جانے کب ہوں گے کم ؟؟؟

جمعہ، 13 دسمبر، 2013


مشرف کی فوجی حکومت کے دوران ملک کے ایک بڑے حصے پر ق لیگ نے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ گروپ کے ساتھ مل کر حکومت بنائی اور کچھ حساس قسم کا ایریا جہاں جنرل صاحب کو کسی حد تک دینی سپورٹ کی ضرورت تھی وہاں ملاؤں کو حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا گیا۔

ق لیگ میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کے وہ لوگ تھے جنہوں نے سیاست کو خدمت کی بجائے اپنے زاتی مفادات کی آبیاری کا ذریعہ سمجھا اور اس نظرئیے پر خوب خوب عمل کرکے دکھایا،

دوسری جانب دیکھا جائے تو ملاؤں نے بھی بظاہر اپورزیشن کا کردار ادا کیا مگر در پردہ مشرف کو سپورٹ کرتے رہے، یہاں تک کہ اسے باوردی صدر بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا، اس وقت کے صوبہ سرحد میں ملاؤں کی حکومت ہونے کے باوجود پاکستان نہ صرف دہشت گردی کی جنگ میں امریکیوں کا اتحادی بنا بلکہ نیٹو سپلائی کا بھی اجراء ہوا۔

2008 کے انتخابات میں پاکستانی عوام نے مشرف اور اسکے حمائتیوں کا حقہ پانی بند کرکے انہیں اسمبلیوں سے باہر پھینک دیا اور اس طرح اپنے لیئے ایک تبدیلی کی بنیاد رکھ دی جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آگئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت جو کہ بار بار عوام اور روٹی کپڑا، مکان کے نعرے لگاتی ہے وہ عوامی مسئل کا حل نکالنے میں نہ صرف ناکام ہوئی بلکہ ان میں گوں نا گوں اضافے کا باعث بنی۔

مئی 2013 میں پیپلز پارٹی سے مایوس عوام نے نواز شریف پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا مگر آخری خبریں آنے تک وہ بھی عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ یہ پاکستانی عوام کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ بار بار حکومتوں کو تبدیل کرنے کا مینڈیٹ دینے کے باوجود ان عوام کی شنوائی نہیں ہورہی اور انکے مقدر میں لکھی ذلتوں میں انتہائی تیز رفتاری سے اضافہ ہورہا ہے۔ روزمرہ ضرورت کی اشیاء نہ صرف ناپید ہیں بلکہ مہنگی اور سب سٹینڈرڈ بھی ہیں، تمام کاروباری گروپوں نے اتحاد کرکے مافیاز بنا لیئے ہیں جو آئے دن حکومتوں کو بلیک میل کرکے من مرضی کے ریٹ وصول کرتے ہیں۔ تعلیمی اور علاج معالجہ کی سہولتیں تو چراغ لیکر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں، اکر کسی غریب کا بچہ ڈگری حاصل کربھی لے تو ہر دفتر کے بار لگا نو ویکیسنی کا بورڈ اس کا منہ چڑا رہا ہوتا ہے۔ امن و امان کی صورتحال اس قدر دگرگوں ہے کہ خود پولیس اور فوج بھی محفوظ نہیں ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ شائد یہ ایسے مسائل ہیں جنہیں حل کرنا ممکن ہی نہیں لیکن آئیے آپکو ایک افریقی ملک کے بارے میں مختصر سی معلومات دیں تاکہ آپکو پتہ چل سکے کہ ہمارے سیاستدان اور جرنیل کس قسم کے لوگ ہیں۔

کینی
ا ایک ایسا افریقی ملک ہے جس کی آمدنی کا زیادہ تر دارو مدار سفاری پارک اور چائے کے باغات ہیں، وہاں کی آبادی 4 کروڑ ہے۔ یہاں کوئی 6 ماہ پہلے صدارتی الیکشن ہوئے جس میں حکمران پارٹی کو شکست ہوگئی اور وہاں نئی حکومت بن گئی، اس سے قبل وہاں کے حالات اور وطن عزیز کے مسائل میں چنداں فرق نہیں تھا، بلکہ وہاں تو لوگ ٹین ڈبوں سے بنے ہوئے جھونپڑوں مین رہتے ہیں،
انکے ہاں کسی قسم کی کوئی انڈسٹری نہیں ہے اور اسے مکمل طور پر ایک کنزیومرز اسٹیٹ کا درجہ حاصل ہے۔

