تبدیلی

جمعرات، 31 اکتوبر، 2013


الیکشن کا نقارہ بج گیا تو ہمارے علاقے کے وڈے زمیندار صاحب نے ایک مرتبہ پھر الیکشن میں کھڑے ہونے کا پروگرام بنایا۔

یہ علاقہ انکی جاگیر تھا اور یہاں کے رہنے والے زیادہ تر لوگ انکے جدی پشتی مزارعے تھے جو انکے خلاف ووٹ دینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ چناچہ انہیں یقین تھا انکے مقابلے میں اول تو کوئی کھڑا نہیں ہوگا اور اگر کسی نے اتنی ہمت کر بھی لی تو اسکی ضمانت تک ضبط ہو جائے گی کیونکہ انکے بغیر اس علاقے میں پتہ بھی نہیں کھڑکتا تھا۔

اس سے قبل بھی ہر مرتبہ جیت انہی کا مقدر بنی مگر یہ الگ بات کہ علاقے کے مکینوں کا مقدر کبھی بدل نہیں پایا، وہی بھوک اور ننگ کا عفریت، وہی علاج کے بغیر زندگی ہار دینے کا عذاب، شہروں کی طرف جانے والی پکی سڑکوں کا فقدان اور حصول علم کے کے لئے سکولوں کی عدم موجودگی ان لوگوں کی زندگی کا حصہ بنی رہی اور مستقبل میں بھی ان کے حالات بدلنے کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔

چوہدری صاحب کے گھر میں ڈش لگی ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ دنیا میں ہونے والے واقعات سے باخبر رہتے تھے، چونکہ انتخابات کا غلغلہ تھا اس لیئے تمام پارٹیاں وقت خرید کر ٹی وی چینلز پر خوب دیو مالائی قسم کے وعدے وعید کرنے میں مصروف تھیں ان میں سے ایک وعدہ سب پارٹیوں کا مشترکہ وعدہ تھا کہ اس مرتبہ تبدیلی لائی جائے گی اور نئے امید واروں کو مواقع دئیے جائیں گے،

چوہدری صاحب نے خوب غور و خوص کے بعد علاقے کے معززین کا ایک اجلاس اپنی حویلی میں طلب کرلیا۔
جب تمام مہمان اکٹھے ہو گئے تو چوہدری صاحب نے فرمایا کہ بھائیو،،،!
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ الیکشن کا زمانہ آگیا ہے اور مجھ پر علاقے کے غریب مزدوروں اور ہاریوں کا شدید دباؤ ہے کہ میں ایک مرتبہ پھر اس علاقے کے عوام کی ''خدمت'' کروں مگر میں چاہتا ہوں کہ اس مرتبہ کچھ تبدیلی لائی جائے اور میں خود الیکشن لڑنے کی بجائے آپ لوگوں کو دعوت دوں تاکہ آپ ایک متفقہ امیدوار چن کر مجھے بتا دیں تاکہ ہم سب اسکی حمائت کرکے اسے اسمبلی میں بھیج سکیں۔

تمام لوگوں نے چوہدری صاحب کے اس جذبے کو سراہا کہ اب وہ اپنی جگہ کسی اور کو موقع دینا چاہتے ہیں اور یہ انکے بڑے پن کی دلیل ہے ورنہ یہ تو انکی جیتی ہوئی سیٹ ہے۔ چنانچہ ایک نوجوان اٹھا اور کہنے لگا کہ میں اس مرتبہ الیکشن میں حصہ لینا چاہتا ہوں اور انشاء اللہ علاقے کے عوام اور چوہدری صاحب کے معیار پر پورا اترنے کی کوشش کروں گا کیونکہ میں نے معاشیات اور سوشل سٹڈیز میں ایم اے کیا ہوا ہے۔

