے اور میری آنکھ کھل
جاتی ہے، کوئی 2 گھنٹے کروٹیں بدلنے کے بعد دوبارہ نیند نصیب ہوتی ہے۔

کل میں نے ڈرتے ڈرے اس سے شکائت کی کہ بیٹا جب تم بوٹ پھینکتے ہو تو ہمارے آرام میں خلل پڑتا ہے اس لیئے اپنے بوٹ اتارنے کے بعد آرام سے کونے میں رکھ دیا کرو، جس پر اس نے بڑی معذرت کی لیکن رات کو دوبارہ اس نے یہی حرکت کرڈالی اور ایک بوٹ کو زوردار آواز سے پھینکا جس سے ہم جاگ گئے اور ساری رات اسی انتطار میں جاگتے رہے کہ کب یہ بد بخت دوسرا جوتا پھینکے اور ہم دوبارہ سونے کی کوشش کریں۔

آج صبح جاتے جاتے اس نے ہمارا دروازہ کھٹکٹایا اور مجھ سے دوبارہ معذرت کی کہ انکل رات میں نے ایک جوتا پھینکا تو مجھے یاد آیا کہ آپ میرے اس اقدام سے بے آرام ہوتے ہیں اس لیئے میں نے دوسرا جوتا بڑی احتیاط سے ایک کونے میں رکھ دیا تھا، امید ہے کہ اب تو آپ کو مجھ سے کوئی شکائت نہیں ہوگی۔