نئی آنے والی حکومت نے ایک کام تو یہ کیا ہے کہ انہوں نے اپنے وزراء کی تعداد 44 سے کم کرکے 18 کردی ہے، اسکے علاوہ وہاں اشرافیہ کی بجائے عوام دوست پالیسیاں اپنائی ہیں جس کے نتیجے میں 6 ماہ کے مختصر ترین عرصے میں وہاں کا نقشہ ہی تبدیل ہوگیا ہے اور سرمائے کا رخ بالائی طبقے کی بجائے عام آدمی کی طرف ہوجانے سے وہاں خوشحالی کا ایک سنہرا دور شروع ہو چکا ہے، انکی ترقی کی رفتار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج سے کوئی سال بھر پہلے امریکی ڈالر وہاں کی کرنسی کے حساب سے 150 کا ملتا تھا جبکہ اس وقت 85 پر آچکا ہے۔

وہاں کی حکومت نے کینیا سے غیر ملکی ورکروں کو نکالنا شروع کردیا ہے اور غیر ملکی کمپنیوں کو بھی اس بات کا پابند کردیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مقامی لوگوں کو ہی جاب دیں۔ پچھلے دنوں کینیا کے ایک سپر سٹور میں ہونے والی دہشت گردی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہوسکتی ہے جس میں کینیا کی حکومت کو دھمکایا گیا ہو، لیکن انہوں نے اسے زرہ برابر اہمیت نہیں دی اور امیگریشن کے قوانین کو مزید سخت بنا دیا ہے۔ دہشت گردی کے اس واقعہ میں 35 افراد ہلاک ہوئے اور وہاں کی حکومت نے اس قدر سختی کردی کے اب وہاں پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا، ایک پاکستان ہے جہاں انسانی جان کی کوئی وقعت ہی نہیں ایک ایک دھماکے میں 200 لوگ مارے جاتے ہیں اور ہمارے حکمران دہشت گردوں کی مذمت اور مرنے والوں کے لواحقین کے ساتھ ہمدردیاں کرنے کے بعد پھر اپنی لوٹ مار میں مشغول ہوجاتے ہیں۔
اس وقت تک پاکستان میں 75 ہزار سے زیادہ لوگ دہشت گردانہ کاروائیوں کا نشانہ بن چکے ہیں، کتنی سہاگنیں بیوہ اور کتنے ہی بچے یتیم ہوچکے؟
کتنی ہی مائیں آج بھی اپنے بیٹوں کی واپسی کی امید میں گھروں کے دروازوں پر نطریں جمائے آنسو بہا رہی ہیں مگر حکمران ابھی تک اپنے عوام کی حفاظت کے لیئے کوئی بھی ٹھوس پالیسی بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

کینیا حکومت کی پالیسیاں دیگر ممالک کے لیئے قابلِ قبول ہوں یا نہ ہوں مگر انکے اپنے عوام کے مفاد میں ہیں، اسی طرح اور بھی بہت کچھ ایسا ہے کہ جسے یکسر بدل کر رکھ دیا گیا ہے اور وہاں کے عوام کو پتہ چل رہا ہے کہ کوئی تبدیلی آئی ہے، اسکے برعکس پاکستانی عوام نے مختلف پارٹیوں کو دو تہائی اکثریت دے کر بھی دیکھ لیا لیکن انکی زندگیوں میں بہار کا ایک جھونکا تک نہیں آسکا۔ یہ صورتحال خود حکمران طبقے کے لیئے الارمنگ ہے اور شائد عوامی ابال خطرے کے نشان کے قریب تر آتا جارہا ہے،،، وہ دن دور نہیں جب پریشر ککر ایک دھماکے کے ساتھ پھٹ جائے گا۔