یہ سن کر وڈے چوہدری صاحب کا ایک گن مین آگے بڑھا اور اس نوجوان کو گریبان سے پکڑ کر بولا،،، اوئے وڈے پڑھاکو،،، تمہیں اتنی تمیز بھی نہیں ہے کہ یہاں تم سے بڑے اور عمر رسیدہ لوگ بھی بیٹھے ہیں اور انکی رائے سنے بغیر اپنی ہانکے چلے جارہے ہو؟
تم تو ابھی سے بزرگوں کو نظر انداز کررہے تو کل الیکشن جیت کر تم سے کیا امید رکھی جاسکتی ہے؟
اتنی بے عزتی کے بعد یہ نوجوان شرمندہ سا ہو کر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔

اسکے بعد ایک بابا جی اٹھے اور کہنے لگے کہ یہ بالکل درست ہے کہ الیکشن لڑنا تجربہ کار اور سن رسیدہ لوگوں کو ہی زیب دیتا ہے جنہوں نے زمانے کا سرد و گرم دیکھ رکھا ہو،
اس مرتبہ وڈے چوہدری صاحب کا دوسرے گن مین نے اپنا نمک حلال کیا اور بزرگ کا مخاطب کرکے بولا،
او بابا جی،،،، تم سے اپنی ٹانگوں پر تو کھڑا ہوا نہیں جارہا اور چلے ہو الیکشن لڑنے؟
یہ کام تمہارے بس کا نہیں ہے بلکہ کوئی ایسا بندہ تلاش کرو جس نے دنیا دیکھ رکھی ہو تاکہ لوگوں کے مسائل چٹکی بجاتے حل ہو جائیں۔

اب ایک ادھیڑ عمر کا چھوٹا زمیندار کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میں نے دنیا کے بہت سے ملکوں کا دورہ کیا ہے آپ نے دیکھا بھی ہوگا کہ میں کس طرح کھیتی باڑی میں جدید مشینیں اور ادویات کے علاوہ ولائتی طریقے استعمال کرکے آپ لوگوں سے فی ایکڑ دو گنا زیادہ پیداوار حاصل کرتا ہوں۔ اگر مجھے اسمبلی میں جانے کا موقع مل جائے تو میں اپنے تجربے سے عوام الناس کو بھی فائدہ پہنچاؤں گا۔

اس مرتبہ وڈے چوہدری کا تیسرا گن مین حرکت میں آیا اور بولا،
رہنے دے چاچا حمید، ہم نے دیکھا ہے تمہارا باہر کا تجربہ، جب سے تم پاکستان واپس آئے ہو ہمارے علاقے میں بغاوت پھیل رہی ہے نوجوان بڑی بڑی باتیں کرنے لگے ہیں، حقوق و فرائض کے قصے سنانے شروع کردئیے ہیں، نہ بڑوں کا لحاظ اور نہ چھوٹوں کی پرواہ،،،
تمہاری وجہ سے ہمارے علاقے کے نوجوانوں کا اخلاق تباہ ہورہا ہے، ہر کسی کو برابری کے سبق پڑھاتے پھرتے ہو، اگر تم جیت گئے تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے اس لیئے تم تو ہمیں معاف ہی رکھو۔ ہم نے اپنی نسل کا مسستقبل تباہ نہیں کروانا۔

اس عزت افزائی کے بعد اگر کسی کا الیکشن لڑنے کا ارادہ تھا بھی تو اس نے توبہ کرلی اور سب لوگ خاموش ہو کر بیٹھ گئے، وڈے چوہدری صاحب نے کھڑے ہوکر کہا کہ بھائیو ایک مرتبہ پھر سوچ سمجھ کر کوئی متفقہ امیدوار چن لو مگر کسی کو جرآت نہیں ہوئی۔

چنانچہ چوہدری صاحب نے فرمایا کہ اگر آپ لوگ الیکشن لڑنا نہیں چاہتے تو پھر مجبوراً مجھے تو میدان میں اترنا ہی ہوگا کیونکہ شمالی پنڈ کے ملکوں کے لیئے میدان تو کھلا نہیں چھوڑ سکتے،
اور پھر تبدیلی نہ سہی، جمہوریت بھی تو کسی چیز کا نام ہے نا،،،،!