موت کا نوٹیفکیشن

اتوار، 27 اکتوبر، 2013


میں نے کہا سنتے ہیں،،،،!
شکیل کی بیوی نے اسے موٹر سائیکل باہر نکالتے ہوئے دیکھ کر کہا، آج یاد سے لون اپلائی کر دیجئیے گا کیونکہ کل رضیہ کے سسرال والے آئے تھے اور جلد از جلد شادی پر زور دے رہے تھے، ہمارے وسائل اتنے نہیں اس لیئے بینک سے لون لے کر ہم رضیہ کی شادی کردیں گے اور لون کی رقم تنخواہ میں سے آہستہ آہستہ کٹوا کر اس قرضے سے نجات حاصل کرلیں گے۔

شکیل یو بی ایل کی برانچ میں گریڈ تھری کا آفیسر تھا جس کی تنخواہ اتنی ضرور تھی کہ اس نے اپنے بچوں کو معیاری تعلیم بھی دلوائی اور اسکا رہن سہن بھی عام مڈل کلاس فیملیوں کی نسبت بہتر تھا۔

یہ 13 اکتوبر 1997 کا ایک منحوس دن تھا جب شکیل اپنی بیٹی کی شادی کے لون اپلائی کرنے کا فیصلہ کرکے بینک میں پہنچا مگر وہاں کا تو منظر ہی کچھ اور تھا، مینجر نے اسے اپنے کمرے میں بلا کر جبری گولڈن شیک ہینڈ کا نوٹس تھمایا اور اسی وقت ملازمت سے فراغت کی نوید بھی سنا دی،

نہ کوئی وکیل اور نہ ہی دلیل، بس ایک نادر شاہی حکمنامہ جاری ہوا اور 5416 سے زیادہ ملازمین کو 4 گھنٹے کی قلیل مدت میں نوکریوں سے فارغ کردیا گیا۔ ایسا ظلم اور ناانصافی صرف پاکستان جیسے ملک میں ہی ممکن تھی جہاں پر خدا کا نام تو لیا جاتا ہے لیکن تمام اقدامات شیطان کی پیروی میں کیئے جاتے ہیں۔

جب شکیل کے سامنے یہ نوٹس رکھا گیا تو اسکی آنکھوں کے سامنے دنیا تاریک ہوگئی، زمین اور آسمان گھومنے لگے اور وہ بے دم ہوکر مینجر کے آفس میں ہی ڈھیر ہوگیا۔ اسے فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا مگر اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔ اسکی بیوی کو جب اسکی موت کی خبر دی گئی تو وہ بھی بے ہوش ہوگئی ، چند گھنٹوں کے بعد ہوش آیا تو اسکے جسم کا دایاں حصہ مفلوج ہوچکا تھا۔

شکیل کے دونوں بیٹے تلاش روزگار میں بیرون ملک چلے گئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ انہوں نے وہیں شادیاں رچا لیں اور پھر پلٹ کر اپنی ماں اور بہن کو پوچھا تک نہیں۔ رضیہ کے سسرال والوں نے اسی وقت رشتہ توڑ دیا تھا جب انہیں محسوس ہوا کہ اب جہیز کے نام پر ایک تنکا بھی ملنے والا نہیں۔ وہ آج بھی اپنی ماں کی دیکھ بھال کر رہی ہے اور نہ جانے کب تک کرتی رہے گی؟

یہ کسی ایک شکیل کی کہانی نہیں ہے بلکہ اس روز 4 گھنٹے کے اس قیامت خیز ظلم اور جبر کے دوران یو بی ایل کے 50 سے زیادہ ملازمین کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ اپنی جان کی بازی ہار گئے اور ایسا صرف اور صرف طمع نفسانی کی خاطر کیا گیا تاکہ ملازمین کی تعداد کم کرکے ادارے کے منافع کو کئی گنا بڑھایا جائے اور پھر اس ظالمانہ کاروائی کے بعد یو بی ایل کو پرائیویٹ کمپنی کی تحویل میں دے دیا گیا۔

5400 سے زیادہ فیملیوں کا معاشی طور پر قتلِ عام ہوا، 5400 سے زیادہ الم ناک کہانیاں تخلیق کی گئیں مگر نہ تو زمین ہلی اور نہ ہی آسمان ٹوٹا۔ ساڑھے پانچ ہزار گھرانے اس پاک سرزمین پر بے روزگار اور بے آسرا ہوگئے مگر عدل و انصاف کے ایوانوں میں کوئی زلزلہ نہیں آیا، اب مزید 31 ادارے پرائیویٹائز کرنے کی ''خوشخبری'' سنائی جارہی ہے ، پاکستانی عوام سے اپیل ہے کہ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور قومی اثاثوں کی تجارت کرنے والوں کا محاسبہ کریں۔

آج جبکہ اس بات کو 16 سال گز چکے ہیں، اس بینک کے متاثرہ ملازمین ہر دروازہ کھٹکھٹانے کے باوجود انصاف سے محروم چلے آرہے ہیں۔ کیا جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب ان پر خصوصی شفقت فرمائیں گے؟